پاکستان میں ایک ایسا خطرہ پھن پھیلائے کھڑاہے جس سے ہم
پاکستانی بے خطر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ پاکستان میں مذہب و مسلک کے نام پر عد م
برداشت کی ایک ایسی روش چل پڑی ہے کہ اسے روکنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا
رہا ہے ۔ ماضی میں غلط خارجہ پالیسیوں کی بنا ء پر جہاں پاکستان کی سلامتی
اور معیشت تباہ و برباد ہوئی وہاں شام ، یمن میں پاکستانیوں کو جنگجو بنانے
کے نئے سلسلے نے ایک خطرناک فتنے کو جنم دے دیا ہے جو کسی بھی وقت ٹائم بم
کی طرح بلاسٹ ہوسکتا ہے۔ ہم ابھی تک اپنے اقتدار کی ہوس کیلئے سیاسی چکر
ویو سے باہر ہی نہیں نکل سکیں ہیں کہ عالمی نقشہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے ،
پاکستان کی جانب سے مستحکم پالیسی کا نہ ہونا ، ہمیں تنہائی کی طرف دھکیل
رہا ہے ۔ سعودی عرب کی جانب سے جب بھارتی صدر نریندر مودی کو سعودی عرب کے
اعلی سول اعزاز سے سرفراز کیا گیا تو یقین ہے کہ پاکستان کی خارجہ امور کے
پالیسی میکروں کے پاؤں تلے زمین ضرور نکل گئی ہوگی ۔ یہاں پاکستان مسلسل را
کے ایجنٹ پکڑ رہے ہیں ، پہلے کراچی میں را کے ایجنٹ پکڑے تو ایسے لسانی
سیاست کے نظر کردیا گیا ۔ بلوچستان میں بھارتی کھیل شروع ہوا تو اس کے
تماشائی ہماری حکومتیں بنی رہیں ، افغانستان سے نیٹو کی واپسی کے بعد
افغانستان کو پر سکون ہوجانا چاہیے تھا لیکن افغانستان میں امن کو ناپید
کردیا گیا اور امریکہ نے اپنی فوجیں مزید عرصے کیلئے رکھ لیں ۔پاکستانی
سپاہ شمالی و جنوبی وزیر ستان میں انتہا پسندوں کی صفائی مہم میں لگی ہوئی
ہے تو دورسی جانب مشرقی سرحدوں پر بھارتی اشتعال انگیز کاروائیوں نے عسکری
اداروں کو چاق و چوبند رکھا ہوا ہے ۔ ایران بھارتی ایجنٹوں کو ویزے لگا کر
پاکستان اور لشکر زنیبون اور پاکستان حزب اﷲ ، پاکستانیوں کو شام میں خانہ
جنگی میں مسلک کے نام پر جھونکے جا رہے ہیں ۔ملکی نظریاتی سرحدوں کو پامال
کرنے والے لندن ، امریکہ اور مغربی ممالک میں بیٹھ کر سرور لئے بیٹھے ہیں
تو پاکستان میں غریب عوام معیشت کی کمزور صورتحال کے سبب بیرون ملک رزق کے
حصول کے بجائے لشکر زنبیون اور پاکستانی حزب اﷲ جیسی جنگجوؤں کے ہاتھوں بے
مقصد مارے جا رہے ہیں ، شام میں جابر بشا ر الاسد روس کی گود میں بیٹھ کر
فرقہ خانہ جنگیوں میں لاکھوں انسانو ں کی جان سے کھیل رہا ہے تو دوسری جانب
ایران نے امریکہ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا کر خود سے پابندیاں اٹھا لیں
اور ایرانی صدر کے دورے کے دوران جو تحفہ پاکستان کو ملا اس پر اقتدار پر
بیٹھے انسانی گدھ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ پاکستان کب فرقہ واریت کی
جنگ میں جھلستا ہے۔سعودی عرب ایک طرف اسرائیل کو ایران کے مقابلے میں دوست
اس لئے قرار دیتا ہے کہ وہ اسرائیل کو کھلا دشمن اور ایران کو چھپا دشمن
سمجھتا ہے ۔ لیکن جب سعودی عرب بھارت کو گلے لگاتا ہے تو یہ سمجھ نہیں آتا
کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والے ممالک جو پاکستان کے دشمن ہوا کرتے تھے وہ
سعودی عرب کے دوست کیسے بنتے جا رہے ہیں ۔امریکہ کی تو اپنی ہی پالیسیا ں
ہیں ، دنیا کا تھاندار بنا بیٹھا ہے ، لیکن چین نے تہہ کرلیا ہے کہ2020ء تک
وہ دنیا میں یک طرفہ قوت کے توازن کو ختم کردے گا ۔اس نے پاکستان میں جہاں
اربوں ڈالر کے منصوبے شروع کئے تو بھارت کو بھی اس سے محروم نیں کیا بلکہ
بھارت میں بھی چین کے اربوں ڈالر کے منصوبے اور سر ی لنکا تک بھارت کی سجھا
داری میں چین صرف اپنی قوت کو بھرپور بنانے میں مصروف ہیں۔لیکن پاکستان میں
سب الٹ ہو رہا ہے ، افغانستان جیسا ملک پاکستان کو سوائے پڑوسی کے زیادہ
اہمیت دینے کو تیار نہیں بلکہ افغانستان میں کابل انتظامیہ کے خلاف ہونے
والی کاروائی کا ماسٹر مائنڈ پاکستان کو سمجھتا ہے ، چین اپنے قوت میں
اضافے کیلئے بچوں کی لڑائی میں نہیں پڑنا چاہتا ، بھارت پاکستان کو تباہ
کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا کہ اب ایران کی سرزمین کا پاکستان کے
خلاف استعمال ہونا اور اپنے مقاصد کے لئے پاکستانیوں کی بھرتی اور انہیں
جنگی تربیت دیکر شام و یمن بھیجنا اور اس پر نوکر شاہی کی خاموشی ، پاکستان
میں نئے طوفان کا پیش خیمہ بننے جا رہی ہے۔پاکستان نے ویسے بھی اپنے دوست
کم اوردشمن زیادہ بنائے تھے لیکن اب دوست بھی دوستی کرنے کے بجائے اپنے
مفادات کو فوقیت دیتے ہوئے پاکستانی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔
جرمنی کے ادارے داعش میں شمولیت کرنے والوں کی واپسی پر انتہائی فکر مند ہے
کہ ان کی واپسی کے بعد جرمنی کا کیا ہوگا ۔ انساداد دہشت گردی کے جرمن
ادارے ’ جی ٹی اے زیڈ ‘ کے نمائندے روزانہ کی بنیادوں پر برلن میں سلامتی
کے ذمے دار چالیس ملکی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ملتے ہیں۔جرمن خٖفیہ
سروس بی این ڈی اور عسکری شعبے کے ادارے ’ ایم اے ڈی ‘ کے نمائندے بھی شرکت
کرتے ہیں اور اپنی معلومات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہیں ، اور مشتبہ
دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی مستقل مزاجی سے مانیٹرنگ کر رہے ہیں کہ کب کون
آیا کب گیا واپس آیا کہ نہیں ، کس سے ملا کیا سرگرمیاں ہیں ، کیا کر رہا ہے
، پہلے کیا کرتا تھا اب کیا کررہا ہے اس کی روزانہ کے معمولات میں کوئی
تبدیلی واقع پذیری ہوئی ہے کہ نہیں ۔جرمن ادارے کے مطابق تقریبا ََ آٹھ سو
شدت پسند شام گئے تھے اور ان میں ایک تہائی واپس جرمن پہنچ چکے ہیں ،لیکن
پاکستان میں سینکڑوں لشکر زنیبون اور پاکستان میں ضزب اﷲ سنیکڑوں
پاکستانیوں کو ایران کے شہر قم ، تہران بھیج چکے ، شام جا چکے ہیں ، واپس
بھی کتنے آچکے ہونگے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں ہمیں اس کا رتی برابر علم نہیں
ہے۔بلہ ہم اب بھی دوستی ایسا ناطہ کے گیت مالا کے سروں میں الجھے ہوئے ہیں،
انتڑ نیٹ اور سماجی ویب سائٹس پر دہشت گردی کیلئے بازار لگے ہوئے ہیں لیکن
ان کی نگرانی اور ان سے پوچھ کچھ کے بجائے ہم بانسری بجانے میں مصروف ہیں ۔
ہمیں اب اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیے کہ افغانستان ہمارا نہیں رہا ، چین
آسمان سے نہیں اترا ، بھارت کھلا اور ایران چھپا دشمن ہے ، سمندر میں جاکر
کیا نہانے سے گناہ معاف کروانا ہی باقی رہ جاتا ہے۔سیکولر ، لبرل ازم ،
کمیونزم ، اسلامک ازم ، سب ڈھاٹ پڑا رہ جائے گا۔ہم نے جگہ جگہ فرقوں کی
فیکڑیاں کھولی ہوئی ہیں جہاں سے روزانہ ایک انسانی بم تیار ہو کر باہر نک
رہا ہے اس انسانی بم میں تائم بم کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے اسے
اس وقت تباہی مچانی ہے جب ٹائم بم کا وقت پورا ہوجائے گا ۔ کس کے گھر میں
کتنے چلتے پھرتے ٹائم بم ہیں اس گھر والے کو بھی پتہ نہیں ہوگا ۔ہم دھرنوں
پر زور لگائے بیٹھے ہیں ، گٹر کی سیاست کر رہے ہیں ، ضمنی الیکشنوں کا موسم
ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں آتا ۔ اربوں کی مراعات لینے والے آکر کر کیا
رہے ہیں ، انھیں بھی اپنے ٹی اے ڈی کی فکر ہے ، زندہ باد مردہ باد کی نعرے
لگ رہے ہیں ، انسان بک رہیں ہیں عصمتیں پامال ہو رہی ہیں اور روای ثین چین
ہی لکھتا ہے۔خدارا اپنی آنکھیں کھولیں ، پہلے افغانستان میں جہاد کے نام پر
ان کے گھروں کو جلایا تو پنا گھر بھی مھفوظ نہ رکھ سکے ، ریالوں کے تکیئے
اور ڈالروں کے بستر بنا کر سوتے رہے ، اب وہی کھیل کسی اور جگہ نہیں
پاکستان میں کھیلا جارہا ہے چلتے پھرتے انسانی بم اپنے نظرہات کے ساتھ جب
صف بندی کریں گے تو صرف قوم کو یہی بتا دیں کہ وہ وہ کہاں ہجرت کریں ؟۔
پڑوس میں تو ایک ملک ایسا چھوڑا نہیں جس سے اچھی مہمان نوازی کی توقع رکھی
جا سکے ، تو پھر کون کہاں جائے گا یہ ابھی سے سوچ لیں ۔ کالعدم جماعتیں
اپنا مجبوط نیٹ ورک رکھتی ہیں انھیں باقاعدہ جنگی تربیت دی جاتی ہے ، پھر
صوبائی لسانیت نے دلوں میں کدورت اور احساس محرومی کو بڑھا دیا ہے۔پاکستانی
سیاسی کلچر میں جمہوریت کے بجائے آمریت ہے ، ان حالات میں اگر کالعدم
تنظیمیں اور عالمی استعمار پاکستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے ،
جو کہ کر رہا ہے کبھی عوام نے بھی سوچا کہ ان کا کیا ہوگا ْ ۔ پاکستان کا
پارلیمانی نظام انھیں بچائے گا یا بلدیا تی نظام ، فوج مزید جنگ لڑے گی تو
اینڈھن کون بنے گا ۔ خدارا کبھی تو سوچیں !! |