[شعرِ رضاؔ کی مختصر توضیح]
بقلم: غلام مصطفی رضوی*
وہ دیکھ جگمگاتی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے
یہ کلام(جس کا یہ شعر ہے) سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا (وصال۱۹۲۱ء/۱۳۴۰ھ)
نے ۱۳۲۴ھ میں اپنے سفرِ حجاز میں رقم کیا۔اور جب مکہ مکرمہ سے اعلیٰ حضرت
مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے تو وہ تاریخ ۲۴؍صفر کی تھی۔ پہلی منزل
چوبیسویں شب کو جنگل میں آئی۔ اس وقت چاند معدوم ہوتا ہے۔نہ چاند کا تصور
ہوتا ہے نہ چاندنی کا۔ شب بڑی تاریک ہوتی ہے۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی اپنے
ذکرِ سفرِ مدینہ کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’توکلاً علی اﷲ تعالیٰ چوبیس
صفر ۱۳۲۴ھ کو کعبۂ تن (مکہ مکرمہ) سے کعبۂ جاں (مدینہ منورہ) کی طرف روانہ
ہوا۔‘‘ [الملفوظ، حصہ دوم، ص۳۱، طبع ادبی دُنیا دہلی ۲۰۰۵ء]
مدینے کی پہلی منزل ہے،عزمِ حاضری محبوب (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہے،
منزلِ مقصود قریب ہے، صحرائے عرب ہے، شب کا وقت ہے، اعلیٰ حضرت شب کو روشن
و منور پاتے ہیں، اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
وہ دیکھ جگمگاتی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے
اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں: ’’پہلی رات کہ جنگل میں آئی صبح کے مثل روشن
معلوم ہوتی تھی جس کا اشارہ میں نے اپنے ’’قصیدہ حضور جانِ نور‘‘ میں کیا
جو حاضریِ دربارِ معلی میں لکھا گیا تھا:
وہ دیکھ جگمگاتی ہے شب اور قمر ابھی
پہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے‘‘
[ایضاً، ص۳۱۔۳۲]
شب جگمگا رہی ہے۔ بڑی تاباں و روشن ہے۔ یہ روشنی آسمان کے چاند کی نہیں ہے۔
چاند تو ۲۴؍ صفر کو نہیں ہوتا۔ کسی پہر نہیں ہوتا۔ ۲۴؍ ویں صفر کی شب دُنیا
کا چاند پہروں غائب ہوتا ہے۔ تو یہ چاندنی کس چاند کی ہے؟ اس ماہِ مدینہ (صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی ہے؛ جس کی روشنی کو رب تعالیٰ نے دوام بخشا، عروج
عطا کیا، زوال سے محفوظ رکھا، گہن سے مبرا کیا، عیبوں سے بَری کیا، بے عیب
چاند ہے طیبہ کا، جو غروب نہیں ہوتا، جو سدا چاندنی سے دلوں کو نور نور
بناتا ہے، کشتِ ایمان جس سے سیراب ہے، مومن کا باطن جس سے نور نور ہے،
دُنیا کا چاند چمکتا ہے پہر، دو-پہر کے لیے، وقتی فیض یاب کرتا ہے،ہمیں
چاندنی چاہیے! ماہِ مدینہ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی، اس بارگاہِ نور سے
ملنے والی ’’تجلی‘‘ دُنیا و آخرت، قبر و حشر کو روشن کردے گی۔ زوال سے پاک
ہے یہ چاندنی۔ اس کی جستجو بندۂ مومن کا سرمایہ ہے۔ ماہِ طیبہ سے روشنی
لینے والوں نے دلوں پر حکومت کی ہے۔ زمانے کو خوش گوار انقلاب سے آشنا کیا
ہے اور اسی جستجو کو معراجِ ہستی کہا جائے تو بجا ہو:
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے
[اعلیٰ حضرت]
عشاق اسی کی جستجو کرتے ہیں۔ تجلی بارگاہِ نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے
تسکیں پاتے ہیں، اسی لیے اقبالؔ نے یہ سُراغ دیا تھا:
تازہ مِرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشقِ تمام مصطفی، عقلِ تمام بولہب
اور تاج الشریعہ بھی اسی بارگاہِ نور سے نور مانگتے ہیں، کیسے یقین کے ساتھ
سبحان اﷲ!
منور میری آنکھوں کو مِرے شمس الضحیٰ کر دیں
غموں کی دھوپ میں وہ سایۂ زُلفِ دوتا کردیں
٭٭٭
*[نوری مشن مالیگاؤں]
|