اختیار بیگ صاحب نے ۳؍ فروری کے اخبار جنگ کے ایک کالم
میں لکھا ہے کہ انہیں گورنر ، پریذیڈنٹ اور علامہ عثمانی جیسے حضرات کے
درمیان ایک میٹنگ میں ،جو سود کے خاتمہ سے متعلق تھی ، شرکت کا موقع ملا۔
اسکے بعد انکے ایک کاروباری دوست نے مشورہ دیا کہ سودی بنکاری نظام سے نجات
حاصل کرکے اسلامی بنکاری کو اپناؤ تو میں نے اس پر عمل کیا اور اﷲ تعالی نے
انکے رزق اور کاروبار میں پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ خیرو برکت عطا
فرمائی۔
میں نے بنک میں ملازمت کی ہے اور سود سے متعلق جو کتاب سید ابولعلا مودودی
صاحب نے لکھی ہے، اس کا اور ایسی ہی دیگر کتا بوں کا مطالع بھی کیا ہے۔
میری ناقص رائے میں دونوں قسم کی بنکاری ، یعنی سود والی اور اسلامی ، ساتھ
ساتھ نہیں چل سکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سودی نظام کو بالکل خیرباد کہہ
دیا جائے، تب جاکر اﷲ کی رحمتیں چاروں جانب سے برسیں گی ۔ایک اکیلا شخص نام
نہاد اسلامی بنکنگ سے تعلق پیدا کرکے سودی نظام سے کیسے بچ جائے گا جبکہ
ہوا میں بھی سود شامل ہے اور سانس کے ساتھ بھی جسم میں اسکی آمدوشد ہے۔کیا
آپ کو علم نہیں کہ زیادہ بنکس دونوں قسم کی بنکاری کر رہے ہیں یعنی ملاوٹ
کا عنصر بینکنگ میں بھی جاری ہے۔کیا جن اسلامی ملکوں میں یہ نظام جاری ہے،
وہاں بھی سودی اور بلا سودی دونوں قسم کی بنکاری جاری ہے۔ضرورت اس بات کی
ہے کہ ایک بار پھر تمام اسلامی ملکوں کو پاکستان میں مدعو کیا جائے ، (بھٹو
صاحب کی طرح) اور رباء کے مسلہ پر سارے علما ء اجتہاد کریں کہ یہ جو بلا
سود بنکاری ہورہی ہے وہ کسی طرح بھی احکامات قرآنی سے مطابقت نہیں رکھتی
اور ان احکامات کی خلاف ورزی کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ یہ اﷲ اور اسکے رسول
سے جنگ کے مترادف ہے۔ اتنے سخت احکامات ہیں ان سے کیسے صرف نظرکیا جاسکتا
ہے۔ڈان اخبار مورخہ ۲۳؍ جولائی ۱۵ء کو ا س ضمن میں ا یک خط چھپا ہے ، جو اس
کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
ساری اسلامی ریاستیں ایک کرنسی اپنائیں جیسے یورپی ممالک نے اپنے لئے یورو
کرنسی منتخب کرلی ، اور ڈالر کی لعنت سے جان چھڑائیں۔ سب امریکہ سے اپنے
اثاثے واپس لائیں، اپنے وسائل یکجا کرکے آپس کے مسائل حل کریں۔ ہماری
زمینوں کے نیچے قدرت کے خزانے چھیپے ہوئے ہیں، انہیں نکالنے کا بندوبست
کریں۔ تعلیم کا معیار ایک ہو، سب کے لئے ہو، مفت ہو ، اس پر جتنا بھی خرچ
ہو خوش دلی سے کیا جائے، عربی زبان پڑھائی جائے تاکہ ہر ایک قرآن کے
احکامات کو باآسانی سمجھ سکے۔البتہ سائنس اور کمپیو ٹر جیسے مضامین کے لئے
ذہین طلبا کا انتخاب کرکے انہیں ایسے ماہرین ( جو لیاقت کی بنیاد پر رکھے
گئے ہوں اور انکا مشاہرہ بھی زیادہ ہو تاکہ کوئی بھی ٹیوشن کے ذریعہ آمدنی
بڑھانے کی کوشش نہ کرے) سے جدید علوم میں تعلیم دلو ائی جائے۔
اس کام کے لئے ایک منجھی ہوئی شخصیت پاکستان میں موجود ہے ، وہ ڈاکٹر عطا ء
ا لرحمان صاحب ہیں۔ انکو یہ ذمہ داری سونپیں۔
ہر اسکیم جو وہ طے کریں اس پر جو بھی خرچ کا تخمینہ بتائیں ، وہ بلا چون و
چرا منظور کیا جائے۔ تعلیم ہی پاکستان کو ترقی کی راہوں پرگامزن کرے گی۔
اہم نکتہ : ہر ایک سے درخواست ہے کہ سود کے مسلہ کو حل کرنے میں آپ سے جو
کچھ بھی ہوسکے کریں تاکہ مسلمانوں کی دین اور دنیا سرخ رو ہوجائے۔
|