بھارتی خفیہ ادارے’’ را‘‘ کے افسر کل بھوشن یادیو کی
گرفتاری سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ بھارت پاکستان میں دہشت گرد
کاروائیاں کرانے اور حالات خراب کرنے کا بڑا ذمہ دار ہے۔کلبھوشن نے
رضاکارانہ طور پر از خودبھارتی عزائم کا انکشافات کرتے ہوئے پاکستان میں
دہشت گرد ’’نیٹ ورکس‘‘ کو بھی بے نقاب کیااور اسی حوالے سے کئی گرفتاریاں
بھی عمل میں آئی ہیں جس میں افغان حکومت کی خفیہ ایجنسی کے افسر کی گرفتاری
بھی شامل ہے۔بھوشن کے اس ’’بھاشن‘‘ سے بھارتی حکومت سفارتی سطح پر کمزور
پوزیشن میں آ گئی ہے ۔بھارتی ایجنٹ کے ان ہولناک انکشافات سے واضح طور پر
نظر آتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی وجہ سے بھارت سرحدوں سے جنگی
حملہ کرنے کے بجائے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اہم
تنصیابات کو بھی تباہ کرنے کے حملے کروا رہا ہے۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ
عالمی سطح پر بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر کی گرفتاری اور بھارتی منصوبے بے
نقاب ہونے کی تمام صورتحال سفارتی سطح پر سرگرمی سے اٹھائی جائی گی اور اہم
عالمی ملکوں کو بھارت کی طرف سے پاکستان میں شروع کی گئی مسلح حملوں کی
جارحیت کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کے ممکنہ جوابی اقدامات کے
عزم کا اظہار بھی کیا جائے گا۔یہ تمام صورتحال ایسی ہے کہ پاکستان کے خلاف
بھارت کی ان جارحانہ کاروائیوں کے تدارک کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دی
جائے ۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ملک میں مقتدر اداروں اور سویلین کو الگ
الگ دیکھنے سے دشمن کی جارحیت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔دفاعی قوت کے
ساتھ ساتھ مضبوط سیاسی قوت بھی بھارت سے مقابلے کے لئے ناگزیر ہے۔عوام یہ
جاننا چاہتے ہیں کہ بھارت نے تو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی جنگ شروع کر
رکھی ہے، اس بارے میں ہمارے حکمران،ارباب اختیار کیا کر رہے ہیں اور بھارت
کے ان ’’ نیٹ ورکس‘‘ کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جوابی کاروائی
کیا اور کس انداز میں ہو گی؟پاکستان کے اندر مسلح مداخلت کا معاملہ عالمی
سطح پر اٹھانا درست لیکن ملک میں بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کی کاروائیوں
کے ساتھ جوابی اقدامات اور اس کی نوعیت کا فیصلہ کرنا بنیادی اہمیت کا حامل
معاملہ ہے۔
مختلف ملکوں کے امراء کی طرف سے اپنی دولت کو محفوظ کرتے ہوئے محفوظ طریقے
سے خرچ کرنے سے متعلق مالیاتی سکینڈل’’ پانامامہ لیکس‘‘ نے کئی ملکوں میں’’
اتھل پتھل‘‘ پیدا کر دی ہے۔پاکستان میں بھی اس کا چرچا ہے کہ وزیر اعظم کے
علاوہ اپوزیشن سمیت کئی سیاسی و غیر سیاسی شخصیات بھی اس مالیاتی سیکنڈل
میں ملوث بیان کی جا رہی ہیں۔حکومت کی طرف سے ریٹائرڈ ججوں کا ایک کمیشن
بنانے کا اعلان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ملک کی مختلف عدالتوں میں وزیر اعظم
سمیت مختلف شخصیات کے خلاف اسی سلسلے میں مقدمات بھی دائر کئے جا رہے
ہیں۔کئی وضاحتوں کے باوجود عوام کی اکثریت ابھی تک اس مالیاتی سکینڈل ’’
پانامہ لیکس ‘‘ کے انداز واردات کو سمجھ ہی نہیں سکی ہے کہ کس طرح امراء
اپنی جائز و ناجائز دولت کو محفوظ سے محفوظ تر بناتے ہیں۔عام شہری اس
مالیاتی سکینڈل کی نوعیت اور عوامل کو پوری طرح سمجھ تو نہیں سکا ہے لیکن
بڑے بڑے اعداد و شمار والی رقومات کی تفصیل دیکھ کر اس کا حیران و پریشان
رہ جانا فطری امر ہے۔ملک میں عام شہری کی حالت تو یہ ہے کہ وہ یوٹیلٹی
بلز،نجی تعلیمی اداروں کے اخراجات وغیرہ کی ادائیگی کے بعد دو وقت کی روٹی
سے بھی قاصر ہے جبکہ امراء کے پاس اتنی دولت ہے کہ ان کے لباس ،رہائش سے
بھی چھلکتی رہتی ہے۔امراء’’ بیچارے‘‘اپنی بے تحاشہ دولت چھپانے کے لئے کافی
پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن کمبخت دولت اتنی زیادہ ہے کہ پھر بھی چھلک چھلک کر
نامرادوں ،غریب غرباء کو شور مچانے پر مجبور کر دیتی ہے۔یوں پہلے’’ عشق اور
مشک‘‘ چھپائے نہیں چھپتے تھے ،اب اس فہرست میں دولت کا بھی اضافہ ہو گیا ہے
کہ کتنا بھی چھپاؤ ،چھپتی نہیں ہے۔
یہاں بات پیسے کی ہو رہی ہے اور پیسے کی ایک اور بات چند ماہ بعد جون کے
مہینے میں ایک بار پھر ہونے والی ہے۔ملکی صورتحال سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ
آئندہ بجٹ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ،دشمن ملکوں کے خطرات سے
بچانے،حکمرانوں،ارباب اختیار کے معاوضے،مراعات میں معمول کے ناگزیر اضافے
کے پیش نظر کئی قسم کے مزید نئے ٹیکس عوام پر لاد دیئے جائیں گے۔بد بخت
عوام اتنے ’’ غیر ذمہ دار ‘‘ ہیں کہ اپنی حفاظت کرنے سے بھی قاصر ہیں،یوں
اس حوالے سے بھی ایک نئے خصوصی ٹیکس کا عوام پر عائید کرنا تو بنتا ہی
ہے۔یہ ہے ملک میں جاری و ساری وہ بدبو دار،ناقابل برداشت سیاسی کلچر جس کی
بنیاد ایک سابق آمر جنرل ایوب نے ڈالی اور اس کے بعد جنرل ضیاء اور پھر
جنرل مشرف نے اس طریقہ کار کو مزید مضبوط و مستحکم کیا۔
ایک طرف ملک کے اندر بھارتی جارحیت کی صورتحال عیاں ہو چکی ہے ،ملکی سلامتی
کے خلاف سازشوں کی صورتحال واضح ہو چکی ہے،اس کے باوجود ملک میں اقتدار و
اختیارات کی کشمکش بھی تیز تر نظر آتی ہے۔عوام عارضی اور مستقل حکمرانوں سے
یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا حقیقی عوامی سیاست کی قوت کے بھر پور اشتراک کے
بغیر دشمن کے بد عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے؟ اس کا مقابلہ کیا جا
سکتا ہے؟یوں معلوم ہوتا ہے کہ ’’ اچھی سیاسی جماعتیں‘‘ اور’’ بری سیاسی
جماعتوں‘‘ کے تجربات کے بعد اب ملک میں ’’ کنٹرولڈسیاست‘‘ کے ’’تانے بانے‘‘
بنے جا رہے ہیں۔ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایک بار پھر ملک میں عوام کو یہ نعرہ
عطا نہ ہو جائے کہ ’’ روکھی سوکھی کھائیں گے ،ملک کو بچائیں گے‘‘۔یہ کہنے
کی ضرورت نہیں ہے کہ اس نعرے کے معنوں کے مطابق ملک کو بچانے کا مطلب ملک
میں اس سسٹم کو مزید مضبوط بنانا ہے جو قومی مفاد کے نام پر ملک میں بد کار
سیاست کی ترویج کرتا ہے،طبقاتی نظام اور معاشی عدم مساوات کو یقینی بناتا
ہے۔
|