لباس ِخضر میں پھرتے ہیں ہزاروں راہزن
(syed imaad ul deen, samundri)
اللہ رہے اسیری بلبل کا اہتمام صیاد عطر مل
کے چلا ہے گلاب کا
محترم قارئین! حضرت سلیمان علیہ السلام کا عہد تھا۔ بہار کاموسم تھا۔ ٹھنڈی
ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔گُلوں کی خوشبو نے فضامیں مستی پیدا کررکھی تھی۔ درخت
کی ایک شاخ پر ایک ہد ہد کا جوڑا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ سامنے سے ایک
شخص آرہا تھا۔ ہوا کے جھونکوں سے جھولتی شاخ پر بیٹھی مادہ ہد ہد نے جب اس
شخص کو درخت کی جانب آتے دیکھا تو وہ چونک اٹھی اور اپنے خاوند سے کہا
''سرتاج اڑ چلیں ۔ شکاری آرہا ہے۔''
نرہد ہد نے صورتحال کا جائزہ لے کر کہا ''پگلی! دیکھ کیا شکاری اس طرح کے
ہوتے ہیں۔ دیکھتی نہیں اس نے گیروے رنگ کا پھٹا پرانا لباس پہنا ہوا ہے۔
پائوں سے ننگا ہے۔ بال گرد سے بھرے ہوئے ہیں۔ چہرہ غبار آلود ہے۔ وہ اپنی
مستانی چال میں چلا جارہا ہے۔ اسے تواپنے کی بھی ہوش نہیں۔ یہ تو کوئی
سادھو ہے۔ جو جنگل کی سیاحت کررہا ہے۔ مادہ ہد ہد اپنے خاوند کے دلائل سے
مطمئن ہوگئی اور وہ دونوں پھر اپنی رسیلی باتوں میں مگن ہوگئے۔ شکاری نے
انہیں غافل پا کر نشانہ لیا اور غلیل چلا دی۔ نشانہ ہدہد کو لگا اور وہ
تڑپتا پھڑکتا زمین پر آگرا۔ ظالم شکاری دھم دھم بھاگتا آیا۔ اس نے تڑپتے
ہوئے ہد ہد کو پکڑا جیب سے خنجر نکالا اور اسے ذبح کر کے تھیلے میں ڈالا
اور اپنا راستہ لیا۔ مادہ ہد ہد روتی دھوتی ، آہ وفغاں کرتی حضرت سلیمان
علیہ السلام کے دربار میں پہنچی اور کہا کہ فلاں شخص نے میرے خاوند کو قتل
کردیا ہے۔ میرے ساتھ انصاف کیا جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم پر
شکاری کو دربا ر میں حاضر کیا گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شکاری سے
کہا کہ تو نے اس کے خاوند کوکیوں قتل کیا ہے؟ شکاری نے جواب دیا''حضور میں
نے اس کے خاوند کو قتل نہیں کیا۔ میں نے تو اسے شکار کیا ہے اور شکار کرنا
آپ کی شریعت میں جائز ہے۔''
حضرت سلیمان علیہ السلام مادہ ہد ہد کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا ''شکاری نے
شکار کیا ہے۔ اور شکار کرنا جائز ہے۔ اس لیے یہ مجرم نہیں'' مادہ ہد ہد
آنسو برساتی ہوئی بولی۔ ''اللہ کے نبی! میرا مقدمہ یہ ہے کہ اگر یہ شکاری
ہے تو شکاریوں والا لباس پہنے۔ یہ سادھوئوں والا روپ دھار کے شکاریوں والا
کام کرتا ہے۔ یہ اپنے لباس اور اپنی وضع قطع سے دھوکا دیتا ہے۔ میرا خاوند
صرف اس لیے مارا گیا کہ اس نے اس کے روپ سے دھوکا کھایا۔''
دوستو! آج ہم بھی یہی رونا روتے ہیں کہ بدمذہب مسلمانوں والا لباس پہن کر
مسلمانوں والا حلیہ بنا کر اور خود کو مسلمان ظاہر کر کے مسلمانوں کے
ایمانوں کو شکار کررہے ہیں۔ ہم بھی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے ہر
اس قدم کی روک تھام کی جائے جس کے ذریعے سے یہ گروہ مسلمانوں کو دھوکا دے
سکتےہیں ۔افسوس کہ ایسا قانون موجود ہے مگر اس کے باوجود اس پر عمل کروانے
کی عملی کوشش آج تک نہیں کی گئی ۔اور اگر مسلمانوں نے ہر بدمذہب کا کھلے
عام شعائر اسلامی استعمال کرنے اور خود کو بر ملاء مسلمان کہنے سے روکنے کے
لئے اس قانون کے ذریعے انتظامیہ سے درخواست بھی کی ہے تو بجائے شنوائی کے
مسلمانوں کی حو صلہ شکنی کی گئی ۔مسلمانوں کو یہ سمجھا یا گیا کہ جناب یہ
تو ان کا حق ہے ۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ قادیانی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل
کرتے ہوئے اپنے شعائر وضع کریں اور اس کے مطابق اپنی عبادات کریں یہ تو ان
کا حق بنتا ہے مگر دنیا کا کون سا قانون کہتا ہے کہ دھوکہ دینا کسی کا حق
ہے ۔ کیا اتنی موٹی اور واضح سی بات ہمارے ارباب اختیار کو سمجھ نہیں آتی
؟نہ معلوم یہ آپ کی ناسمجھی ہے یا معصومیت ؟
ایک بہت بڑے وکیل صاحب کے گھر ڈکیتی ہوگئی۔ لوگ پرسش احوال کے لئے ان کے
گھر جمع ہوئے۔ انہوں نے وکیل صاحب سے کہا کہ آپ جیسا ہوشیار اور چالاک شخص
ڈاکوئوں سے دھوکا کیوں کھا گیا؟ آپ جیسے ذہین اور ذکی شخص نے ڈاکوئوں کے
لیے گیٹ کیوں کھول دیا؟ وکیل صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری اور نظریں جھکا کر کہنے
لگے کہ ڈاکو ''پولیس کی وردی'' میں آئے تھے۔
مسلمانو!پوری دنیا میں ہر بدمذہب پولیس کی وردی پہن کر اسلام اور مسلمانوں
پر ڈاکہ زنی کررہا ہے۔ وہ محافظ اسلام کا لباس پہن کر ایمان کی رہزنی کررہا
ہے۔ وہ چوکیدار کا روپ دھار کر ڈکیتیاں کررہا ہے۔
آج بھی تمام بدمذہب اپنے اوپر اہلسنت کا لیبل لگا کر امت کو گمراہ کرنے کی
ناکام کوشش کر رہے ہیں اہلسنت صرف یارسول اللہ ﷺکہنے والے ہیں
سونے والو جاگتے رہنا چوروں کی رکھوالی ہے |
|