حضرت عبداللہ ابن عمر(رض) سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا " جو شخص ﴿وضع وغیرہ میں ﴾کسی قوم
کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہے" ﴿احمد، ابو داؤد﴾۔ یعنی اگر
کوئی اپنے حلیہ، اپنی وضع قطع اور اپنے اندازِ زندگی میں کسی خاص قوم کی
مشابہت اختیار کرے گا وہ اُسی قوم کا فرد سمجھا جائے گا اور اللہ تبارک و
تعالیٰ اُسی کے ساتھ اُس کا حشر فرمائیں گے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص
کسی کافر قوم کا لباس اس لئے اختیار کرے کہ میں دیکھنے میں اُن جیسا نظر
آؤں تو اللہ کے نزدیک وہ شخص اُس کافر قوم میں شمار ہوگا اور اس طرح کی
مشابہت گناہِ کبیرہ ہے، چاہے وہ لباس میں ہو یا وضع قطع میں یا زندگی کے
باقی طور طریقوں میں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اولیا اللہ اور نیک لوگوں کی
مشابہت اختیار کرے گا اور اُن جیسی وضع قطع اور طور طریقے اپنائے گا تو اس
حدیث کی رُو سے اُس کا حشر بھی اُنہیں کے ساتھ ہوگا۔
اس حقیقت کا مشاہدہ ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی میں بکثرت اور باآسانی کر
سکتے ہیں کہ انسان جس سے بھی محبت کرتا ہے اور جس کی قدر ومنزلت اُس کے دل
میں ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو اُس جیسا بنانے کی کوشش کرتا ہے، اُس کی عادات و
خصائل کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے، اُس کی ظاہری وضع قطع اپنانے کی کوشش
کرتا ہے اور اُس سے منسوب ہر چیز کو دوسری چیزوں پر مقدم جانتا ہے۔ اصل میں
انسان کی مشابہت کا انتخاب اور اُسکا طرزِ زندگی، اُس کی اندرونی کیفیت و
جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ یعنی جو شخص جس قوم کی وضع قطع اور طور طریقہ
اختیار کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس قوم کی محبت اور عظمت اُس
کے دل میں موجود ہے جس کا وہ عملی طور پر اظہار کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر
اگر کوئی مسلمان مسلمانوں کے طریقہ کو چھوڑ کر کسی کافر کی وضع قطع اختیار
کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کے دل میں اُس کافر قوم کی محبت و عظمت
زیادہ ہے بہ نسبت اپنی قوم کے اور اُن کے طور طریقے اُس کے نزدیک مسلمانوں
کے طور طریقوں سے زیادہ اہم، قابلِ قدر اور قابلِ تقلید ہیں۔ خواہ وہ اس
بات کا زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے لیکن اُس کا عمل اُس کے اندر موجود اسی
جذبہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ٹھیک ہے اگر
تمہیں اُن کا اندازِ زندگی زیادہ پسند ہے تو پھر تم اُنہیں کے ساتھ ہو۔ بعض
لوگوں میں یہ جذبہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے اور اُن پر غیر مسلموں کے طور
طریقے اس حد تک غالب آجاتے ہیں کہ وہ کُھل کر غیر مسلموں کی وضع قطع اور
طور طریقوں کی حمایت اور اسلامی وضع قطع اور طور طریقوں کی مخالفت بیان
کرتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل بہت سے جدّت پسند اسلامی وضع قطع اپنانے والوں کو
بیک ورڈ، فرسودہ اور غیر مہذب کہتے ہیں اور غیر مسلموں کی وضع قطع اپنانے
کو مہذب، ماڈرن اور وسعت نظری کی علامت سمجھتے ہیں۔ تو یہاں یہ بات یاد
رکھنی چاہیے کہ دوسری قوموں کی مشابہت کا گناہ تو اپنی جگہ لیکن اگر اس کے
ساتھ شرعی وضع کو حقیر سمجھے یا اس کی برائی بیان کرے تو پھر گناہ سے گزر
کر کفر ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "ظالموں ﴿نافرمانوں﴾ کی
طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں دوزخ کی آگ آ لپٹے گی اور اللہ کے سوا
تمہارے اور دوست نہیں اور اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہوگئے تو پھر تم کو
﴿کہیں سے﴾ مدد نہ مل سکے گی" ﴿ہود ۳۱۱﴾۔ یہ یقینی بات ہے کہ کوئی اپنی وضع
اور طریقہ چھوڑ کر دوسرے کی وضع اور طریقہ خوشی سے تب ہی اختیار کر سکتا ہے
جب اس کی طرف دل مائل ہو ،اور نافرمانوں کی طرف مائل ہونے پر دوزخ کی وعید
آئی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی اللہ والوں اور نیک لوگوں کی وضع اور طریقہ
اختیار کرتا ہے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کے دل میں اللہ والوں کی محبت
اور عظمت ہے۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ انشا اللہ اُنہیں کے ساتھ اس کا
حشر فرمائیں گے جیسا کہ ایک حدیثِ میں رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
قیامت میں ہر شخص اُسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہو گا ﴿بخاری و
مسلم﴾۔ اس لئے کوشش کرنا چاہیے کہ ہمیشہ نیک لوگوں کی وضع قطع اختیار کرے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا " اور شیطان نے یوں کہا کہ میں اُن کو ﴿اور
بھی﴾ تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں
گے" ﴿نسائ ۹۱۱﴾ ۔ بعض تبدیلی تو صورت بگاڑنا ہے جیسے داڑھی منڈانا، بدن
گودنا وغیرہ اور بعض تبدیلی صورت کا سنوارنا ہے اور واجب ہے جیسے لبیں
ترشوانا، بغل و زیرِ ناف کے بال لینا اور بعض تبدیلی جائز ہے جیسے مرد کے
سر کے بال منڈا دینا یا کٹا دینا اور اس کا فیصلہ شریعت سے ہوتا ہے نہ کہ
رواج سے کیونکہ اوّل تو رواج کا درجہ شریعت کے برابر نہیں، دوسرے ہر جگہ کا
رواج مختلف ہے پھر وہ ہر زمانے میں بدلتا بھی رہتا ہے۔ ابنِ عمر (رض) سے
روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھیاں
بڑھاؤ اور مونچھیں کٹاؤ﴿متفق علیہ مشکوٰۃ﴾۔ لیکن بعض چیزیں تو ایسی کہ اگر
دوسری قوموں سے ان کی مشابہت نہ بھی رہے تب بھی گناہ رہیں گی جیسے داڑھی
منڈانا، یاحد سے باہر کٹانا یا لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، یا گھٹنوں سے
اونچا پاجامہ یا جانگیہ پہننا وغیرہ ہر حال میں ناجائز ہے۔
مشابہت میں بعض ایسی ہیں جو دوسری قوموں کی محض قومی وضع ہیں جیسے کوٹ
پتلون وغیرہ، یا قومی وضع کی طرح ان کی عادات ہیں، ان کو اختیار کرنے سے تو
صرف گناہ ہوگا، کہیں کم کہیں زیادہ اور جو چیزیں دوسری قوموں کی مذہبی وضع
ہیں ان کا اختیار کرنا کفر ہوگا، جیسے صلیب لٹکانا، یا سر پر چوٹی رکھنا،
یا ماتھ پر قشقہ لگانا وغیرہ اور جو چیزیں دوسری قوموں کی نہ قومی وضع ہیں،
نہ مذہبی وضع ہیں یعنی ان کی ایجاد ہیں اور عام ضرورت کی چیزیں ہیں جیسے
دیا سلائی، گھڑی، مختلف سواریاں، ٹیلی فون وغیرہ جن کا بدل ہماری قوم میں
نہ ہو، اُن کا حلال طریقہ سے برتنا جائز ہے نہ کہ گانے بجانے کی چیزیں
وغیرہ اس لئے ان جائز چیزوں کی تفصیل بھی اپنی عقل سے نہ کریں بلکہ علما سے
پوچھ لیں۔ اور مسلمان جو فاسق یا بدعتی ہوں ان کی وضع اختیار کرنا بھی جرم
ہے گو کافروں کی وضع سے کم سہی، بلکہ مرد کو عورت کی وضع اور عورت کو مرد
کی وضع بنانا بھی گناہ ہے حضور ﷺ نے فرمایا اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو
عورتوں کی شباہت بناتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی شباہت بناتی ہیں
﴿بخاری﴾۔ اس لئے یہ مسئلہ جس طرح شرعی ہے اسی طرح عقلی بھی ہے کیونکہ مرد
کے لئے زنانہ وضع بنانے کو ہر شخص عقل سے بھی بُرا سمجھتا ہے، حالانکہ
دونوں مسلمان صالح ہیں تو جہاںمسلمان اور کافر کا فرق ہو، یا صالح و فاسق
کا فرق ہو، وہاں کافر یا فاسق کی وضع بنانے کو کس کی عقل اجازت دے سکتی ہے۔
حضرت عبدااللہ بن عمرو بن العاص(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر
دو کپڑے کسُم کے رنگے ہوئے دیکھے، فرمایا یہ کفّار کے کپڑوں میں سے ہیں، ان
کو مت پہنو ﴿مسلم﴾۔ اس لئے اس قسم کی وجہ جہاں بھی پائی جائے گی یہی حکم
ہوگا۔ حضرت رکانہ(رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
ٹوپیوں کے اوپر عماموں کا ہونا فرق ہے ہمارے اور مشرکین کے درمیان ﴿ترمذی﴾۔
عامر بن سعد(رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا صاف رکھو
اپنے مکانوں کے سامنے کے میدانوں کو اور یہود کے مشابہ نہ بنو ﴿ترمذی﴾۔ جب
گھر سے باہر کے میدانوں کو میلا رکھنا یہود کی مشابہت کے سبب ناجائز ہے تو
خود اپنے بدن کے لباس میں مشابہت کیسے جائز ہوگی؟۔ حضرت علی(رض) سے روایت
ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے ہاتھ میں عربی کمان تھی، آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس
کے ہاتھ میں فارس کی کمان تھی، آپ ﷺ نے فرمایا اس کو پھینک دو اور ﴿عربی
کمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ﴾ اس کو لو، اور جو اس کے مشابہ ہو ﴿ابن
ماجہ﴾۔ اس سے معلوم ہوا کہ برتنے کی چیزوں میں بھی غیر قوم کی مشابہت سے
بچنا چاہیے۔ حضرت حذیفہ(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن
کو عرب کے لہجے میں اور آواز میں پڑھو ﴿یعنی صحیح اور بلا تکلف﴾ اور اپنے
آپ کو اہل عشق کے لہجہ سے اور دونوں اہلِ کتاب ﴿یہود و نصاریٰ﴾ کے لہجہ سے
بچاؤ ﴿بہقی﴾۔ معلوم ہوا کہ پڑھنے میں بھی غیر قوموں اور بے شرع لوگوں کی
مشابہت سے بچنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی اور بہت سی احادیث میں مختلف
معاملات میں مختلف اندازسے مشابہت کی ممانعت آئی ہے۔
اگر کبھی مشابہت بغیر قصد کے یعنی اتفاقیہ ہوجائے تو یہ گناہ تو نہیں لیکن
حتیٰ الامکان اس سے بھی بچنا چاہیے جیسا کہ رسول کریم ﷺ عاشورہ کے دن کا
روزہ ہمیشہ رکھتے تھے لیکن جب آپ ﷺ کو پتہ چلا کہ یہودی بھی اس دن روزہ
رکھتے ہیں تو آپ ﷺ نے اس سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ
حتیٰ الامکان کوشش کرو کہ تنہا دسویں محرم کا روزہ نہ رکھو بلکہ نویں یا
گیارویں محرم ساتھ ملا لو یعنی دو روزے رکھو تاکہ یہودیوں سے مشابہت پیدا
نہ ہو۔ اب ظاہر ہے کہ مسلمان عاشورہ کا روزہ اس لئے نہیں رکھتے تھے کہ
یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں لیکن حضور ﷺ نے محض اتفاقیہ اور غیر ارادی
مشابہت کو بھی پسند نہیں فرمایا اور اس سے بچنے کی تلقین فرمائی۔
اس بات پر اتنا زیادہ زور اس لئے دیا گیا ہے کہ اسلام کا اپنا ایک تشخص اور
امتیاز ہے اور اسلام یہ چاہتا ہے کہ ایک مسلمان کو دیکھ کر ہی یہ پتا چل
جائے کہ وہ مسلمان ہے، یعنی اُس کی وضع قطع اور طور طریقوں سے اسلام ظاہر
ہو۔ اور اگر ہمیں دیکھ کر یہ پتا نہیں چلتا کہ ہم مسلمان ہیں تو اس کا مطلب
ہے کہ ہم نے اپنا اسلامی تشخص اور امتیاز کھو دیا۔ جیسا کہ آج کل جن لوگوں
نے اپنے آپ کو مغربی وضع قطع میں ڈھال لیا تو اُن کو دیکھ کر کوئی یہ
اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ مسلمان ہے یا غیر مسلم، مثلاً اگر کسی محفل میں
مسلمان اور غیر مسلم اکٹھے جمع ہوں تو یہ پہچاننا ممکن نہیں کہ ان میں مسلم
کون ہے اور غیر مسلم کون ہے۔اور اس امتیاز پر بہت سے اسلامی احکام کا
دارومدار بھی ہے جن میں مسلمان سے کچھ اور طور طریقہ اپنایا جاتا ہے اور
غیر مسلم سے کچھ اور مثلاً، مسلمان کو اسلام علیکم کہا جائے گا اور غیر
مسلم کو نہیں۔ یورپ امریکہ میں بہت سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ کسی
مسلمان کا جاتے جاتے انتقال ہو گیا اور لاوارث لاش ملی، لیکن اس لاش میں سر
سے پیر تک کوئی ایسی علامت نظر نہیں آتی جس سے پتا چلے کہ یہ مسلمان ہے یا
غیر مسلم۔ یعنی اس کو غسل دیا جائے، جنازہ پڑھا جائے یا پھر اس کو عیسائیوں
کے قبرستان میں دفنا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے لیکن یہ بہت عبرت کی
بات ہے کہ کوئی مسلمان مرے اور اُس کا پتا نہ چلے کہ وہ مسلمان ہے، اُس کی
نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے اور وہ کافروں کے قبرستان میں دفن ہو۔
یہ حالت اس لئے ہو گئی ہے کہ حضور ﷺ نے اسلام کا جو تشخص اور امتیاز قائم
کیا ہے وہ ہم نے مٹا دیا ہے لیکن جن کو حضور ﷺ سے سچی محبت تھی اُنہوں نے
اس اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کی۔ حضرت عثمان
غنی (رض) صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور اقدس ﷺ کے ایلچی بن کر مکہ کے سرداروں
سے مذاکرات کے لئے جانے لگے تو اُس وقت حضرت عثمان (رض) کا پاجامہ ٹخنوں سے
اوپر آدھی پنڈلی تک تھا۔ چنانچہ آپ (رض)کے چچا زاد بھائی نے کہا کہ جناب!
عربوں کا دستور یہ ہے کہ جس شخص کا ازار اور تہمند جتنا لٹکا ہوا ہو اتنا
ہی اس آدمی کو بڑا سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے اگر آپ اپنی ازار اس طرح اونچی
پہن کر ان لوگوں کے پاس جائیں گے تو ان کی نظروں میں آپ کی وقعت نہ ہوگی
اور مذاکرات میں جان نہ پڑے گی، حضرت عثمان غنی(رض) نے یہ سن کر ایک ہی
جواب دیا کہ نہیں میں اپنا ازار اس سے نیچا نہیں کر سکتا، میرے آقا سرکار
دو عالم ﷺ کا ازار ایسا ہی ہے۔ یعنی اب یہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں، یا برا،
میری عزت کریں یا بے عزتی، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
اپنے تشخص کو کھو کر کسی دوسرے کے طور طریقے اپنانا تو عقل کے بھی خلاف ہے،
کیونکہ اگر کوئی شخص افضل البشر ﷺ جس کو خالقِ کائنات نے سب کے لئے بہترین
نمونہ قرار دیا اور اُس اُمّت جس کو حق تعالیٰ نے سب سے بہتر اُمّت قرار
دیا، کا طریقہ چھوڑ کر ایسے لوگوں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ناکام، بے
عقل بلکہ جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا، کا طریقہ اختیار کرے اور اسی کو
عزت اور ترقی کا ذریعہ سمجھے تو ایک مسلمان کے لئے یہ سب سے بڑی حماقت نہیں
تو اور کیا ہے؟ دنیاوی قوانین میں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جیسا
کہ پولیس، فوج وغیرہ کی اپنی ایک وردی ہوتی ہے جو اُن کی پہچان ہوتی ہے۔
مثلاً اگر کوئی پاکستانی فوجی افسر ہندوستانی فوج کی وردی پہن کر آجائے تو
کوئی بھی اس کو گوارہ نہیں کرے گا بلکہ اُس پر بغاوت کا مقدمہ بن جائے گا۔
ایک دفعہ ایک بزرگ نے یورپ کا سفر کیا تو جہاز میں صرف وہ اکیلے ہی تھے جن
کی وضع قطع باقی سب لوگوں سے مختلف تھی یعنی کرتا شلوار وغیرہ اور باقی سب
وہی کوٹ پتلون وغیرہ میں تھے۔ جہاز کے عملے کا ایک آدمی اُن سے گفتگو کرنے
لگا اور اُس نے سوال کیا کہ آپ کا لباس ان سب سے مختلف ہے اور جہاں آپ جا
رہے ہیں وہاں کی وضع قطع بھی ایسی نہیں تو پھر آپ نے ان جیسی وضع کیوں نہیں
بنائی؟ تو وہ بزرگ بولے یہی سوال میں تم سے کرتا ہوں کہ تمہارا لباس ان سب
سے مختلف کیوں ہے؟ تو اُس آدمی نے جواب دیا کہ یہ تو میری وردی ہے اور اس
سے لوگ پہچانتے ہیں کہ میں جہاز کے عملے کا آدمی ہوں۔ اس پر اُن بزرگ نے
کہا کہ میری بھی یہ وردی ہے اور اس سے میری پہچان ہوتی ہے کہ میں مسلمان
ہوں۔ یہ مختصر سا واقعہ ہمارے لئے بہت سبق آموز ہے اور اپنے اندر ایسی
حقیقت لئے ہوئے ہے جس کو آج ہم فراموش کر چکے ہیں۔ یہ نہایت افسوس اور عبرت
کا مقام ہے کہ آج ہم نے غیر اسلامی وضع اور ایسے لباس کو جو اسلامی تو کیا
ہمارے ملکی تشخص کا بھی حصہ نہیں ، دنیا میں عزت اور اعلیٰ معیار کا درجہ
دے رکھا ہے اور جتنا زیادہ غیر مسلموں کے مشابہ نظر آئیں اتنی زیادہ خوشی
اور فخر محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں اور اس اعزاز کو
حاصل کرنے کی کوشش میں ہمہ تن مصروف بھی رہتے ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی
علامات نہ تو ہمارے ظاہر میں نظر آتی ہیں اور نہ ہمارے باطن میں۔ ظاہری شکل
و صورت میں غیر مسلموں کی تقلید نے آہستہ آہستہ ہمارے باطنی افکارات و
خیالات کو بھی غیر مسلموں کے مشابہ کر دیا ہے۔ اور اب ہمارے اقوال، افعال،
نظریات، سوچ اور بعض اوقات عقائد بھی غیر مسلموں کی عکاسی کرتے ہیں یا پھر
اُن سے متاثر نظر آتے ہیں۔ہم نے اپنی انفرادی حیثیت اور اسلامی تشخص کو کھو
کر اپنے آپ کو زمانے کے تابع کر دیا ہے کہ زمانہ جس طرف چاہے ہمیں بہا کر
لے جائے۔ اپنے آپ کو فیشن کا غلام بنا لیا ہے اور اسی غلامی نے ہماری پہچان
کو مسخ کر دیا۔ یعنی ہماری اپنی کوئی پہچان اور مرضی نہیں، بس فیشن ہمیں جس
طرف لے جائے گا ہمیں وہی کرنے میں خوشی محسوس ہوگی اور اُس کے خلاف کرنے
میں ہمیں شرمندگی اور عار محسوس ہوگی۔ آج والدین اپنی اولاد کو غیر اسلامی
وضع اور لباس میں دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ واہ ہمارا بیٹا تو بالکل
انگریز لگ رہا ہے۔ اور اگر کوئی ہمت کرکے اسلامی وضع اپناتا ہے تو اُسے
غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بھی ملامت اور طعنہ و تشنیع کا شکار ہونا پڑتا
ہے۔
اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ حقیقت میں آج اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات پر سے
ہمارا بھروسہ ختم ہو چکا ہے، شریعت کے احکام کو ہم پس پشت ڈال چکے ہیں،
حضور اکرم ﷺ کے طریقوں کو ہم فراموش کر چکے ہیں بلکہ آپ(ص) کی سنتوں کو
اپنانے میں عار محسوس کی جاتی ہے۔ وہ مسلمان جس کا مقصد کبھی صرف اور صرف
اللہ اور رسول ﷺ کی رضا تھا اور آخرت کی طلب میں ہی اُس کے صبح شام گزرتے
تھے، آج اُس نے مچھر کے پر سے بھی کم قیمت دنیا کو اپنا مقصود بنا لیا ہے
اور اسے حاصل کرنے کے لئے وہ اللہ اور رسول ﷺ سے بغاوت کرنے اور اپنی آخرت
کو دائو پر لگانے کے لئے تیار ہو چکا ہے۔ اسی سرکشی نے لوگوں کواحادیث سے
انکار کرنے پر بھی مجبور کر دیا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ صرف زبان
سے مسلمان ہونے کا انکار کرنے کی ہمت نہیں ورنہ عملی طور پر شریعت سے انکار
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
فرمایا اللہ تعالیٰ نے " مومنو! اسلام میں پورے پورے﴿مکمل طریقہ سے﴾ داخل
ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے " ﴿البقرہ ۸۰۲﴾۔
غرض ہر بات میں اسلامی طریقہ اختیار کرنا چاہیے، دین کی باتوں میں بھی اور
دنیا کی باتوں میں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "جو شخص رسول کی
مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ اس کو سیدھا رستہ معلوم ہو چکا تھا اور
مسلمانوں کا رستہ چھوڑ کر دوسرے رستہ ہو لیا تو ہم اس کو جو کچھ وہ کرتا ہے
کرنے دیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بُری جگہ ہے" ﴿النسائ
۵۱۱﴾۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھا رستہ دکھائے اور اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی
کامل اتباع کی توفیق عطا فرمائے ۔﴿آمین﴾۔; |