آج سے تقریباً چار سال قبل 7اپریل 2012 دنیا کے
بلند ترین محاز پر ووطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے پاک فوج کے ایک سو انتا لیس
سپوت برف کی چادر تلے دب کر شہید ہو گئے تھے۔دنیا کے بلند ترین اور سخت
فوجی محاذ سیاچن کے گیار سیکٹر پرو برف کا تود ہ فوجی بیس پر آکر گر تھا ۔
جس سے وہاں پر موجود تما م فوجی افسران ، جوان اور سویلین عملہ دب گئے تھے
، ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں نکلا جا سکا تھا ۔
سیاچن گلیشیر مشرقی قراقرم کے پہاڑی سلسلہ میں واقع ہے ۔چین اور پاکستان کی
سرحدپر واقع ہونے اور شاہرہ قراقرم سے متصل ہونے کی بنا پر اس علاقے کی
دفاعی اہمیت بہت زیادہ ہے۔جون 1984ء میں بھارت نے اس کے شمال مغرب میں واقع
تین پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا ۔اس وقت سے لیکر آج تک یہ مسئلہ بھارت اور
پاکستان کے درمیان تنازعہ کا باعث بنا ہو ا ہے ۔ اور یہاں پاکستان اور
بھارت کی افواج کے درمیان وقفے وقفے سے فوجی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں ۔ اس
علاقہ سے بھارت کا قبضہ ختم کرانے کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی
قیادتوں کے درمیان کئی مرتبہ بات چیت بھی ہو چکی ہے ۔ لیکن ابھی تک اس
تنازعہ کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے ۔سیاچن گلیشیر پر دونوں ممالک کا نقصان
ہو رہا ہے اورددنوں ممالک اس پر اپنے کثیر مالی اور جانی وسائل صرف کر رہے
ہیں ۔
سیاچن گلیشیر پاکستان کے شمال مغربی علاقہ بلتستان میں35سوکلو میٹر پر محیط
علاقہ ہے ۔اس کی بلندی سطح سمندر سے بائیس ہزار فٹ ہے ۔یہ علاقہ قرا قرم کے
پہاڑی سلسلے میں واقع ہے ۔ اوریہ علاقہ تقریباً87کلو میٹر لمبی اور 3 سو 10
کلو میٹرچوڑی پٹی کی صورت میں شمالی کشمیر کو پاکستان وچین سے جد ا کرتا ہے
۔اس جگہ میں درجہ حرارت ہمیشہ نقطہ انجماد سے 35 سے30 ڈگری نیچے رہتا ہے ۔
اور سردیوں میں یہاں کا درجہ حرارت منفی 58ڈگری تک چلا جاتا ہے ۔ سیاچن
گلیشیر کے جنوب میں لداغ اور وادی نوبر شمال اور مشرق میں قراقرم کے اس پار
ملک چین اور مغرب میں بلتستان کے علاقے جات استور اور کندوس واقع ہے ۔
سیاچن گلیشیر دنیا کا سب سے بڑا گلیشیر ہے ، سیاچن گلیشیر جس پہاڑی سلسلے
میں واقع ہے اس میں دنیا کی دوسری بڑی بلند چوٹی کے ٹو سمیت مشہور چوٹیاں
واقع ہیں ۔
سیاچن گلیشیر پاکستان اور بھارت دونوں کے لئے جغرافیائی ، سیاسی اور فوجی
اہمیت کا حامل علاقہ ہے ، قراقرم ہائی وے جو پاکستان اور چین کے درمیان
واحد زمینی رابطہ ہے سیاچن سے صرف74کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔اس واجہ سے یہ
علاقہ پاکستان کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس
راستے سے گھس کر بھارت دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو قریب پہنچ سکتا
ہے ،جبکہ دوسری طرف قرارقرم کو خطرہ ہے جو پاکستان اور چین کو آپس میں
ملاتا ہے ، اس کے علاوہ یہ گلیشیر پاکستان کے لئے واٹر ٹینکر کی حیثیت
رکھتا ہے جو ملک کے دریاؤں میں پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔
بھارت کے لئے یہ علاقہ اس لئے اہم ہے کہ گلیشیر کی برف پوش پہاڑیاں دنیا کا
سب سے اونچا میدان جنگ بنی ہوئی ہیں ، اس علاقے پر بھارتی فو ج کی موجودگی
سے گلگت سے چینی علاقے تک پاکستان کا رابطہ نہیں ہوسکے گا ، پاکستان اور
چین کے درمیان زمینی راستہ کٹ جانے کی وجہ سے بھارت نہ صرف خطے کا ٹھیکیدار
بن جائے گا بلکہ دنیا کے اونچے میدان جنگ پر موجود ہونے کی وجہ سے اسے
پاکستان اور چین پر برتری حاصل ہو جائے گی ۔
جولائی 1949 ء میں کراچی معاہدے میں پاک بھارت کے درمیان حد بندی لائن
تشکیل دی گئی تھی جو 1972ء میں جنگ بندی کی خاطر کئے گئے شملہ معاہدے میں
معمولی تبدیلیوں کے بعد لائن آف کنٹرول بن گئی ۔ یہ کنٹرول لائن سیاچن
گلیشیر کے جنوب میں گرڈ ریفرنس NJ9842 سے موسوم مقام تک گئی ، اس لئے آگے
کے علاقے کو غیر ضروری سمجھ کر حد بندی کئے بغیر یو نہی چھوڑ دیا گیا تھا
لیکن 1970 ء کے وسط سے سیاچن گلیشیر پاکستان کے کنٹرول میں تھا اور دنیا
بھر میں چھپنے والے نقشوں میں اس علاقے کو پاکستانی علاقہ قراردیا جاتا تھا
، اور اس علاقے میں جانے والے کو ہ پیما ؤں کو سیاچن کے ویزے اسلام آباد سے
جاری ہوتے تھے ، اور اس پر بھارت سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کو کبھی کوئی
اعتراض نہیں تھا ۔ 1984 ء کو جب بھارت کو یہ معلوم ہوا کہ سیاچن سے 20کلو
میٹر دورچوٹی’’ ریمو ‘‘ کو سر کرنے کے خواہشمند جاپانی کوہ پیماؤں کی رہبری
پاکستانی فوجی کریں گے توبھارت نے اس کو پاکستان کی جانب سے گلیشیر پر
عملداری حاصل کرنے کو شش قرار دیا اور بھارت نے اس کے جواب میں ’’ آپریشن
میگھ دوت ‘‘ کی ابتداء کی اور13اپریل 1984ء کو ہندوستان کی فضائیہ کی مدد
سے بھارتی فوج کا دستہ سیاچن جا پہنچا ۔ یہ آپریشن سیاچن پر قبضہ کرنے
کیلئے لانچ کیا گیا تھا ۔ یہ دنیا کا پہلا ایسا ملٹری آپریشن تھا جو دنیا
کے سب سے بلند ترین مقام پر شروع کیا گیا ۔پاکستان کی فوج نے بھارتی فوج کی
پیشقدمی روکنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی فوج اس میں کامیاب نہ ہوسکی ایک
ہفتے سیاچن پر قبضے کرنے کی کوشش جاری رہنے کے بعد بھارت کی فوج ’’ سیالا
‘‘ اور ’’بیلا فوند لا ‘‘ کے دو تز ویری طور پر اہم مقامات پر قابض ہو گئیں
۔بھارت کو ان چوٹیوں سے واپس ہٹا نے کی تمام پاکستانی کی کوششیں ناکام ثابت
ہوئیں اسی سال بھارت نے پاکستان کے ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بھی بنایا جس
کے جواب میں پاکستانی فوج نے بھی جوابی کارروائی کی۔1984ء تا 1985ء پاکستان
اور بھارت کی افواج میں سیاچن کے علاقے میں شدید جھڑپیں ہوئیں ، لیکن
پاکستانی فوج بھارتی فوج کا قبضہ چھڑانے میں ناکام رہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ دونوں ممالک دنیا کے اس انتہائی سرد نا مہربان خطے پر اپنے فوجیوں کی
تعداد کو بڑھاتے رہے اور چوکیاں قائم کرتے رہے ۔
سیاچن تنازعہ کا جھڑپوں کے ذریعے حل نہ نکل سکا تو پاکستان نے مذاکرات کے
ذریعے اس کا حل نکالنے کی کوششیں شروع کردیں ۔ بھارت پاکستان کی کوششوں سے
اس مسئلے پر مذاکرات کے لئے راضی ہوا ۔
1986ء میں دونوں ملکوں کے سیکریٹری دفاع کی سطح کے مذاکرات شروع ہوئے ، یہ
مذاکرات اگر چہ کامیاب نہ ہوسکے لیکن شملہ معاہدے کے مطابق اس تنازعہ کو
پرا من طور پر حل کرنے کا وعدہ کیا گیا ، ان مذاکرات میں پاکستان نے بھارت
کو یہ باور کرایا کہ ساچن ہمیشہ پاکستان کے دائرائے اختیار میں رہا ہے اور
بھارت کا اس پر دعویٰ بے بنیاد اور اشتعال انگیز ہے ۔
اس مسئلے کے حل کے لئے پاکستان بھارت کے درمیان ایک اور مذاکرات اسی سال
جون 1986ء میں ہوئے اور اس موقع پرایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ۔جس کے
مطابق پاک بھارت مذاکرات کو تعمیری اور دستانہ کہا گیا اور شملہ معاہدہ کی
بنیاد پر مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔ لیکن بعد ازاں 1987ء
میں پھر سیاچن کے مسائل پر دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو
گئیں ۔ ان جھڑپوں کو سیاچن گلیشئر پر پاکستان اور بھارت کے تصادم جو تقریباً
19سال جاری رہا میں سب سے سخت ترین جھڑپ قرار دیا جاتا ہے ۔ــ پاکستان فوج
نے اس میں ''بیلافوندلا''تک رسائی کی راہ مسدود کرنے کی کوشش کی تھی لیکن
اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔اس دوران کئی بار پاکستان اور بھارت کی فوجوں کا
ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوتا رہا ۔
1988ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پھر مذاکرات ہوئے ۔ جس کے دوران
دونوں ممالک ایک سمجھوتے پر پہنچے اور 17جون کو اس کے لئے مشترکہ بیان جاری
کیا گیا ۔اس سمجھوتے میں ایک تصفیہ کے اصولی عناصر کا احاطہ کیا گیاکہ
سیاچن گلیشئر پر پاک بھارت فورسز کو ازسر نو تعینات کیا جائے گا ، دونوں
ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کیخلاف طاقت کے استعمال سے گریز کریں گی۔ اگلے
مذاکرات1989میں اسلام آباد میں ہوئے بھارتی وزیر اعظم رواجیو گاندھی نے
جولائی1989میں پاکستان کا دورہ کیا دونوں ممالک کے سربرہان نے اس معاہدے کی
توثیق کی ۔ لیکن تنازعہ کا تصفیہ ایک فریب ثابت ہوا بھارت نے پاکستان سے
مطالبہ کیا کہ بھارتی فوجوں کی موجودہ پوزیشن کو سیاچن میں کنٹرول لائن بنا
دیا جائے اور بھارت 1989ء کے معاہدے سے بھی پھر گیا ۔ راجیو گاندھی نے
بنیادی طور پر اپنی فوج کے دباؤ میں آکر ایک معاہدے کے لئے شرائط تبدیل
کرنے کی کوشش کی ۔
1992ء میں پاکستان نے مذاکرات میں 1989ء کے معاہدے کو نافذ کرنے پر بات
کرنے کی کوشش کی تو بھارت نے ازسر نو تعیناتی سے قبل موجودہ پوزیشن کی مکمل
توثیق کرنے پر زور دیا اور پچھلے تصفیہ شدہ معاملات کو دوبارہ کھولنے کی
کوشش کی ، بعدازاں مذاکرات کے تمام دور میں توثیق پر ہی سوئی اٹک کر رہ گئی
اور یہی چیز تعطل کی وجہ بن گئی ۔پاکستان نے اس مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ
کرتے ہوئے معاہدے کے ضمیے میں اس حد تک موجودہ پوزیشنوں کو ریکارڈ پر لانے
کی پیشکش کی کہ وہ علاقے پر بھارت کے قانونی دعوے کی بنیاد نہ بنے، لیکن
بھارت مکمل توثیق پر اصرار کرتا رہا ، کیونکہ بھارت کسی صورت پسپائی نہیں
چاہتا تھا ، بلکہ وہ پاکستان کو دھوکہ دے کر پورے گلیشیر پر قبضہ جمانے کی
نیت رکھتا تھا ۔ پاکستانی فوج نے سیاچن میں اپنے مسلسل نقصانات کو روکنے
کیلئے کارگل آپریشن کا فیصلہ کیا1998ء میں پاکستان کی افواج نے ایک منصوبہ
بندی کے تحت کارگل کی چوٹیو ں پر قبضہ کرلیا ۔ پاکستان کے اس اقدام کی وجہ
سے بھارت کی 30ہزار فوج لداغ اور سیاچن میں پھنس گئی اور اس کی رسد کٹ
گئی۔لیکن امریکا کی شدید مداخلت کی وجہ سے پاکستان نے اپنی فوجیں واپس بلا
لیں کارگل کی چوٹیاں خالی کردیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان اس مسئلے پر
2003ء میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے ۔ 2007ء میں بھارت نے یکترفہ
طور پر سیاچن کو سیاحت کیلئے کھولنے کا اعلان کردیا اور پاکستان کا یہ دعویٰ
مسترد کردیا کہ سیاچن پاکستان کا حصہ ہے ۔
7اپریل 2012ء میں سیاچن میں برفانی تودہ گرنے سے پاکستان کے128کے قریب فوجی
اور 11شہری شہید ہوئے ، اس سانحہ کے بعد پاکستان فوج کو گلیشیر سے اتار نے
کی ضرورت پرزور دینا شروع کیا ، لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان 11اور
12جون 2012ء کو ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر بے نتیجہ رہے۔موجودہ دور میں
پاکستان نے سیاچن پر اپنی پوزیشن قائم رکھی ہوئی ہے ۔دونوں ممالک کی جانب
سے اس سلسلہ میں مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے ۔پاکستان آج بھی اپنے موقف پر قا
ئم ہے، پاکستان سیاچن کو ایک اہم مسئلے کی حیثیت سے دیکھتا ہے ۔پاکستان کی
اب بھی یہ ہی کوشش ہے کہ یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائے لیکن
بھارت کا رویہ اورغیر لچکدار پالیسی کے باعث یہ مسئلہ اب تک حل طلب ہے۔ |