"حُسنِ کلام - چار عناصر"
(مبتدئین کے لئے)
یوں سمجھیں کہ دو سطور آپ نے ایسی لکھنی ہیں جن میں معنی بھی خوب ہوں،
روانی بھی ہو، موسیقیت بھی ہو اور ایک ماحول سا بھی بن جائے۔
- معنی : پڑھنے والے کو یوں لگے کہ کچھ دلچسپ بات اُس نے پڑھی؛ یا شعر نے
اُس کے اندر موجود کسی سوچ، فکر، یا تمنا کو الفاظ دیے۔
- روانی : پڑھنے والا آسان فلو میں پڑھتا جائے، زبان کو جھٹکے نہ لگیں نہ
ہی زبان ٹوِسٹ ہو۔
- موسیقیت: بات نثری نہ ہو۔
- ماحول: پڑھنے والا ایک لمحے کے لئے کسی اور دنیا میں چلا جائے۔
یہ چاروں ایک شعر میں آ گئے تو سمجھیں کمال ہو گیا۔ اور ضروری نہیں ابتداء
میں ہی کمال ہو جائے یا یہ کہ یہ چاروں عناصر ہر شعر میں ہی ہوں۔ پر اِس
طرف بڑھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
اساتذہ کے کلام میں اِن چاروں کی مثالیں مل جائیں گی۔ پر یہاں دیکھتے ہیں
کہ اِن کی کمی کیسی ہوتی ہے۔
- بے معنی یا سطحی سی بات:
جسے پڑھ کر قاری یہ سوچے "تو پھر؟" ۔ مثلاََ
"اُس نے مجھے پتھر مارا۔ میں نے کھا لیا"۔
اب اِس سلسلے میں پڑھنے والا کیا کرے؟ وہ آپ کی اِس روزمرہ سی بات کو توجہ
کیوں دے؟ (آپ ہی کی بات پر اپنا وقت کیوں لگائے؟)۔ اِس کے برعکس دیکھئے
"اُس کا پتھر بھی مجھے پھول کی طرح لگا"۔
- جھٹکے اور ٹوِسٹ:
"ہوئے رسوا جو ہم مر کے" ، یہاں "ہوئے" کے ے کے بعد "رسوا" کا ر پڑھنا اور
"رسوا" کے الف کے بعد "جو" کا جیم روانی سے پڑھنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ آپ
نے پڑھنے والے کی زبان کو ایک پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ اِس کے برعکس دیکھیں
"ہوئے مر کے ہم جو رسوا"
ایسے ہی "پہاڑ پر گڑھ" کیسے پڑھے کوئی زبان کو گِرہیں لگوائے بغیر؟
- نثری:
بات بالکل ہی یوں نہ لگے کہ نثر میں کہی ہے۔ مثلاََ "آج میرا دل کہہ رہا
ہے" کا موازنہ کریں "آج تو میرا دل کہتا ہے" سے۔
- ماحول کی کمی:
شعر ایسا ہو کہ تصور کی آنکھ کو گدگدائے۔ مثلاََ اِن دو باتوں میں زمین
آسمان کا فرق ہے
میں اُسے بھلا نہ پایا
تمام عمر وہ یاد آیا
اور
ناصر یوں اُس کی یاد چلی ہاتھ تھام کے
میلے میں اِس جہان کے کھونے نہیں دیا
ناصر کا شعر ایک ماحول سا بنا دیتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ ایک میلے کے عین
بیچ میں ہوتے ہیں۔ چاروں طرف رونق، خوشیاں، ہلا گلا۔ پر آپ اُس سے مستفید
نہیں ہو رہے۔ ایک غیر مرئی سی چیز آپ کا ہاتھ تھامے میلے کے بیچ و بیچ آپ
کو اپنے ساتھ لیے جا رہی ہے۔ رُکنے نہیں دیتی، مُڑنے نہیں دیتی، گُھلنے
نہیں دیتی۔
- ابنِ مُنیب |