چھاپ تلک سب چھین لی ری موسے نیناں مِلائی
کے
بہت سے فن کاروں نے اپنے اپنے انداز اور رنگ میں‘ گایا ہے۔ اس گیت کو گانے
کے لیے‘ کئی طرح کی لے اور طور اختیار کیے گیے ہیں۔ ہر لے اور طور‘ قابل
تحسین ہے۔ گیت چوں کہ ساڑھے سات سو سال ۔۔۔۔ ١٢٥٣ تا ٢٠١٦۔۔۔۔ سے زیادہ
پرانا‘ اس لیے اس کی گائیکی کے لیے‘ کلاسیکل میوزیکل انسڑرومنٹ کا استعمال
ہونا‘ فطری سی بات ہے۔ مجھے یہ ہی گیت‘ ظلا خاں کی آواز میں‘ سننے کا اتفاق
ہوا ہے۔ جدید لباس‘ جدید طور‘ جدید انداز اور جدید سر ساز کا یہ رنگ‘
باظاہر عجیب اور حیرت سے خالی نہیں۔ ایک آدھ کو سر ساز سے متعلق لوگ پسند
نہیں آئے۔ مثلا کہا گیا ہے: ۔۔۔۔۔۔۔
Can someone edit this video and remove the stupid guy in purple.
اگر غور کیا جائے تو یہ اوروں سے الگ تر ہی نہیں‘ بڑھ کر بھی ہے۔ گائیک تو
باکمال ہے ہی‘ لیکن اس کے ہر دو سازندے اپنا جواب نہیں رکھتے۔ اس گیت کو
پہلے سنا جائے۔ سماعی آلات‘ بیک وقت گیارہ سازوں کا پتا دیں گے اور یہ
گائیک کی آواز سے ہم آہنگ ہیں۔ یہ ساز‘ گائیک کی آواز کو حسن بخش رہے ہیں۔
ان سازوں کی آوازکو‘ اگر گائیک کی آواز سے الگ کر دیا جائے‘ تو موجودہ لطف
کی صورت قطعی برقرار نہیں رہے گی۔
دوسری بار اسے دیکھا اور سنا جائے‘ تو حیرت کی انتہا نہ رہے گی‘ کہ فقط ایک
سازندہ کام کر رہا ہے‘ جس کے ہاتھوں کی انگلیاں حرکت میں ہیں‘ ساتھ میں ایک
پاؤں اور سر متحرک ہیں۔ ہر دو اعضا‘ کسی ساز کی آواز پیدا نہیں کر رہے‘ ہاں
البتہ‘ پانچ سازوں کی آواز پیدا کرنے اور گائیک کی آواز سے ہم آہنگ کرنے
میں‘ معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ عقب میں ایک نوجوان جدید رقص میں مصروف ہے۔ اس
کا پورا جسم مصروف عمل ہے۔ اس کے کا منہ‘ ہاتھ میں پکڑے مائیک میں گھسا ہوا
ہے اور وہ منہ سے‘ چھے قسم کے سازوں کی آوازیں نکال رہا ہے۔ یہ چھے سازوں
کی آوازیں‘ گٹار سے برآمد کی جانے والی پانچ آوازوں اور گائیک کی آواز سے
ہم آہنگ ہیں۔
چھے قسم کے سازوں کی آواز نکالنے کے لیے‘ اس کا منہ‘ گلا‘ پھپھڑے اور زبان
مشقت میں ہیں۔ بلارقص‘ ان نکلنے والی چھے سازوں کی آوازیں‘ ٹھہراؤ اور یک
رنگی کا شکار ہو جائیں گی۔ ہر سہ فنکار عہد قدیم کے اس پرکیف اور روحانیت
سے لبریز گیت کو‘ عہد جہد جدید سے ہم کنار کرنے کی کامیاب کوشش میں‘ مصروف
ہیں۔ ان کی فنی صلاحیت اور اختراحی فکر اور کوشش کی داد نہ دینا‘ زیادتی کے
مترادف ہو گا۔ کسی اچھے اور نئے طور و چلن کی تحسین نہ کرنا‘ سراسر زیادتی
کے مترادف ہوتا ہے۔ باور رہنا چاہیے کہ پرانے گیت‘ طبلے کے بغیر گائے ہی
نہیں جا سکتے۔ ہر دو سازندوں نے یہ کمی باخوبی پوری کر دی ہے۔ سماعی غور
کریں گے‘ تو احساس ہو جائے گا کہ یہ گیت بلاطبلہ گایا نہیں گیا۔
مشاہدے میں آیا ہے‘ کہ گائیک حضرات کلام میں اکثر گاتے سمے‘ کمی بیشی کرتے
رہتے ہیں۔ مکتوبی صورت یا پھر ہدایت کار کا بھی اس میں عمل دخل ہوتا ہے۔
امیر خسرو کا گیت مع اصلاحی صورت کچھ یوں ہے۔
اپنی چھب بنائی کے جو میں پی کے پاس گئی
جب چھب دیکھی پیو کی تو اپنی بھول گئی
چھاپ تلک سب چھین لی ری موسے نیناں مِلائی کے
بات ادھم کہہ دی نی رے مو سے نیناں ملائی کے
..........
چھاپ تلک سب چھین لی ری موسے نیناں مِلائی کے
اپنی ہی کر لی نی موسے نیناں مِلائی کے
چھاپ: چھب
موسے: مو سے
ری: رے
چھاپ تلک سب چھین لی ری موسے نیناں مِلائی کے
چھب تلک سب چھین لی نی رے مو سے نیناں مِلائی کے
..........
اپنی ہی کر لی نی موسے نیناں مِلائی کے
اپنی ہی کر لی نی رے مو سے نیناں مِلائی کے
..........
پریم بھٹی کا مدھوا پلا کر
متوالی کر لی نی موسے نینا مِلائی کے
متوالی: متواری
کے پریم بھٹی کا مدھوا پلائی
متواری کر لی نی رے مو سے نیناں مِلائی کے
..........
بل بل جاؤں میں تورے رنگ رجوا
اپنی ہی کر لی نی رے مو سے نیناں مِلائی کے
سی بھی آتا ہے تاہم ہی قریب تر لگتا ہے
..........
خسرو نظام کے بل بل جاؤں
اپنے ہی رنگ میں رنگ لی نی رے موسے نیناں مِلائی کے
کھسرو نجام کے بل بل جائیے
اپنے ہی رنگ میں رنگ لی نی رے مو سے نیناں مِلائی کے
..........
link:
https://www.youtube.com/watch?v=sUyfhQtT30g&nohtml5=False
|