چوہے ضروری ہوتے ہیں۔؟

مرید کے نصیب میں جب سے نصیبو لکھی گئی تھی۔ اس کی زندگی میں ڈر اُتر آیا تھا۔ گھر لوٹتے ہی اپنے بِل میں گھس جاتا۔ رسوئی سے چُمٹے کی آواز بھی آتی تو اسُے اپنی شامت محسوس ہوتی۔ وہ شروع سے توچوہا نہیں تھا لیکن نصیبو پکی۔ پیدائشی بلی تھی۔کٹورا منہ کو لگا کر دودھ غڑپ کر نے والی۔گول آنکھوں، تاؤ بھری مونچھوں اور نوکیلے پنجوں والی۔ بلی کے خوف سے مرید کی بھوک مر چکی تھی۔ پلیٹ میں پڑی روٹی اُسے کڑِکی میں لگی نظر آتی۔گھنٹی باندھنے کی تو اس میں ہمت نہ تھی۔لیکن وہ ماہرین ازدواجیات مرید کی آخری اُمید تھے۔جوسوچتے ہیں کہ بیوی شوہر کی نسبت چوہے سےزیادہ ڈرتی ہے۔تبھی وہ چوہے پر ہی پکا ہو گیا تھا۔

بلی اور چوہے کی تصویر

 مرید کے نصیب میں جب سے نصیبو لکھی گئی تھی۔ اس کی زندگی میں ڈر اُتر آیا تھا۔ گھر لوٹتے ہی اپنے بِل میں گھس جاتا۔ رسوئی سے چُمٹے کی آواز بھی آتی تو اسُے اپنی شامت محسوس ہوتی۔ وہ شروع سے توچوہا نہیں تھا لیکن نصیبو پکی۔ پیدائشی بلی تھی۔کٹورا منہ کو لگا کر دودھ غڑپ کر نے والی۔گول آنکھوں، تاؤ بھری مونچھوں اور نوکیلے پنجوں والی۔ بلی کے خوف سے مرید کی بھوک مر چکی تھی۔ پلیٹ میں پڑی روٹی اُسے کڑِکی میں لگی نظر آتی۔گھنٹی باندھنے کی تو اس میں ہمت نہ تھی۔لیکن وہ ماہرین ازدواجیات مرید کی آخری اُمید تھے۔جوسوچتے ہیں کہ بیوی شوہر کی نسبت چوہے سےزیادہ ڈرتی ہے۔تبھی وہ چوہے پر ہی پکا ہو گیا تھا۔
بیوی :مجھے ڈر لگ رہا ہے۔پلیز میری طرف منہ کرکے سوئیں۔
شوہر:اچھا!بس تم نے ہی جینا ہے۔؟ میں بے شک ڈر ڈر کر مر جاؤں۔

نصیبو اور مرید کی زندگی اس لطیفے کی عملی تعبیر تھی۔پاکستان کے سو فیصد شوہروں میں پچاس فیصد چوہے ہیں ۔باقی’’مرید‘‘ہیں۔چوہے سے میرا پہلا تعارف صوفی تبسم کی نظم’’پانچ چوہے گھر سے نکلے‘‘پڑھنے کے بعد ہوا۔اس سے پہلے دنیا بھرکےفارماسسٹ ۔ادویات سازی کےتجربے چوہوں پرکر چکے تھےکیونکہ چوہاانسان سے جنیاتی مماثلت رکھتا ہے۔ چوہا۔تختہ مشق سے زندہ نیچے اُتر آئے تو دوسرا تجربہ انسان پر ہوتا ہے۔ چوہا شناسی سے مردم شناسی تک کا ادویاتی سفرکبھی برقی رہا اور کبھی ’’غرقی‘‘۔کیونکہ تجربہ گاہ سے چوہے تو نکل آتے لیکن انسان منکرنکیر۔ایم سی کیوز میں پڑجاتے ۔ممکن ہے اس جینیاتی مشابہت کا سائنسی تجربہ درست ہو ۔ شائد ہمارےاعصاب، نفیسات اور ہارمونزمیں بھی مماثلت ہو۔ غلہ(اناج) انسان اور چوہے کی پہلی محبت ہے۔سانجھی محبت کی وجہ شائد ایک سے جینز ہوں۔ ممکن ہے لذِت پنیرنے انہیں منصبِ رقابت پر فائز کر رکھا ہو۔سائنسی کلیہ درست ہے تو زندگی جتنی بھی شاہانہ ہے ۔دراصل چوہانہ ہے ۔میرا دوست مرید ۔ کہتا ہے کہ ’’چوہوں کے بارے میں سوچنا خوداحتسابی جیسا ہے۔ جون ایلیا کے شعر۔ ’’ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر۔سوچتا ہوں تیری حمایت میں‘‘۔جیسا۔وہ کہتا ہے عام ازدواجی زندگی ۔ٹام اینڈ جیری کارٹون جیسی ہوتی ہے۔جہاں شوہر اور بیوی اکھٹے رہ سکتے ہیں اور نہ ہی الگ۔

مرید( ہمسائے سے):آپ کے گھر سےاکثر ہنسنے کی آوازیں آتی ہیں ۔ خوشگوار زندگی کاراز تو بتادیں۔ ۔؟
ہمسائیہ:خوشگوار کیسی ۔؟میری بیوی ۔اکثر مجھے جوتے ، ڈوئی اور چمچے مارتی ہے۔لگ جائے تو وہ ہنستی ہےاور نہ لگے تو میں۔

ٹام اینڈ جیری توہم نے بچپن میں اتنے دیکھے ہیں کہ گھر میں ٹی وی بند بھی ہو ۔تو بھی بچے کارٹون دیکھتے رہتے ہیں۔ہمارے بچےڈزنی لینڈ نظرئیے کے ساتھ جوان ہو رہے ہیں۔عمرانی ماہرین کانظریہ بھی۔ڈزنی۔ ہے’’ کہ چوہااور انسان الگ نہیں رہ سکتے‘‘۔ پچھلے دنوں لیگی ایم این اے رجب بلوچ نے بھی اسمبلی میں چوہوں کا تذکرہ کرڈالا۔بولے’’ پارلیمنٹ لاجز میں خوفناک چوہوں کاراج ہے۔بالائی فلورکو یرغمال بنا رکھا ہے۔مکین نقل مکانی پر مجبور ہیں‘‘۔سپیکر نےاس پارلیمانی گفتگو کاجو۔ جواب دیا وہ ۔ راز تو کارروائی کا حصہ ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ چوہے پارلیمنٹ لاجز تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ وہی لاجز ہیں جن پرجمشید دستی نے شراب اورمجرا کے الزامات لگائے تھے۔لیکن مرید کہتا ہے’’انتخابات میں تو قوم نےشیرپارلمینٹ میں بھجوائے تھے ۔لاجز میں چوہے کیسے پہنچ گئے؟‘‘۔

تاریخ گواہ ہے کہ مچھراور چوہے نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے۔لیکن کچھ چوہا۔ دان اس سوچ سے متفق نہیں۔کیونکہ بیلجئیم میں چوہےسدھا کر بارودی سرنگوں کا سراغ لگایا جاتا ہے ۔انڈیا میں کارنی ماتا مندرکے چوہے مقدس ہیں۔2014 میں نیویارک میں آٹھ ملین چوہے رہتے تھے۔ چوہا چینی کلینڈر کا پہلا جانور ہے ۔جبکہ اہلیان برسلز مُضطر ہیں۔کیونکہ برسلز سرنگ پلان کی فائلیں چوہے کھا گئےہیں۔شائد وہ پلان دوبارہ نہ بن سکے۔مچھراب ڈینگی بن کر خون کاپیاسا ہوچکا ہے ۔ مرید تو کہتا ہے کہ’’ مچھر نےنمرود کے بعد سب سے زیادہ شہبازشریف کو تنگ کیا ہے ‘‘۔ ملیریا اورطاؤن نے ہمارے اجداد سے کئی ہجرتیں کروائی ہیں۔ ہم مہاجر اپنی بستیاں چاہےجتنی بھی دو ر بسالیں ۔مچھر اورچوہے ہمارے ساتھ آکر رہنے لگتے ہیں۔اب تومچھر اور چوہے دانیاں ہماری آئینی ضرورت بن چکی ہیں ۔

قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں۔’’اُن دِنوں جموں میں روز دس پندرہ لوگ طاؤن سے مرتے تھے ۔ گلی کُوچوں میں خوف چھایا ہوا تھا۔ لوگوں نے گھر آنا جانا اور ملنا جُلنا چھوڑ دیا تھا۔راہگیر دامن بچا کر چلتے تھے۔ شہر کا ہر مکان دُوسروں سے کٹ کٹا کرایک قلعہ سا بنا ہوا تھا۔ لوگ چُپ چاپ اپنی اپنی گِلٹی کے منتظر تھے۔ میونسپل کمیٹی ۔ درو دیوار سونگھ سونگھ کر پلیگ کے مریضوں کا سُراغ لگاتے تھے۔ جہاں چھاپہ کامیاب رہتا ۔ وہاں وہ علی بابا چالیس چور کی مرجینا کی طرح دروازے پر سفید چُونے کا نشان بنا دیتے تھے۔رشوت دے کر یہ نشان مٹوایا اور اغیار کے در پر بھی لگوایا جا سکتا تھا‘‘۔’’جموں میں پلیگ سے اقتباس‘‘

جموں کی طرح پشاور پربھی چوہایلغار ہو چکی ہے۔ضلع ناظم محمد عاصم ۔جنگ کا بگل بجا چکے ہیں۔چوہے کے سر کی قیمت 25 روپے مقرر ہوئی ہے۔افسرِ خزانہ کوخزانہ مختص کرنے کا حکم مل چکا ہے۔ضلع ناظم کہتے ہیں کہ ’’شفاف طریقے سے چوہے مارنے والوں کو انعام ملے گا۔ لاشیں اٹھانے کے لئے ’’کولیکشن سینٹر‘‘بنائیں گے۔ شہری چوہا مار کر شرمندہ نہ ہوں۔ساتھ دیں تو یہ کامیابی کی طرف اہم قدم ہوگا ‘‘۔پشاور کنٹونمنٹ بورڈنے توفی چوہا انعام 300 روپے کردیا ہے۔ خون کہ ہولی شروع ہے۔پنجاب سے پالش ،دانے،چھلی، چوکیدارا ۔اور نان بائی ۔پشاور لوٹ چکے ہیں۔سرمایہ کاری کے بغیر آمدن شروع ہو گئی ہے۔دہلیز پر روزگار نکل آیا ہے۔ چوہے مار۔ شکاری اور بیوپاری چارسدہ اوربنوں سے بھی چوہے لے آئے ہیں۔ پنجاب سے لاشیں سمگل ہو تے پکڑی گئی ہیں۔ شفافیت دم توڑ چکی ہے۔سینکڑوں لاشے بکنے کے منتظر ہیں ۔لیکن خزانہ ابھی تک مختص نہیں ہو سکا۔
لڑکی: جانو پلیز جلدی سے 25 روپے کا ایزی لوڈ کرا دو۔
لڑکا: انتظار کرو۔جان ابھی تک چوہا نہیں بکا۔

بے روزگاری پھر سر اٹھانے لگی ہے۔شفافیت پر شور مچنے لگا ہے۔شریک موقع تاڑ چکے ہیں۔تحریکی مہم پر لیگی ردعمل آ چکاہے۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید پھبتی کس چکے ہیں کہ’’نوازشریف دہشت گرد اور عمران خان چوہے پکڑ رہے ہیں‘‘۔پی پی رہنما مولا بخش چانڈیوکہہ چکے ہیں کہ عمران خان چوہےمار کر ماوزے تنگ بننا چاہتے ہیں۔لیکن مرید کہتا ہے کہ’’2013 میں جو لوگ شیرکے شکارپر نکلے تھے ۔2016 میں وہ صرف چوہے کا شکارکرپائے ہیں‘‘۔چوہوں کے شکار پر منٹوصاحب نے سالوں پہلے ایک افسانہ’’چوہے دان‘‘ لکھاتھا۔افسانے کے ڈائیلاگ یہ ہیں۔
’’ارشد:بخدا کسے یقین تھا کہ اتنی ضدی اور نفاست پسند لڑکی چوہے دان کےذریعے قابو میں آجا ئے گی۔
شوکت : کون سی لڑکی۔چوہے دان میں پھنس گئی۔ لڑکی نہ ہوئی چوہیا ہوگئی۔ آخربتاو تو سہی۔؟
ارشد:وہی سلیمہ جس کی نفاست پسندی کی بڑی دھوم ہے اور جس کی ضدی طبعیت کے بڑے چرچے ہیں۔
شوکت:سلیمہ۔ ؟ جھوٹ۔چوہے دانوں سے بھی کبھی کسی نے لڑکیاں پھانسی ہیں۔؟
ارشد:خدا کی قسم۔ جھوٹےپرلعنت۔۔یہی سلیمہ میرے قابو میں آگئی ہے۔’’چوہے دان ‘‘سے اقتباس
نوٹ:افسانہ پڑھ کرمجھے یقین ہو چکا ہے کہ انسان اورچوہاجنیاتی مماثلت رکھتے ہیں۔ہمیں ساتھ ہی رہنا پڑے گا۔پشاوری مہم فلاپ ہونے کا قومی امکان ہے۔
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 104544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.