پاکستان کے مختلف علاقوں میں اتوار کی سہ پہر زلزلے
کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے، جس سے متاثرہ علاقوں میں خوف و ہراس پھیل
گیا۔ پاکستان کے زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت 7.1 ریکارڈ کی گئی
اور اس کا مرکز افغانستان میں کوہ ہندو کش میں 236 کلومیٹر زیر زمین تھا۔
تاہم امریکی ارضیاتی سروے نے زلزلے کی شدت 6.6 بتائی ہے۔ زلزلے کے جھٹکے
پاکستان کے شمال مغربی حصے کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب
کے مشرقی علاقوں تک محسوس کیے گئے، جب کہ کشمیر اور بھارت کے بعض علاقوں
میں اس کی شدت محسوس کی گئی۔ زلزلے کے نتیجے میں چھتیں گرنے سے سوات اور
دیامر میں 6 افراد جاں بحق ہو گئے، جبکہ دیگر کئی شہروں میں متعدد افراد کے
زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ زلزلے سے بلند عمارتیں 40 سیکنڈ تک جھولتی
رہیں۔ زلزلے کے جھٹکے پنجاب میں لاہور کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد،
ملتان، سرگودھا، فیصل آباد، گوجرانوالہ، بہاولپور، بہاولنگر، لودھراں، لیہ،
میانوالی، پنڈ دادنخان، مری، حافظ آباد، شور کورٹ، گجرات، منڈی بہاءالدین،
سیالکوٹ اور خیبر پختونخوا میں پشاور، سوات، ایبٹ آباد، مانسہرہ، صوابی،
مردان، نوشہرہ، لکی مروت، کوہاٹ، کرک، بنوں، لوئر اور اپردیر، شانگلہ، مالا
کنڈ ایجنسی، چارسدہ اور گلگت بلتستان میں گلگت، سکردو، استور، دیامر، ہنزہ
سمیت کئی علاقوں، آزاد کشمیر میں مظفر آباد، کوٹلی، میر پور سمیت کئی
علاقوں میں محسوس کیے گئے۔ شدید زلزلے کے باعث لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے
باہر نکل آئے۔ زلزلے کے باعث ملک میں مواصلاتی نظام میں بھی خلل پڑا، جس سے
لوگوں کو رابطہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ چلاس اور گلگت کے
درمیان لینڈ سلائیڈنگ سے شاہراہ قراقرم بند ہو گئی، جس سے دونوں شہروں کا
آپس میں رابطہ منقطع ہو گیا۔ شاہراہ قراقرم ہربن کے مقام پر لینڈ سلائیڈنگ
سے کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔ آفات سے نمٹنے کے قومی اور صوبائی ادارے کا
کہنا ہے کہ وہ زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وزیراعظم
نوازشریف نے زلزلے کے بعد ریسکیو اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی سول، ملٹری اور صوبائی ادارے مکمل چوکس رہیں،
زلزلے کے بعد شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام وسائل متحرک کیے جائیں۔ تمام
ادارے اپنے وسائل بروئے کار لائیں، ممکنہ متاثرین تک پہنچنے کے لیے امدادی
سرگرمیاں شروع کی جائیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق خیبر پی کے، گلگت بلتستان
میں مواصلاتی نظام کی بحالی کے لیے کوشش جاری ہے۔ قراقرم ہائی وے پر، داسو،
نومادٹنل اور ایبٹ آباد کے قریب کام جاری ہے۔ قراقرم ہائی وے پر چار مقامات
پر بحالی، شانگلہ، بنوں اور بحرین کالا روڈ پر کام جاری ہے۔ آپریشن کرکے
گلگت سکردو روڈ سمیت 700 کلومیٹر شاہراہ کھول دی گئی۔ مالاکنڈ اور چترال
میں مرکزی سڑکیں کھول دی گئیں۔ چیف میٹریالوجسٹ حضرت میر کا کہنا ہے کہ
پاکستان کے مختلف علاقوں میں آنے والا زلزلہ اپنی گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ
سے زیادہ خطرے کا باعث نہیں بنا، اگر گہرائی کم ہوتی تو نقصان زیادہ ہوسکتا
تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضرور ہوگا کہ جہاں کچے مکانات ہیں یا مکانات کی
تعمیر میں بلڈنگ کوڈز کا خیال نہیں کیا جاتا، وہاں زیادہ نقصان کا اندیشہ
ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت صوبہ پنجاب اور سندھ کے علاوہ باقی تمام
علاقے فالٹ لائن پر واقع ہیں اور ہر وقت زلزلے کی زد میں ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی آفات پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انسان
قدرتی آفات کے سامنے بالکل بے بس ہے۔ قدرتی آفات سے دنیا میں ہمیشہ ہولناک
تباہی آتی رہی ہے، جس سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنتے رہے ہیں۔ شاید ہی دنیا
کا کوئی خطہ اس تباہی سے متاثر ہوئے بغیر رہا ہوگا۔ پاکستان میں اس سے پہلے
بھی زلزلے بدترین تباہی مچاتے رہے ہیں۔ 24 ستمبر، 2013ءکو بلوچستان میں آنے
والے زلزلے کے نتیجے میں 328 افراد جاں بحق اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے
تھے، جبکہ زلزلے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں
میں تھی۔ کوئٹہ میں 16 اپریل 2013ءکو ریکٹر اسکیل پر 7.9 کی شدت سے آنے
والے زلزلے کے جھٹکے پاکستان، ایران، بھارت اور چند خلیجی ملکوں میں بھی
محسوس کیے گئے تھے۔ اس زلزلے کے نتیجے میں 34 افراد کی ہلاکت اور 80 کے
زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں، جبکہ ایک لاکھ کے قریب مکانات زلزلے کے نتیجے
میں تباہ ہوئے تھے۔ 20 جنوری، 2011 ءکو 7.4 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے
جھٹکے کوئٹہ میں محسوس کیے گئے جس کے نتیجے میں 200 سے زاید مکانات تباہ
ہوئے تھے۔ 18 جنوری، 2011ءکے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے جنوب مغربی
صوبہ بلوچستان میں کئی افراد جاں بحق، جبکہ 200 سے زاید عمارتیں تباہ ہو
گئی تھیں، اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.2 ریکارڈ کی گئی تھی۔ 28
اکتوبر، 2008ءکو ریکٹر اسکیل پر 6.4 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں
کوئٹہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں 160 افراد جاں بحق، جبکہ 370 افراد زخمی
ہوئے تھے اور کئی عمارتیں بھی تباہ ہوئی تھیں۔ 8 اکتوبر، 2005ءکو ریکٹر
اسکیل پر 7.6 کی شدت سے آنے والے زلزلے نے کشمیر اور شمالی علاقوں میں
تباہی پھیلا دی تھی۔ زلزلے کے نتیجے میں 80 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق، 2
لاکھ سے زاید افراد زخمی اور ڈھائی لاکھ سے زاید افراد بے گھر ہو گئے تھے۔
14 فروری، 2004ءکو ریکٹر اسکیل پر 5.7 اور 5.5 کی شدت سے آنے والے دو
زلزلوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں 24 افراد جاں
بحق جبکہ 40 زخمی ہو گئے تھے۔ 3 اکتوبر، 2002ءکو ریکٹر اسکیل پر 5.1 کی شدت
سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں 30 افراد جاں
بحق، جبکہ ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ 26 جنوری، 2001ءکو آنے والے
زلزلے کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں 15 افراد جاں بحق، جبکہ 108 زخمی ہوئے
تھے۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 6.5 نوٹ کی گئی تھی۔ ان کے علاوہ بھی
ماضی میں کئی تباہ کن زلزلے پاکستان میں آئے ہیں، جن میں کافی زیادہ جانی
نقصان ہوا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز زلزلہ آنے کے بعد اگرچہ وزیر اعظم نے
متعلقہ اداروں کو امدای سرگرمیاں جاری کرنے کا حکم دے دیا تھا اور فوج نے
فوری طور پر امدادی سرگرمیاں شروع بھی کردی تھیں، لیکن ایسے مواقع پر اکثر
دوردراز کے وہ علاقے امداد سے محروم رہ جاتے ہیں، جہاں تک نہ تو میڈیا کی
رسائی ہوتی ہے اور نہ ہی جلدی امدادی سرگرمیاں شروع کی جاسکتی ہیں۔ جبکہ
حکومت بھی سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے ان علاقوں پر اس طرح سے توجہ نہیں
دیتی، اکثر و بیشتر ایسے علاقے امداد سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ خوش قسمتی
کہ گزشتہ روز آنے والے زلزلے سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا، ورنہ 7.1 شدت
کا زلزلہ بہت زیادہ تباہ کن ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں عمارتوں کی ایک بڑی
تعداد کافی حد تک مخدوش ہے اور اس کے علاوہ ملک میں اکثر عمارات کو
تعمیراتی معیار کے اصولوں کے تحت نہیں بنایا جاتا، جس کی وجہ سے زلزلوں کی
صورت میں بہت زیادہ جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، یہ متعلقہ اداروں کی
ذمہ داری ہے کہ سروے کر کے مخدوش عمارتوں کو خالی کرنے کا حکم دیا جائے اور
شہریوں کو آئندہ نئی بننے والی عمارتوں کو تعمیراتی اصولوں کے مطابق بنانے
کا پابند کیا جائے، تاکہ مستقبل میں قدرتی آفت کی صورت میں بڑے نقصان سے
محفوظ رہا جاسکے۔ بحیثیت مجموعی ہمارا قومی مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماضی کے
واقعات سے سبق نہیں سیکھتے، اگر ماضی کے واقعات کے سامنے رکھتے ہوئے مستقبل
کی پلاننک کی جائے تو نقصانات سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ 2005ءکے زلزلے
کے بعد ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی قائم ہوئی تھی، لیکن یہ اتھارٹی بھی صحیح
معنوں میں ”ڈیزاسٹر مینجمنٹ“ نہ کر سکی۔ یہ فیصلہ بھی ہوا تھا کہ اب کثیر
المنزلہ عمارتیں زلزلہ پروف بنائی جائیں گی، لیکن اِس کے لیے بھی شاید
ضابطے نہیں بن سکے اور اگر بن گئے تو ان پر عملدرآمدنہیں ہوسکا۔اس کے علاوہ
بھی حکومت نے قدرتی آفات میں بچاﺅ کے لیے ابھی تک عوام کا شعور بیدار کرنے
کے لیے کچھ بھی اقدامات نہیں کیے، جس سے کافی حد تک نقصان سے بچا جاسکتا
ہے۔ دوسری جانب علمائے کرام کا کہنا ہے کہ زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے، جس کا
مقابلہ کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ یہ انسان کے لیے امتحان ہوتا ہے۔
زلزلے کے ظاہری اسباب اپنی جگہ، لیکن قدرتی آفات کا سبب انسانوں کے اعمال
ہی ہوتے ہیں۔ جب معاشرے میں گناہوں کی کثرت ہوجاتی ہے تو زلزلے اورقدرتی
آفات آتی ہیں۔ پوری قوم کو توبہ واستغفار کی ضرورت ہے۔
|