جو وزیرِ اعظم کا کمیشن نہیں مانتے عدالت جائیں

 پاناما لیکس کی خبریں آتے ہی دنیا میں ایک تہلکہ سا مچ گیا ۔ان کاغذات کے سامنے آنے کے بعد پہلا معاملہ آئس لینڈ کے وزیرِ اعظم سگمنڈر ڈیوسکا سامنے آیا ۔جن کواپنے وزارتِعظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ گیاہے اور اکثر یورپی قیادتیں بھی ایک طرح کے دباؤ کے حصار میں دیکھی جانے لگی ہیں۔ اس ضمن میں ہندوستانی سپُریم کورٹ نے بھی دو ججون پر مشتمل ایک ٹیم پاناما لیکس پر تحقیقات کے لئے بناد ی ہے۔جو 25 ، اپریل کو اس ضمن میں اپنی رپورٹ پیش کریگا۔جرمنی نے آف شور کمپنیوں کے خلاف نئے قوانیں کا اعلان کر دیا ہے۔دوسری جانب انڈو نیشیاکی حکومت نے پاناما لیکس کے کاغذات کا جائز لے نے کے بعد کچھ کرنے کا ارادہظاہرکیا ہے۔جبکہ پاناما لیکس کے الزامات کو سنگار پور اور ہانگ کانگ کے بینکوں نے مسترد کر دیا ہے۔اسی طرح فرانس نے پاناما لیکس کو اپنے ملک میں بلیک لسٹ قرار دے دیا ہے-

پاکستان میں اقتدار کے بھوکے اور اس کے ساتھ ہی کرپشن میں لتھڑے لوگوں کو نواز شریف کی حکومت اور ان کے خاندان پر کیچڑ اچھالنے کا نادر موقعہ ہاتھ آگیا ہے۔جس پر وزیر اعظم پاکستان محترم نواز شریف نے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لئے پیش کر کے ایک نادر مثال قائم کر دی ہے۔اور سُپریم کورٹ کے سابق جسٹس کے زیرِنگرانی ایک کمیشن بنانے کا اعلان کر کے اپنے سیاسی حریفوں کے دیئے گُل کادیئے ہیں ۔اس کمیشن کے سربراہ سابق جسٹس سُپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ کمیشن کے دیگر دو ارکان کا خود ہی تعین کریں ۔وزیرِ اعظم نے الزامات لگانے ولوں کو کمیش کے روبر ثبوت پیش کرنے کو کہا ہے۔ یہ ایساموقعہ ہے کہ الزام لگانے والوں کوثبوت پیش کرنے اور نوازشریف کواپنی جانب سے حقائق پیش کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔اگر وزیر اعظم اور اُن کے صاحب زادے اور صاحب زادی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں تو انہیں قانون کے مطابق سزابھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ پاناما لیکس کے پیچھے فنڈنگ کا پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہے۔امریکہ کے کنزرویٹو ادار ے اس کو مکمل سپورٹ فراہم کر رہے ہیں۔ مشرقی یورپ میں اس کی فنڈنگ کمیونزم کے خلاف سی آئی اے کی جنگ لڑنے والی اوپن سوسائٹی بھی کرتی ہے ۔

عمران خان صاحب کو اس وقت اپنی ڈوبتینیا کو کنارے لگانے کا موقعہ شائد پانامالیکس نے فراہم کر دیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں ایک نئے دھرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اؓ ڈی چوک میں تو یہ جا سکتے نہیں ہیں لہٰذارائے ونڈ جانے کا پروگرام دے رہے ہیں ۔ سیاسی طریقے سے تو شائد انہیں اقتدار تک پہنچنا مشکل ہے مگر ملکمیں بد نظمی پیدا کر کے کسی جنرلکی راہ تکتے تکتے تھک ہار کر پھر اسی تنخواہ پر لگ جائیں گے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ آپ صرف کرکٹ کے ماضی کے کھلاڑی ہیں ۔خیرات اکٹھی کرتے رہیں ۔اور امریکی یہودیوں سے پاکستان میں تخریبی سیاست کے لئے سرمایہ لگاتے رہیں آج آپ کر کٹ میں بھی کسی حد تک متروک ہو چکے ہیں۔یہ بھی یاد رکھیں کہ سیاست ہر کسی کے بس کا کھیل نہیں ہے۔اس میں بڑے صبر و تحملکا دخل ہے جو ُ کے پاس سے بھی نہیں گذرا ہے۔آپکی سیاسی پرورش جن لوگوں نے کی وہ بھی شائد اپنی غلطی پر سچھتا تو ضرور ہی رہے ہونگے!اس حولے سے پیپلز پارٹی کے آج کے کردار پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔جو اس سیاست کے ناکام گھوڑے کو ڈربیکا ہیرو بنانے چلی ہے۔خورشید شاہ صاحب اپنے پیروں پر کُلہاڑی مت ماریں کبھیکل پچھتانا پڑ جائے۔

بعض وزیر اعظم سے سوفٹ کارنر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کے اقدام پر وزیرِ اعظم کو اور ان کا اپنے خاندان کو احتساب کی غرض سے پیش کرنا قابلِ تحسین ہے۔پاناما لیکس پر نواز شریف کے اقدام کی سینئر وکلا جن میں سلمان اکرم راجہ اور احمر ہلال صوفی نے پاناما پیپرزلیکس کے بعد سیاسی حریفوں کے الزامات سے پریشان وزیر اعظم کے عدالتی کمیشن تشکیل دے کر اپنے تینوں بچوں کو احتساب کے لئے پیش کردینے کو قابل تعریف بات کہا ہے۔حالانکہ نواز شریف ایسا کوئی کمیشن تشکیل دینے کے ہر گز پابند نہ تھے۔لیکن اس کے باوجود انہوں نے عدالتی کمیشن کی تشکیل کا بیڑا اٹھا لیا ہے جو مکمل آزادی کے ساتھ چار سے آٹھ ہفتوں میں اپنی سفارشات پیش کر دے گا۔اس کمیشن کو لا محدود اختیارات بھی حاصل ہون گے۔جسے ایف آئی اے اور نیب سے بھی مدد لینے کا اختیار حاصل ہوگا اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے بھی مدد لینے کا اختیار حاصل ہوگا۔یہ کمیشن ملک کے اندر اور باہر کسی بھی شخص کو بلانے میں با اختیار ہوگا۔اس ضمن میں بعض تجزیہ نگاروں کی بھی یہی رائے ہے ان میں سے کئی نے وزیر اعظم کے فیصلے کو سراہا ہے اور بعض نے اس کی عمران خان کی طرح سخت مخالفت بھی کی ہے۔

پیپلز پارٹی کے لوگ الزامات لگانتے ہوئے تو بڑے شیر دکھائی دیتے ہیں مگر جب اُن کی باری آتی ہے تو عجیب عجیب منطقیں پیش کرنے لگتے ہیں۔اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اﷲ بابر کہتے ہیں کہ نواز شریف وزیر اعظم پاکستان پاناما لیکس کا جواب دیں پیپلز پارٹی نے جو کچھ کیا ہے اُس پر بات نہ کریں؟؟؟؟ طوفان کا رخ پیپلز پارٹی کے زمانہِ اقتداکی طرف نہ موڑیں۔کیونکہ یہ بات نہایت ہی افسوس ناک ہے؟اُن کا کہنا تھا کہ بجائے اس کے کہ وزیر اعظم پاناماپیپرز کی دستاویز ات کے جوابات دینے کی بجائے ساراالزام پیپلز پارٹی پر ڈال رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ضیاء الحق نے اتفاق فاؤنڈری بغیر کسی ادائیگی کیانہیں واپس کردی تھی۔ فرحت صاحب بتائیں کیا آپ کسی ذاتی ملکیت پر قبضہ کر اُسے پیسے لیکر اس کی چھینی گئی چیز کو واپس کریں گے؟ اخوب منصف ہیں آپ ۔اگر وہ پیسے نہیں دیگا تو اُس کو ہڑپ کر جائیں گے۔؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جاگیرا دار نے لوگوں کے کارخانے تو قومی ملکیت میں لے لئے اپنی لاکھوں ایکٹر زمین جو انگریز کے کتے نہلانے پرملی تھی ُاس کو قومی ملکیت میں کیوں نہیں لیا؟ یہدوہرا معیار تو صرف پیپلز پارٹی کا ہی ہو سکتا ہے۔
سابق چیف جسٹس اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ افتخار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کو ثابت کرنا لیکس کرنے والوں کی ذمہ داری ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اس ملک میں جس کا دل چاہتا ہے لوگوں کی پگڑیاں اچھال دیتا ہے۔ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ قانونی طور پر ان کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر پاکستان سے پیسہ باہر لیجانا کو ئی جرم نہیں ہے۔ قانونی طور پر پیسہ پاکستان سے لے جایا جا سکتا ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کاکمیشن نہیں مانتے۔جس کے جواب میں حکمران مسلم لیگ ن کی جانب سے دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ جو کمیشن کو نہیں مانتا عدالت جائے ۔حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ ہمارا احتساب تو 1988سے کیا جارہا ہے ۔عمران خان کے بارے میں ن لیگ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ موصوف تو زکواۃ خیرات کی رقم تک بیرونی آف شور کمپنیوں میں لگاتے رہے ہیں۔جب ان کے محاسبے کی بات آتی ہے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ان کے اپنے لوگ بھی شائد انہیں یہ سمجھانے میں ناکام، ہوچکے ہیں کہ وزیر اعظم انکی بد زبانی یا پینڈو لاؤڈ سے وہ بن جانے والے نہیں ہیں۔چاہے جتنا ٹیڑھا منہ بنا کر کے حلق سے آوازیں نکال کر چیخ لیں الیکشن تو وقت پر ہی ہوں گے۔اور وزارت عظمیٰ پھر بھی انہیں ملنے والی نہیں ہے۔لوگ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن جیسے لوگوں پر بھی متعجب ہیں کہ انہیں زرداری ،سرے محل اور رحمٰن ملک کی کرپشن تو نظر آنہیں رہی ہے ۔ایک ایجنڈے کے تحت یہ تمام لوگ عمران خان کی آواز میں آواز ملا کر ایک ہی لے کا ترانہ پڑھ رہے ہیں۔
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 189743 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.