سینٹ آف پاکستان جسے یک جہتی کی علامتی قرار دیا جاتا ہے
اُس کے چیئرمین جناب رضا ربانی صاحب نے دستور پاکستان کی منظوری کے قومی
اسمبلی کے دن 10 اپریل اور اُس پر صدارتی دستخط ہونے کے دن 12 اپریل کے
حوالے سے خاص تقریبات کا اہتمام کیاہے۔اِس ضمن میں راقم کی کچھ معروضات ہیں
چونکہ راقم قانون کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے اور وکالت کے پیشے سے منسلک
ہے۔جن حدود قیود کا ذکر آئین پاکستان میں ملتا ہے اُس کی عملی تصویر کہیں
دیکھائی نہیں دیتی۔ وہی وڈیرہ شاہی وہی لوٹ کھسوٹ وہ جس کی لاٹھی اُس کی
بھینس کی عملداری تو یہ اِن کہاں سویا پڑا ہے۔ بے روز گاری عروج پر، قومی
زبان ہے لیکن ستر سال گزرنے کے باوجود اِس کو حکومت نے لاگو نہیں کیا۔
اسلام نظام کو آئین کی بنیاد قرار دیا ہے لیکن اسلام کو تو کیا انسانیت
کہیں نظر نہیں آتی۔ اور تو اور غریبوں کے لیے قانون الگ اور مراعت یافتہ
طبقے کے لیے الگ قانون۔ سرکاری افسران کرپشن میں اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں
لیکن عام غریب دو وقت کی روٹی کھانے سے بھی عاجز ہے۔آئین پاکستان کو
پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہتے
ہیں۔مارشل لاء کے اٹھنے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کاموں میں
سے ایک ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا․1971ء میں مشرقی پاکستان کی
علیحدگی کے بعد 1972ء کو 1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر اسمبلی بنائی گئی۔
ایک کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کے کراس سیکشن سے قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کا
مقصد ملک میں ایک آئین بنانا تھا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوں۔ کمیٹی
کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ آیا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام
ہونا چاہیے یا صدارتی نظام۔ اس کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر
مختلف خیالات تھے۔ آٹھ ماہ آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرنے میں صرف
کیے، بالآخر 10 اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش
کی۔وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا
گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔اہم خصوصیات
میں یہ کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہو گا وزیراعظم حکومت کا
سربراہ ہوگا اور اسے اکثریتی جماعت منتخب کرے گی۔اسلام پاکستان کا سرکاری
مذہب ہے اور صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔پاکستان کا نام
اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔آئین میں ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی
اور ایوان بالا میں بھاری اکثریت ہونا ضروری ہے۔اردو پاکستان کی قومی زبان
ہے۔عوام کومواقع دیئے جائیں گے کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے مطابق بسر
کریں۔عدلیہ آزاد ہوگی۔ عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔قرآن مجید کی
اغلاط سے پاک طباعت کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں گے۔عصمت فروشی، جؤا،
سود اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے گی۔عربی زبان کو فروغ دیا جائے
گا طلباء وطالبات کے آٹھویں جماعت تک عربی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔آئین
کی روسے مسلمان سے مراد وہ شخص ہے جو اﷲ کو ایک مانے، آسمانی کتابوں پر
ایمان لائے، فرشتوں، یوم آخرت اور انبیائے کرام پر ایمان رکھے اور حضوراکرم
صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو اﷲ کا آخری نبی تسلیم کرے۔ جو شخص ختم نبوت صلی
اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا منکر ہوگا وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے
گا۔ہرچند کہ 1956ء کا دستور اور 1973ء کا آئین دونوں ایک اسلامی ریاست کے
لئے بنائے گئے ہیں مگر عملاً دونوں میں سے اسلامی روح کو نکال کر باہر
پھینک دیا گیا ہے۔ پاکستان ایک ایسی جمہوریت بنے گا جس میں اسلامی اصولوں
کی بنیاد پر معاشرتی انصاف ہو گا۔ بات اسلامی نظام کی کرتے ہیں اور نظام
پورے کا پورا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نقل بنا رکھا ہے۔ وفاق میں دو
ایوان پارلیمنٹ یعنی سینٹ اور مرکزی اسمبلی اور صدر اور وزیراعظم صوبوں میں
اسمبلیاں، وزیراعلیٰ اور گورنر، اس نظام کو اسلام سے کیا نسبت ہے۔ یہ تو
رسہ کشی اور نورا کشی کا ایک اکھاڑہ ہے۔اس پر مزید ستم ظریفی یہ کہ پاکستان
میں لوگوں سے ووٹ ڈنڈے کے زور پر لئے جاتے ہیں۔ سرتابی کرنے والوں کو یا تو
دلائی کیمپ کی صعوبتیں اٹھانی پڑتی ہیں، یا نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں،
یا شور کوٹ میں تبادلہ ہو جاتا ہے۔3 آئین کی دفعہ 2-31ب کے تحت ’’اتحاد کی
ترقی اور اسلام کے اخلاقی معیار کی بلندی کے لئے کام کیا جائے گا۔‘‘
پاکستان میں اخلاقی معیار کا یہ عالم ہے کہ ان پڑھ لوگ رشوت دے کر جعلی
ڈگریاں بنواتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سامنے جھوٹے بولتے ہیں۔ جو کہ یوں بھی
ان کا اپنا بندہ ہوتا ہے اور پھر ساری قوم کے سامنے جھوٹ بول کر الیکشن میں
حصہ لیتے ہیں اور کامیاب ہو کر اسلامی ریاست کے مقدس ایوانوں میں جا بیٹھتے
ہیں اور اگر کبھی ان کے جھوٹ کا پول کھل جائے تو ان کی پارٹی انہیں پھر
الیکشن میں کھڑا کر کے کامیابی کراتی ہے اور اپنی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹتی
ہے۔ ہمارے سیاستدان اس طرح اسلام کے اخلاقی معیار کو بلند کرتے ہیں۔ پارٹی
بازی کی نوسربازی کا یہ تو ایک ادنیٰ سا مظاہرہ ہے۔آئین کی دفعہ 33میں لکھا
گیا ہے کہ ’’ریاست ہر قسم کے لسانی، نسلی، قبائلی، گروہی اور صوبائی تعصبات
کو ختم کرنے کے لئے ان کی حوصلہ شکنی کرے گا اور آرٹیکل 251میں پاکستان کی
قومی زبان ’’اردو‘‘ قرار دی گئی تھی۔ اسے سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے
استعمال کرنے کے لئے آئین کے نفاذ سے پندرہ سال کے اندر انتظامات کئے جائیں
گے۔ پہلی شق کے مطابق اردو کو انگریزی زبان کی جگہ لینے کے لئے انتظام کرتے
تک انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔1973ء کے آئین کی
دفعہ 33 میں ریاست میں سے ہر قسم کے لسانی قبائلی، گروہی اور صوبائی تعصبات
کو ختم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے مگر جب اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی تھی تو
سندھیوں اور پٹھانوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں اور خوشی کا اظہار کیا تھا کہ
انہیں اپنی قومی شناخت ملی ہے۔ کیا ان کے لئے اسلامی شناخت کافی نہ تھی؟
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ تعصبات آئین میں تبدیلی کئے بغیر کیسے دور
کر سکیں گے۔1973ء کے آئین نے وفاقی اور صوبائی انتظامہ کا جو ڈھانچہ کھڑا
کیا ہے وہ اس قدر مہنگائی ہے کہ اس کا بوجھ پاکستانی عوام کی برداشت سے
باہر ہے۔ اس نظام کے تحت ملک میں وفاقی پارلیمنٹ میں سینٹ اور وفاقی
پارلیمنٹ اور چار صوبائی اسمبلیوں کا قیام، وفاق اور صوبوں کے درمیان رسہ
کشی کا ایک دنگل ہی تو ہے جن کے ممبر زیادہ پی آئی اے کے ملازمین کی طرح
گھروں میں بیٹھے ہوئے تنخواہیں لیتے ہیں اور اگر کسی بل پر ووٹنگ کی ضرورت
کے تحت اسمبلی میں جاتے بھی ہیں تو محض ڈیسک بجانے اور آوازے کسنے کے لئے
اور اس سے زیادہ یہ جاہل اور ان پڑھ لوگ کر ہی کیا سکتے ہیں۔ ۔ اگر اس ملک
میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہوتا اور عوام کے ہاتھ مجرموں کے گریبانوں تک
پہنچ سکتے تو بہت سے تر اتر چکے ہوتے اور ملک کے مقدس ایوانو ں میں بیٹھے
ہوئے بہت سارے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہوتے اور جب تک اس ملک میں ان
غداروں کا راج رہے گا یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ انہوں نے عدالتوں کو بھی این آر
او اور بھٹو ریفرنس جیسے مقدمات میں الجھا کر غیرفعال کر دیا ہے۔ یہ ہیں
آئین و قانون کے محافظ جنہوں نے اس اسلامی ریاست اور مادر وطن کے تقدس کی
حفاظت کی قسم کھا رکھی ہے۔ ملک کی وفاقی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا
صرف ایک ہی جرم کافی ہے کہ اسے توڑ کر ازسرنو ایک اسلامی طرز کی مجلس کا
آغاز کیا جائے جس کا آئین میں بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔اس ناقص آئین کی وجہ
سے بعض عہدوں پر دو دو اور تین وزیر لگائے جاتے ہیں۔ جس سے مالی ذرائع کے
اجاڑ کے علاوہ سسٹم میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً صوبائی حکومت ایک اپنا
وزیر قانون مقرر کرتی ہے جبکہ گورنر صاحب بہادر اپنا ایک ایڈووکیٹ جنرل
مقرر کرتا ہے اور جب عدالتوں میں ان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ پیش نہیں ہوتا۔
کبھی چھٹی پر چلا جاتا ہے اور کبھی تبدیلی کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملک کا
سارا نظام تہہ در تہہ بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔1973ء کے آئین میں اس
طرح کے سینکڑوں نقاص اور تضادات ہیں مگر سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ برائے
نام اسلامی آئین ہے۔ مثلاً عملاً یہ اسلام کے منافی ہے اور اسلامی روح کش
ہے۔ اس آئین میں اتحاد پر بڑا زور دیا گیا ہے جو اﷲ تعالیٰ کا حکم بھی ہے۔
اتحاد کا مطلب ہے وحدت یا اکائی۔ جب ساری قوم ایک مٹھی میں بند ہو جب سارا
ملک ایک یونٹ ہو۔ جب ایک اسمبلی ہو، جب ایک سربراہ ملک ہو جب ایک چیف
ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم ہو۔ کچھ اس طرح کا نظام معمار پاکستان نے بھی قائم
کیا تھا۔ قائداعظم نے ملک کے دونوں حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کو
ون یونٹ کا درجہ دیا تھا۔ چاہئے تو یہ کہ پاکستان میں پورے کا پورا اسلامی
نظام نافذ کیا جائے کیونکہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے اور لاالٰہ الااﷲ کے نعرہ
پر حاصل کیا گیا ہے مگر کفار اور مشرکین اس سے الرجک ہیں اور خود ملک کے
اندر جو سوشلسٹ، سیکولرسٹ اور روشن خیال ہیں وہ بھی الرجک ہیں لہٰذا سردست
قائداعظم والا نظام ہی دوبارہ رائج کر دیا جائے۔کیا پاکستانی عوام کو ایسی
قیادت میسر نہیں آسکی جو کہ اِس کا قبلہ درست کرسکے ہمارے معاشرے میں ریجنل
ڈسپیرٹی نے جس طرح قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کر رکھا ہے اس بات کا ادراک
لیڈر شپ کو بھی ہے عدلیہ اور فوج کے ادارے بھی اِس حقیقت سے آشنائی رکھتے
ہیں،اُس کے باوجود کہیں سے بھی خیر کی خبر نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ
بھی قومی یک جہتی کے حوالے سے ماضی قریب میں کیا گیا وہ ٹیبل ٹاک اور میڈیا
کی حد تک رہا اُس سے آگے اگر بڑھا ہوتا تو بلو چستان آج لہو لہو نہ ہوتا آج
کراچی کے در ودیوار معصوم لہو کی تحریروں سے کانپ نہ رہے ہوتے۔ خیبر پختون
خواہ صوبہ دہشت گردی کے چنگل سے رہا ہو چکا ہوتا۔قانون کے طالب علم ہونے کے
ناطے راقم کی رائے میں پاکستان کے تمام خطوں کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر
معاشی سلوک نہ ک رکے ایسا بیج بویا گیا ہے کہ اِس کا شاخسانہ ہم ماضی میں
سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ انسانی آزادیوں کے حوالے سے ہمارے
ملک کا ٹریک ریکارڈ کسی صورت بھی تسلی بخش نہیں ہے حتیٰ کہ پرویز مشرف کے
دور میں گمشدہ افراد عدالت عظمیٰ کی سر توڑ کوشش کے باوجود آج تک برآمد
نہیں کیے جاسکے۔پاکسانی ایجنسیوں کا کردار کا ذکر تو بہت ہوتا ہے اور اُن
کے خلاف باقاعدہ کئی مرتبہ محاذ بھی کھڑا کیا گیا لیکن ہنوز دلیٰ دور است۔
ہمارے ایک طرف عیار دشمن بھارت جو تقسیم ہندکو پاپ کہتا ہے دوسری طرف
امریکی سرکردگی میں پوری دنیا کی افواج افغانستان میں خون کی ہولی کھیلنے
کے بعد اب کسی اور شکا رکی طرف دیکھ رہی ہیں۔ کشمیر کا معاملہ ہنوز حل طلب
ہے۔ ان حالت میں تو پاکستانی معاشرے کو اندرونی معاذ پر انتہائی مضبوط ہونا
چاہیے۔لیکن حالات ہیں کہ ناقابلِ بیان ہیں۔ 1) بے روزگاری عروج پر ہے 2
(انرجی کے بحران نے معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا ہے(3 عوام گرمی کی چیرہ
دستیوں اور حبس کے موسم میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی سے محروم ہیں۔ 4
(تعلیم کا میدان ہو یا صحت عامہ کی سہولتیں ہر طرف ہی لٹیا ڈوبی ہوئی ہے۔
ایسے میں نئی حکومت سے کسی چھو منتر کی توقع رکھنا عبث ہے یقینا یہ بات
قابل اطمینان ہے کہ پاک فوج کا مورال بلند ہے اور وہ ہرو قت دفاع وطن کے
لیے تیار ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے حالتِ جنگ میں ہے۔ اِس کے باوجود کہ
حالات کسی جانب بھی تسلی بخش نہیں ہیں لیکن معاشرے کو ہر صورت میانہ روی کی
ضرورت ہے۔ حکومت کرنے والوں کی یقینا اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن پاکستان
کے چاروں صوبوں، بشمول گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کو ہر حال میں ترقی کے
یکساں مواقع ملنے چاہیں۔ اس مقصد کے لیے آئینِ پاکستان مشعلِ راہ ہے تاکہ
کسی ایک بھی فرد کو کسی بھی طرح سے اُس کے حق سے محروم نہ رکھا جائے۔ سکول
کالج، ہسپتال، کارخانے، پارک، سڑکیں ڈیم پُل، ذرائع نقل وحمل، روزگار کے
مواقع وغیرہ پاکستان کے ہر خطے میں رہنے والے ہر فرد کا حق ہیں۔ بلوچستان
کا دور افتادہ گاؤں، سندھ کا گوٹھ، خیبر پختون خواہ کا قبائلی علاقہ، کشمیر
دھرتی کے سنگلاخ چٹانوں میں رہنے والوں، گلگت بلتستان کی وادیوں سب کے رہنے
والوں کا پاکستان کی ایک ایک انچ پر برابر کا حق ہے پاکستان کے تمام وسائل
سب کے لیے ہیں۔ میڈیا کی آزادی نے کافی حد تک آگاہی دی ہے اور اب کسی بھی
علاقے کے افراد کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا مشکل ہے۔ معاشرتی رہن
سہن اور رواجات میں معاشی حالات کا بہت گہرا تعلق ہے اور معاشی حالات درست
سمت تک اُس وقت تک نہیں کیے جاسکتے جب تک ملکی عوام امن وسکون کی زندگی بسر
نہ کر رہے ہوں۔ انسانی بنیادی ضروریات عوام کے مفادات کی ذمہ داری جن
محکموں پر قانونی طور پر لاگوہے اُن کی طرف سے چشم پوشی اور کوتاہی موجودہ
دور میں بہت بڑا المیہ ہے۔ جب قانون پر عملدرآمد نہ ہورہا ہو تو پھر
معاشرئے کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے حکمران حاکمیت کے مزے لوٹنے کی
بجائے عوامی خدمت کو پیشِ نظر رکھیں کیونکہ اگر اب بھی موجودہ حکمرانوں نے
سابقہ حکمرانوں کی طرح عوام کو نوچنا بند نہ کیا تو پھر معاشرتی زوال اُن
کا مقدر ہوگا تب اُن کی حکمرانی قائم نہ رہ سکے گی کیونکہ حکمرانی کرنے کے
لیے سابقہ حکمرانوں نے پورے ملک کو میں افراتفری کی جو آگ لگا رکھی تھی جس
میں اب تو عوام جل رہے ہیں اُس کے بعد اِس آگ میں جلنا ِاُن سابقہ حکمرانوں
کا مقدر ٹھر گیا ہے۔ کس قدر المیہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص آئین کی پاسداری
کی بات کرتا ہے تو اُسے سازشی گردانا جاتا ہے۔ قران جیسا کوڈ آف لائف رکھنے
کے باوجود اور نبی کریمﷺ کے پیروکار کہلوانے کے باوجود ہمارے معاشرے میں جو
درگت عام آدمی کی بنی ہوئی ہے اس سے تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ خدانخواستہ
یہ انسانی معاشرہ ہی نہیں ہے بلکہ حیوانات کی حیوانیت کی بھی کوئی حد ہوتی
ہے ہمار ا معاشرے تو بیچارہ جنگل کے قانون سے بھی محروم ہے یہاں تو انصاف
بکتا ہے اور اشرافیہ اِس کی خریدار ہے۔ طاقت کے نشے میں دھت اشرافیہ ملک کے
غریب طبقے کو کچلنے پر تُلی ہوئی ہے۔ عام انسان کی نہ تو عزت محفوظ ہے اور
نہ زندگی۔ معاشرتی طور پر دیکھا جائے جس طرح کا نظام ہمارے ہاں پنپ چکا ہے
ایسے نظام سے یہ توقع لگائے رکھنا کہ یہ نظام عام آ دمی کی حالت بدلے گا،
دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ ہمارے معاشرے میں بغاوت سی کی صورت حال
پیدا ہوتی جارہی ہے۔بیروزگاری کا جن کسی طور بھی قابو میں نہیں آرہا۔ سچی
بات تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کسی طور بھی اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں
لیڈر ثابت نہیں کر پارہے لیڈر وہ نہیں ہوتا جو کہ صرف اپنے پیٹ پر ہی ہاتھ
پھیرے۔ لیڈر عوام کے لیے باپ جیسا ہوتا ہے اور باپ کا کام صرف محبتیں
بانٹنا اور احساس کرنا ہوتا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں کاش محمد علی جناحؒ کی
شخصیت جیسا رہنماء ہمیں کوئی میسر آجائے۔تو یقیناً پاکستانی عوام ان
جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے چُنگل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ عوامی شعور
تو بیدار ہے لیکن رونا تو اس نظام کا ہے یہ نظام درحقیت مسائل کی جڑ ہے۔
مصطفے کریمﷺ نے جو نظام وضع فرمایا ہے وہ معاشرے سے بے چینی دور کرنے کا نہ
صرف داعی ہے بلکہ معاشرے میں امن وسکون کی ضمانت ہے۔ امریکی پٹھو ہر صورت
میں امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ ایسی
صورت حال اختیار کرچکا ہے کہ جھوٹ کرپشن کا دور دوراں ہے۔امن عامہ کی صورتِ
حال کا مخدوش ہونا اس بات کی دلالت کرتاہے کہ معیشت کی بربادی کی ذمہ داری
امن و عامہ کی گھمبیر صورت حال پر ہے۔ طاقت کا توازن اس سوسائٹی میں ہمیشہ
عوام مخالف رہا ہے۔ عوام کی شنوائی کہیں بھی نہیں ہے آئین پاکستان کے
آرٹیکل2 6 اور 63 کے معیار پر کونسا عوامی نمائیندہ پورا اُترتا ہے۔ کونسلر
بننے کے لیے تھانے کچہری کی سیاست کرنا پڑتی ہے ایم این اے اور ایم پی اے
بننے کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے۔آزادی کے حقیقی ثمرات عوا م
الناس تک نہ پہنچنے کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی جدائی ہوئی۔ |