جاوید چوھدری صاحب کے لئیے ۔۔۔

جاوید چوھدری صاحب نے کمال حکمت و دانش کے موتی بکھیر کر جناب حسین نواز صاحب کے اوصاف انکی اچھائیاں اور زندگی کے پوشیدہ گوشے قوم کے سامنے آشکار کردیے ہیں جس پر پوری قوم انکی تہہ دل سے شکر گذار ہے
ستائیس سال کی عمر میں بیسٹ آرٹیکل رائٹر کا اعزاز حاصل کرنے والے ، دنیا کے ٦٥ ممالک کی سیاحت فرمانے والے ، دنیا کے سب سے ہونہار اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بزنس کرنے والے شخص کے بھائی ، کرہ ارضی پر سب سے زیادہ ذہین و فطین لڑکے کے والد گرامی ، ایم اے ابلاغیات میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ، پاکستان کی دوسری بڑی ویب سائیٹ چلانے والے ، وارن بفٹ سے لیکر بل گیٹس اور لی یا کوکا تک دنیا کی اہم شخصیات کو شرف ملاقات بخشنے والے ، میدان صحافت و ابلاغیات کے شاہسوار ، منطق و فلسفے کے ماہر ، دور حاضر کے ارسطو ، عقل و دانش کے حامل ، محقق دوراں ، مقرر دلپذیر ، عزت مآب جناب جاوید چوھدری صاحب اپنے ٧ اپریل ٢٠١٦ کے کالم میں لکھتے ہیں کہ حسین نواز حافظ قرآن ہیں یہ ہر وقت حالت وضو میں بھی رہتے ہیں ، ان میں عاجزی بھی ہے اور آپ ان سے آسانی سے سچ بھی اگلوا سکتے ہیں ، یہ سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے ، حسین نواز نے یہ عادات اپنے دادا میاں شریف سے سیکھیں ۔ آگے سلمان شہباز کا قصیدہ پڑھا ہے اور آخر میں اپنے کارنامے گنوائے ہیں جو القابات کی شکل میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔ میں نے کوئی چوھدری صاحب کی خوشآمد نہیں کی بلکہ انکے کالم سے پڑھ کر بیان کردیا ہے اہل عقل و دانش اسے سمجھیں گے میں ایک ناقد ہوں اور ناقد کا کام ہے خود ساختہ دانشوروں کو آئینہ دکھانا ۔ جاوید چوھدری صاحب نے کمال حکمت و دانش کے موتی بکھیر کر جناب حسین نواز صاحب کے اوصاف انکی اچھائیاں اور زندگی کے پوشیدہ گوشے قوم کے سامنے آشکار کردیے ہیں جس پر پوری قوم انکی تہہ دل سے شکر گذار ہے ، اگر جاوید چوھدری جیسا قلمکار آج صحافت میں نہ ہوتا تو شائد ہم حسین نواز کی خوبیوں سے لاعلم ہی رہتے اور اس دنیا سے یہ راز جانے بغیر ہی چلے جاتے کہ پاکستانی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنکا وزیرآعظم ایک حافظ قرآن ہمیشہ باوضو رہنے والے اور راست باز فرزند کا باپ ہے ۔ جاوید چوھدری صاحب یہ بھی شکوہ کرتے نظر آئے کہ انکی اچیومنٹ کو کوئی سراحتانہیں بلکہ لفافے کا الزام لگاتے ہیں لوگ ۔ میں جاوید چوھدری صاحب کو انکی اس اچیومنٹ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے حسین نواز کی اچھائیوں سے ہمیں باخبر کیا وہ واقع بارکباد کے مستحق ہیں ۔

محترم المقام والا شان نازش صحافت جناب جاوید چوھدری صاحب اپنے آج کے کالم میں فرماتے ہیں کہ انسان کی اچھائی اور برائی کا تعلق براہ راست انسان اور اللہ تعالی کے ساتھ ہے ۔ انسان کے اچھے اور برے ہونے کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے ، میں انسانوں کو اچھا اور برا سمجھنے والا کون ہوتا ہوں ۔ اگر کوئی انسان اچھا ہے تو وہ اس اچھائی کا سب سے بڑا بینی فیشری خود ہے ، دوسرے انسان کو اسکی اچھائی کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اور اگر انسان برا ہے تو اسکا نقصان بھی اسے خود ہی ہوگا ، ہمیں اسکی برائی سے پریشان نہیں ہونا چاہئیے ۔

دو مختلف کالموں سے میں نے اقتباسات تحریر کیے ہیں اب ان میں زمین و آسمان کا فرق اور تضاد ہے ایک جگہ موصوف حکمرآنوں کے بچوں کی اچھائیاں گنوا رہے ہیں اور دوسری جگہ اچھائی اور برائی کے معاملے کو اللہ رب العزت اور بندے کے درمیان معاملہ قرار دے رہے ہیں ۔ میں بصد احترام جاوید چوھدری صاحب سے اختلاف کی جسارت کروں گا کہ عام انسان کی اچھائی و برائی کا بھی جزوی طور پر دوسروں پر اثر پڑتا ہے مگر حکمرآن طبقے کی اچھائی اور برائی تو نسلیں برباد بھی کر دیتی ہے اور سنوار بھی دیتی ہے ۔ ہاں کسی بھی انسان کے اپنے لئیے کیے گئے نیک و بد اعمال کی جزا و سزا مالک حقیقی کے ہاتھ میں ہے ۔ ہمیشہ باوضو رہنا سچ بولنا یہ وہ اعمال ہیں جنکا دوسروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا انکا اجر اللہ دے گا لیکن اگر آف شور کمپنیاں عوام کا پیسہ لوٹ کر بنائی گئیں تو انکا اثر ضرور عوام پر پڑتا ہے اور جو نظر بھی آرہا ہے ۔ شرفاء کی دولت تو دن با دن بڑھتی چلی جارہی ہے مگر ملکی ادارے اور خزانے کا دیوالیہ نکل چکا ہے ۔ آپ جیسے صحافی منطق پیش کرتے ہیں کہ شریف خاندان کی دولت اس لئیے بڑھ رہی ہے کہ انکے پاس سلمان شہباز جیسا باصلاحیت اور حسین نواز جیسا باوضو رہنے والا نوجوان موجود ہے ۔ میری گذارش ہے کہ ملکی ادارے بھی تو انکے بزرگوں کی نگرانی میں ہیں انھیں بھی گیدرڑ سنگھی دیں ۔ چوھدری صاحب بات سلمان کی صلاحیت اور حسین نواز کی راست گوئی کی نہیں بات یہ ہے کہ انکے چہروں کی لالی بتاتی ہے کہ انھوں نے اس قوم کے خون کی بوند بوند نچوڑی ہے ۔ ساری زندگی جن پارک لین کے اپارٹمنٹس کی ملکیت سے انکاری رہے قدرت نے ماحول ایسا بنا دیا کہ آج انھیں اقرار کرنا پڑا ۔ ساری زندگی گلے پھاڑتے رہے کہ ملک سے باہر ہماری جائداد ثابت کرو ۔ آج ثابت ہوگیا تو کونسی قیامت آگئی ؟ اس قوم کی ہڈیوں سے گودا تک کھرچ کھرچ کے نکال چکے ہیں اس میں اب اتنی سکت نہیں کہ ان لٹیروں کا محاسبہ کرسکیں ۔ اگر کوئی جماعت چند ہزار لوگوں کو سڑکوں پر لے بھی آئے تو آپ جیسے دانشور اسے بڑی بی جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں ۔ کیونکہ میڈیا بھی جمہوریت کے توے پر صرف روٹیاں سینک رہا ہے اور قلمکار ہمیں حکمرآن خاندان کے زہد و تقوے کے قصے سنا رہے ہیں اگر یہ اتنے ہی زاہد اور متقی ہوتے تو میرا ملک آج جہاں کھڑا ہے وہاں نہ ہوتا ۔ انکا زہد و تقوی ہمیں کالموں سے معلوم نہ ہوتا بلکہ عوام کی حالت سے معلوم ہوجاتا ۔ آپ اپنی بہت بڑی اچیومنٹ سمجھتے ہیں کہ آپ نے حسین نواز سے اگلوا لیا کہ الحمد اللہ آف شور کمپنیاں میری ملکیت ہیں حالانکہ حقیقت میں وہ جانتے تھے کہ پانامہ پیپرز آنے والے ہیں وہ تو تیار بیٹھے تھے اگلنے کو انکی خوش قسمتی کہ باوضو رہنے والے کو درود پاک سے پروگرام کا آغاز کرنے والا اینکر میسر آگیا ۔ جس نے ناصرف احسن طریقے سے پروگرام کنڈکٹ کیا بلکہ جن سوالات کا تک نہیں بنتا تھا وہ بھی پوچھ لئیے اور بعد میں زہد و تقوے پر کالم بھی لکھ دیا ۔ (جاری ہے )
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186459 views System analyst, writer. .. View More