ٹیکس ڈے!

 شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پنجاب حکومت نے مزید جدت سے کام لیتے ہوئے SMSسروس کے اپنے عوام کو ٹیکس ڈے کی آگاہی مہم چلائی۔ دس اپریل کو ٹیکس ڈے بتایا گیا اور اسی تاریخ کو اخبارات میں اشتہاربھی دیا گیا، جس کی عبارت کچھ یوں تھی، ’’ ٹیکس امانت․․ ترقی وخوشحالی کی ضمانت ․․․ آپ بطور ٹیکس دہندہ امین ہیں، علم، روشنی، ترقی اور خوشحالی کے۔ اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی پر فخر کریں، اور ٹیکس ڈے پر اپنے بہتر کل کے لئے ٹیکس ادا کرنے کا عزم کریں․․․․ پنجاب ریونیواتھارٹی، حکومت پنجاب، قوم کی اس امانت کو دیانت، شفافیت اور جدت کے ذریعے خوشحالی کے وسائل میں بدلنے کے لئے کوشاں‘‘۔ یقینا اول الذکر مواصلاتی اشتہار تو ہر اس فرد تک بارہا پہنچا ہوگا جو موبائل کی سہولت سے مستفید ہورہے ہیں۔ یہ بات بھی یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ حکومت کے توجہ دلانے پر ہر ذی شعور پاکستانی کے دل میں ترقی، خوشحالی، بہتر مستقبل وغیرہ جیسی باتوں نے بھر پور اثر بھی کیا ہوگا، کس کی خواہش نہیں کہ وہ خوشحال بھی ہوجائے، ترقی بھی کرے اور یہ بھی کہ اس کا مستقبل بھی محفوظ اور بہتر ہوجائے۔ مگر یہاں اس حقیقت سے بھی نگاہیں نہیں چرائی جاسکتیں کہ تمام تر احساسات کے باوجود نہ تو اپنی قوم ٹیکس دینے پر آمادہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی حکومتوں کے پاس ایسے ذرائع ہیں کہ وہ ٹیکس وصولنے کا بندوبست کرسکیں۔

اس بات میں بھلا کیا شک ہو سکتا ہے کہ حکومتیں ٹیکسوں پر ہی چلتی ہیں، اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے منصوبے بھی اسی صورت میں بن سکتے ہیں اور ان پر عمل ہوسکتا ہے، جب حکومت کے پاس آمدنی کے ذرائع موجود ہوں۔ اپنے ہاں ٹیکس دہندگان اور ٹیکس لینے والوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ دو طرح کے خاص مسائل ہیں جن کی وجہ سے ٹیکس کو ایک متنازع معاملہ بنا دیا گیا ہے۔ اول یہ کہ یہاں ٹیکس لینے کے لئے کوئی فارمولا نہیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا رواج ہے۔ انکم ٹیکس کے اہلکار نکلتے ہیں، جس دکان یا جس ادارے میں ان کا دل چاہے داخل ہو جاتے ہیں اور ٹیکس کے بارے میں ایک نوٹس تھما دیتے ہیں، چونکہ ٹیکس کے گوشوارے اور اس ضمن میں حساب کتاب بہت الجھا ہوا اور مشکل ہوتا ہے، ٹیکس ادا کرنے کے لئے جیب سے پیسے بھی نکالنے پڑتے ہیں، اس لئے ٹیکس دہندہ پر یہ نوٹس کسی ڈرون حملے سے کم نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں دو صورتیں سامنے آتی ہیں، پہلی یہ کہ مذکورہ اہلکار کی جیب گرم کی جائے، دوسرا یہ کہ کسی نہ کسی طریقے سے گوشوارے میں اثاثے اور آمدنی چھپانے کا بندوبست کیا جائے۔ سو کوئی ایک صورت ضرور نکل آتی ہے۔ خود حکومتوں کے اعلانات کے مطابق لاکھوں لوگ ٹیکس نہیں دیتے، تاہم حکومتیں ان ٹیکس دہندگان کی تفصیل یا تعداد نہیں بتاتی جو ٹیکس دینے کی پوزیشن میں نہیں، مگر گوشوارہ انہیں بھی بھرنا پڑتا ہے، کیونکہ وہ لوگ انکم ٹیکس کے اہلکاروں کے چنگل میں پھنس چکے ہوتے ہیں۔ بہت سے کاروبار ایسے ہوتے ہیں، جن کی آمدنی سے بمشکل گزارہ چلتا ہے، مگر محکمے کے آہنی شکنجے سے وہ بچ کر نہیں جاسکتے۔

اگر حکومت کا خیال ہے کہ وہ موبائل پر میسج دے کر اور اخباری اشتہار کے ذریعے کسی کو ٹیکس دینے پر آمادہ یا قائل کرلے گی، تو خام خیالی ہے، ویسے یہ بات یقینی ہے کہ حکومت کو بھی اس حقیقت کا علم ہے، کہ ٹیکس کس طرح کشید کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت کو ایسے افراد ملتے ہی نہیں جو ٹیکس دینے کے قابل ہیں مگر دیتے نہیں، تو یہ بھی حیرت کی بات ہے۔ سڑکوں پر چلتی پھرتی گاڑیاں، کالونیوں میں خوبصورت محلات، بازاروں میں چمکتی ہوئی دکانیں، بڑے بڑے ادارے ، بے شمار ملازمین۔ یہ تمام چیزیں سامنے ہیں، ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جناب یہ اخراجات کہاں سے ہوتے ہیں، آمدنی کتنی ہے، کیا اس کا ٹیکس دیا؟ مگر افسوس کہ پوچھنے والے کی نیت صاف نہیں ہوتی۔ایک اور اہم ترین بات یہ ہے کہ عوام سے ایک ایک چیز کی مد میں ٹیکس نچوڑا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ عوام ٹیکس سے اس لئے بھی چلتے ہیں کہ ٹیکس نچوڑ تو لیا جاتا ہے، مگر اس کا استعمال ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی پر کم اور حکمرانوں اور بیوروکریسی وغیرہ کی مراعات اور عیاشیوں پر زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ جو افراد ٹیکس دینے کے قابل ہیں، انہیں ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جائے اور حکومت اپنی مراعات وغیرہ میں واضح کمی کرے تو ملک خوشحال ہوسکتا ہے، ورنہ خوشحالی مقتدر طبقوں تک ہی محدود رہے گی۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472509 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.