پناما لیکس نے دنیا کے کئی ممالک کے سر گردہ رہنما ؤں ،
سربر اہوں،وزرا، سیاستدانوں ، بزنس مینوں سمیت کئی اہم شخصیات کے بارے میں
انکشافات کیے ہیں کہ ان کا بزنس یعنی کاروباردوسرے ممالک میں بھی ہے یعنی
اپنے ملک کے علاوہ دوسرے ممالک میں ان لوگوں کا پیسہ ہے جس کے بارے میں
ماضی میں بھی وقتاً فوقتاً رپورٹس آئی ہیں لیکن پنامالیکس کے نئے انکشافات
نے دنیا بھر میں طوفان پربا کر دیا ہے کہ اہم شخصیت خاص کر سیاستدان اپنے
ملک کے علاوہ کیسے دوسرے ملک میں پیسہ رکھ سکتے ہیں یا کاروبار کر سکتے
ہیں؟میڈیا میں یا عام لوگوں کی جانب سے جو سوالات اٹھا ئے جارہے ہیں وہ یہ
نہیں کہ کوئی آدمی دوسرے ملک میں کاروبار کیوں کرتا ہے یا اپنا پیسہ دوسرے
ملک میں کیوں رکھتا ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ جو پیسہ انہوں نے دوسرے ملک میں
منتقل کیا ہے وہ قانونی ہے یعنی اس پیسہ پر قانون کے مطابق ٹیکس ادا ہوا
ہے، جو پیسہ منتقل ہوا ہے وہ ٹیکس چوری یا کرپشن کا تو نہیں ہے ؟ بدقسمتی
دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص اس طرح کا پیسہ ہمیشہ غیر
قانونی طور پر منتقل ہوتا ہے ٹیکس سے بچنے کیلئے ایسے حربے استعمال کیے
جاتے ہیں جب کہ زیادہ تر ایسا پیسہ خصوصاً سیاستدان کرپشن کرکے بھیجوا تے
ہیں اور ٹیکس سے بچنے کیلئے آفشور کمپنی بنائی جاتی ہے۔گزشتہ روز جب دنیا
بھر میں جب پناما لیکس کی رپورٹ آئی تو اس پر احتجاج شروع ہوا،ایک یورپی
ملک کے وزیراعظم کو عوامی احتجاج پر استعفا بھی دینا پڑا۔بھارت میں بھی کئی
سیاستدان اور بزنس مینوں سمیت شوبز سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں جب
انکشاف ہوا تو انہوں نے عدالتی کمیشن سمیت کئی آپشن پر سوچ بچارشروع کردی
ہے کہ ان انکشافات کی تحقیقات کیسے ہو تا کہ معلوم ہو سکے کہ جو رقم بیرونی
ملک بھجوائی گئی ہے وہ غیر قانونی تو نہیں ہے۔پاکستان کے بارے میں جب پناما
لیکس میں وزیر اعظم کے بیٹوں سمیت کئی تاجروں اور سیاستدانوں کے نام آئے تو
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے ہنگامی پر یس کانفرنس کرتے ہوئے
مطالبہ کیا کہ ان انکشافات کی تحقیقات ہونی چاہیے بلکہ نیب اس کی تحقیقات
کر ے کہ اربوں روپے وزیر اعظم کے کیسے لندن میں پڑے ہیں ۔ عمران خان نے
اپنے پر یس کانفرنس میں کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے آج میری بات سچ ثابت کردی کہ
جب میں کئی سال سے کہہ رہاتھا کہ وزیر اعظم کا اربوں روپے بیرونی ممالک میں
پڑا ہے اس کا حساب دینا چاہیے آج پناما لیکس میں ثابت ہو گیا کہ وزیراعظم
سمیت کئی لوگوں کا پیسہ بیرونی ممالک میں پڑا ہے۔ حکومت دوسرے لوگوں کوملک
میں کاروبار اور سرمایہ کاری کا کہہ رہی ہے جبکہ خود ان کا اربوں روپے
برطانیہ اور دوسرے ممالک میں پڑا ہے ۔
پناما لیکس کی رپورٹس اب آئی ہے جنہوں نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے
بیٹوں کے بارے میں بتایا کہ ان کا آفشور کمپنیز ہیں جس میں اربوں روپے پڑے
ہیں ۔ میرے لئے یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے کہ پناما لیکس میں اب انکشاف ہوا
کہ وزیراعظم سمیت کئی سیاستدانوں اور تاجروں کی رقم برائے نام کمپنیوں میں
پڑی ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ ملک کا زیادہ تر امیر ، سرمایہ کار اور سیاستدان
طبقہ ملک سے مخلص نہیں ہے ۔ یہ لوگ یہاں پر صرف حکمرانی کرنے آتے ہیں جب
وقت پورا ہوجائے تو واپس فرانس ، جرمنی یورپ،برطانیہ،امریکا ، دبئی اور عرب
ممالک چلے جاتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جب یہ لوگ برسراقتدار ہوتے ہیں
تب بھی زیادہ تر بیرونی ممالک میں ہوتے ہیں خاص کر مذہبی تہوراروں یعنی
عیدوں پر اپنی خاندان کے ساتھ دبئی اور لندن میں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں
حکمرانی اور پیسہ بنانے کیلئے آتے ہیں جو کرکے چلے جاتے ہیں،وزیر اعظم سمیت
سابق حکمرانوں کی تاریخ گواہ ہے لیکن اب پناما لیکس کے انکشافات سے عام لوگ
یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید ان معلومات سے لوٹا ہوا پیسہ واپس آجائے اور
تحقیقات ان پیسوں کی ہوجائے جو آفشور کمپنیوں یا دوسرے مد میں موجود ہے۔
وزیر اعظم نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ ہم ہر قسم کی تحقیقات کے لئے تیار
ہیں ہما رے خلاف پہلے بھی اس طرح سازشیں ہوئی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے جن
کے پاس ثبوت ہے کہ ہم نے کرپشن کی ہے یا ہمارا پیسہ غیر قانونی ہے وہ عدالت
جائے اور ہم پر ثابت کرے یعنی اب ہم دوسرا کام نہیں کر یں گے وزیراعظم کے
خلاف ثبوت اکٹھے کرکے عدالت جائیں گے جہاں پچاس سال کیس چلے گا۔ مجھے نہیں
معلوم کہ وزیراعظم کو کیوں اپنی صٖفائی میں اس طرح کی باتیں کرنی پڑرہی ہیں
حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ ان سمیت ملک میں ہر اثرو رسوخ رکھنے والا اور
حکمران طبقہ معصوم اور بے گناہ ہے ۔ ہمیشہ غلط الزامات لگائے جاتے ہیں جس
کاثبوت نہیں ہوتا ۔ قصور تو عوام کا ہے جو ان کوووٹ دیتے ہیں۔ ویسے مہینہ
پہلے جب وز یر اعظم یا ان کے بیٹے کو معلوم ہوا کہ یہ رپورٹس سامنے آنے
والی ہے تو انہوں نے خود ہی میڈیا کو بتایا تھا کہ اﷲ کا شکرہے کہ ہمارے
آفشور کمپنیز ہیں جس کا مالک وزیراعظم کا بیٹا اور ملک وقوم کا خادم ہے جس
میں اربوں روپے پڑے ہیں اور اس کا بنیادی مقصد ٹیکس کے پیسوں کو قانونی طور
پر بچانا ہے اور یہ جائز ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان کی ہمشیرا مریم نواز نے
دوسال قبل عمران خان کے شور مچانے پر کہا تھا کہ ہمارا کوئی ایسا کاروبار
یا کمپنی نہیں۔اب جب ان کو معلوم ہوا کہ رپورٹس آنے والی ہے تو انہوں نے
سوچا کہ بجائے یہ کہ کل یہ رپورٹ ہندوستان کے اخبار میں آ ئے اس سے بہتر ہے
کہ ہم خود ہی کچھ نہ کچھ بتا دیں تاکہ کل کوئی ہمیں الزام نہ دے ۔
ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کہ شیر بچہ دیتا ہے یا انڈا تو سیانے نے جواب دیا
کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے چاہے انڈا دے یا بچہ ، کوئی کیا کرسکتا ہے۔ وزیر
اعظم خوامخوا پر یشان ہو رہے ہیں ۔ اس ملک میں آج تک کونسی تحقیقات یا
احتساب ہواہے جو آج ہم ثبوت اکٹھے کرکے عدالتوں میں جائے اور فیصلہ ہوجائے۔
پہلے سے نیب میں ڈیڑھ سو کیسز کی فہرست موجود ہے اس پر آج تک نہ نیب کی
جانب سے کارروائی ہوئی اور نہ ہی عدالت کو توفیق ہوئی کہ ان کیسز پر فیصلہ
کرے۔یہاں سب چلتا ہے ۔ بہت جلدپناما لیکس بھی ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ |