کتاب کا مستقبل

رومی دور کے ایک عالم اور مقرر سسرو نے اپنے بیٹے کے لئے جو کتاب لکھی تھی۔اسے انگریزی میں"On Duties"کہا گیا۔اسے پیپرس پتوں پر لکھا گیاتھا۔یہ کتاب رومیوں کے عروج وزوال میں صدیوں تک زیر مطالعہ رہی۔پھر1466ء میں گٹن برگ کے کاروباری پارٹنر جان فسٹ نے اسے چھپائی کی مشین کے ذریعے خوبصورت انداز سے چھاپا۔چھپی ہوئی کتاب دور دورتک پھیلی اور پڑھی گئی۔والٹیر جیسا شہرہ آفاق فلاسفر بھی اس سے بہت متاثر ہوا۔اور اب یہ معروف کتابOnlineمطالعہ کرنے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے آسانی سے دستیاب ہے۔کاغذ پر چھپی ہوئی خوبصورت کتابوں نے صدیوں تک دنیا پر راج کیا ہے۔لیکن اب اس کے مستقبل پر سوال اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔مخطوطوں سے آگے چھپی ہوئی کتاب بھی دنیا میں ایک بڑی تبدیلی سمجھی گئی تھی۔کتاب تک عوام کی رسائی آسان ہوگئی تھی۔خواندگی کی شرح دنیا میں تیزی سے بڑھی تھی۔اب زمانہ پھر کروٹ لے رہا ہے۔کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب کی جگہ E-Booksلیتی جارہی ہیں۔مغرب میں یہ تبدیلی بہت تیز ہے۔ Pewتحقیقاتی سنٹر کے مطابق اب نصف امریکی نوجوانوں کے پاسTabletsیا E-Readersہیں۔اور10میں سے3نوجوان کتابوں کو E-Readersکے ذریعے پڑھ رہے ہیں۔بیسویں صدی کے آخر میں ہیMicro-softاورPalm pilotنے E-Booksبنانا شروع کردی تھیں۔شروع میں ای کتابیں بہت سست روی سے پھیل رہی تھیں۔اسی لئے1992ء میں امریکہ کے5۔بڑے کتابیں شائع کرنے والے اداروں نے کہاتھا کہE-Booksکا ہمارے کاروبار سے کوئی تعلق نہ ہے۔لیکن جونہیAmazonکاKindleمارکیٹ میں آیا۔حالات تیزی سے بدلنے شروع ہوئے۔یہ2007ء کی بات تھی۔2008ء سے2010ء کے درمیان بے شمارE-Booksفروخت ہوئیں۔نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فروخت میں1260۔فیصد اضافہ ہوا۔ Appleکے I-Padکے بعدI Book storeشروع ہوگئے۔تب کاغذ پر کتابیں شائع کرنے والوں کو کوئی Initiativeنظر نہیں آتا تھا۔2011ء میں Border Book-Americaنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا۔امریکہ میں ای بکس تیزی سے پھیل رہی تھیں۔لیکن گزشتہ2سالوں میںAssociation of American Publishersکے مطابقE-Books کی فروخت20فیصد پر آکر ٹھہر گئی ہے۔یہ بھی دیکھا گیا کہ2015ء کے ابتدائی مہینوں میںE-Booksمیں فروخت میں معمولی سی کمی آئی۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ نئی اور پرانی ٹیکنالوجی میں مقابلہ جاری ہے۔ہم تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ Screenپر پڑھنا اچھا نہیں لگتا۔لیکن یہ باتیں زیادہ عمر کے لوگوں کی ہیں۔نئی نسلوں کے ہاتھوں سے اب سکرین علیحدہ ہی نہیں ہوتی۔کھانا کھاتے وقت بھی ایک ہاتھ میں Screenاور دوسرے میں نوالہ ہوتا ہے۔پچھلی2۔دہائیوں میں بہت کچھ بدل گیا۔بقول اقبال ۔ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔اندازے یہ ہیں کہ کتابیں سوشل میڈیا پر آجائیں گی اور مصنف اور پڑھنے والے سوشل میڈیا کے ذریعے تبصرے کیا کریں گے۔لیکن بہت سے لوگوں کے نزدیک چھپی ہوئی کتابیں جلد غائب نہیں ہونگی۔ایشیائی ممالک اور خاص طورپر برصغیر میں ابھی چھپی ہوئی خوبصورت کتاب کا چلن کئی دہائیوں تک قائم رہے گا۔ابھی طلباء اور دیگر قارئین کے ہاتھوں میںE-Readersکم ہی دیکھے جارہے ہیں۔Books-Fairsکی رونقیں ابھی قائم ودائم ہیں۔لائبریریوں میں تو چھپی ہوئی کتابوں کی موجودگی آنے والے لمبے عرصے تک قائم رہتی نظر آتی ہے۔زیادہ عمروں کے پڑھے لکھے لوگ اپنے گھروں میں قائم Shelvesکو نئی کتابوں سے سجاتے رہیں گے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ E-Bookکافی سستی ہیں۔اور آپ اپنے Tabletمیں اپنی پسند کی بے شمار کتابوں کا ذخیرہ کرسکتے ہیں۔لوگوں نے اپنی ضرورت کی ڈکشنریوں کو توMobilesمیں ہی ڈال لیا ہے۔دوTouchesکے بعد مطلوبہ لفظ کے معنی سکرین پر آجاتے ہیں۔بھاری بھر کم ڈکشنریوں کوHandleکرنا کافی مشکل تھا۔اور بھی بے شمار اردو اور انگریزی لڑیچر انٹر نیٹ پر دستیاب ہے۔کچھ فری اور کچھ قیمتاً۔علم تک رسائی اب Digital Devicesکے ذریعے عام ہوگئی ہے۔دنیا میں انٹر نیٹ نے جو آسانی پیدا کی ہے۔اسے ترقی پذیر ملکوں میں شرح خواندگی کے لئے استعمال کرنا چاہیئے۔نیٹ کو اب پورے ملک میں فری ہونا ضروری ہے۔Literacy Rateمیں اضافہ اداروں اور حکومت کے لئے اب کوئی مسٔلہ نہیں رہا۔آیئے کتاب کا ذکر دوبارہ شروع کرتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ چھپی ہوئی کتاب لمبے عرصے تک قائم رہے گی۔ایک ماہر Steinکے مطابق صورت حال جلد بدل جائے گی۔"Print will exist ,but it will be in a different realm and will appeal to very limited oudience"اس تیزی سے آتے ہوئے انقلاب کو دیکھتے ہوئے کچھ عرصے بعد بچے سوال کریں گے کہ یہ(کتاب)کیا ہے؟۔ریل میں سفر کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ چھپی ہوئی کتاب پڑھ رہے ہونگے لیکن باقی ماندہ مسافر Deviceکے ذریعے مطالعہ کررہے ہونگے۔ابھی دونوں طرح کے Trendجاری رہیں گے۔لیکنPrintکے بارے یہی اندازہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ50یا60سال تک قائم رہے گا۔لوگ سوچیں گے کہ بھاری بھرکم کتابوں کو کیوں چھاپا جائے۔کیونکہ انہیں تو ایک جگہ سے دوسری جگہ ارسال کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔کچھ لوگ جو Printکی شکل میں پڑھنے کو ہی پر لطف محسوس کرتے ہیں انہیں Printکے خاتمہ کا زبردست افسوس ہوگا۔انسان جب کتاب کا صفحہ الٹتا ہے تو اسے کرکراتی سی بھلی سی آواز سے سکون ملتا ہے۔گھروں کی الماریوں میں سجی ہوئی کتابیں بھلی لگتی ہیں۔صاحب خانہ کے ذوق کا پتہ اسکی لائبریری کو دیکھ کرلگایا جاسکتا ہے۔جب انقلاب آتا ہے تو بہت کچھ ضائع بھی ہوتا ہے۔نئی خصوصیات اور سہولیات کے حصول کے لئے کچھ وقت تولگتا ہے۔کچھ نیا پانے کے لئے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔یونیورسٹیوں میں اب Digital Librariesقائم ہورہی ہیں۔دوردراز کی لائبریریوں کی کتابیں طلباء اپنی لائبریری میں بیٹھے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا ایک گھر میں تبدیل ہوگئی ہے۔ایسی صورت میں فوائد کے بالمقابل نقصانات صفر کے برابر نظر آتے ہیں۔ HECنے یونیورسٹیوں میں ایسی لائبریریاں قائم کرکے فاصلے سمیٹ دیئے ہیں۔انفرادی طورپر اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ ایک شخص نے اپنی پسند کی بہت سی کتابیں اپنے Tabletمیں یاMobileمیں ڈاؤن لوڈ کی ہوتی ہیں۔اور سفر میں بھی فرصت کے اوقات میں مطالعہ جاری رہتا ہے۔شرح خواندگی کے لئے کتاب دونوں صورتوں کو استعمال کرناچاہیئے۔ چھپی ہوئی کتاب اور ای کتاب دونوں کومعاشرے کی تعلیم وتہذیب کے لئے استعمال کرنا چاہیئے۔بچوں کے لئے E-Booksبہت فائدہ مند بھی ہوسکتی ہیں۔کتابوں میں چھپے ہوئے ساکن الفاظ سے بچے زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔حرکت،میوزک اور آواز کے ذریعے بچوں کے لئےE-Booksکو زیادہ بہتر اور موثر بنایا جاسکتا ہے۔کارٹون فلموں کی طرف بچوں کی زیادہ توجہ سے یہ باتیں پہلے ہی ظاہر ہورہی ہیں۔پاکستان میں کئی پبلشنگ اداروں نے اپنی پرانی کتابیں کافی تعداد میں انٹرنیٹ پر ڈال دی ہیں۔ان میں دینی کتابوں کے ساتھ ساتھ ادبی کتابیں بھی ہیں۔ایک معروف تفسیر تفہیم القرآن کو خوبصورت انداز سےComposeکرکے Appبنادی گئی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جب کوئی نئی کتاب شائع ہوتو اس کے دونوں ایڈیشن بیک وقت شائع ہوں۔کاغذی ایڈیشن بھی اور الیکٹرانک ایڈیشن بھی۔لوگوں کو سہولت ہوکہ وہ جسے چاہیں خریدیں۔باقی دنیا کی طرح پاکستان میں نئی کتابیں بھی دونوں طرح فروخت کرنی شروع کی جائیں۔ابھی تک پاکستان کے بہت ہی کم ادارے شروع سے ہی الیکٹرونک ایڈیشن شائع کررہے ہیں۔تبدیلی کو فوراً تسلیم کرلینا ہی مسٔلہ کا حل ہوتا ہے۔پاکستان میں کتاب کا مستقبل دونوں طریقوں سے روشن بنایاجاسکتا ہے۔

Muhammad Jameel
About the Author: Muhammad Jameel Read More Articles by Muhammad Jameel: 72 Articles with 49835 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.