متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) سے علیحدگی اختیار کرنے
اور اپنی نئی سیاسی تنظیم پاک سر زمین کا اعلان کرنے والے مصطفی کمال کو اب
تک شائید وہ پذیرائی نہیں ملی سکی جس کی وہ امید کررہے تھے 03 مارچ کو
کراچی میں دھواں دھاڑ پریس کانفرنس کرنے کے بعد کئی مزید پریس کانفرنس میں
کم و بیش یکساں باتیں ہی کی گئیں جن کا محور ایم کیو ایم کے قائد کی ذات تک
رہا 03 مارچ کی پریس کانفرنس میں ان کی جانب سے لگائے گئے ایم کیو ایم کے
قائد پر الزامات کے بعد کئی لوگ انگشت بدہاں تھے تو کئی لوگوں کے چہروں پر
افسوس تھا نوجوان جو ایم کیو ایم سے عقیدت رکھتے ہیں وہ بھی حیران و پریشان
تھے تو دوسری طرف وہ نوجوان جو مصطفی کمال کو اپنا ہیرو کہتے تھے وہ بھی
افسردہ تھے کہ آخر یہ اچانک ہوا کیا کہ کل جو مصطفی کمال ٹیلیویژن ٹاک شوز
میں اپنے قائد الطاف حسین کے خلاف بات کرنے والوں کو نہایت سخت اور نازیبا
دھمکی آمیز جملے بول دیا کرتے تھے آج وہ خود اس قائد کے خلاف اسی طرح کے
جملے استمال کررہے ہیں جو کبھی انہیں خود کسی صورت برداشت نہیں تھے لیکن اس
کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے اس طرح کی پریس کانفرنسیں ماضی میں بھی تواتر سے
سنی تھیں ان کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہیں محترم قارئین کرام آپ کو جنرل
ضیاالحق صاحب کا مارشل لاء ضرور یاد ہوگا جب ایک جمہوری حکومت کے اقتدار کا
تختہ پلٹ دیا گیا اور ایک منتخب وزیراعظم کو قید کردیا گیا اس وقت بھی
پاکستان ٹیلیویژن پر مسلسل ایک پروگرام ظلم کی داستان دکھایا جاتا تھا جس
میں لوگوں کے انٹرویو نشر کیئے جاتے تھے ہر روز ایک نیا کردار آتا تھا اور
اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ظلموں کی داستان بتاتے ہوئے براہ راست اس کا
الزام وزیراعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو پر لگایا جاتا تھا لیکن کبھی بھی
کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا تھا کہ ان پر ہونے والے ظلم کے پیچھے وزیراعظم
پاکستان ملوث تھے اور اتنے کردار اور اتنی داستانیں پیش کی گئیں کہ لگتا
تھا کہ وزیراعظم پاکستان ان ظلم اور جبر کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے تھے
بلا آخر ان داستانوں نے خود ایک نئی داستان رقم کردی جب وطن عزیز کی عوام
کے منتخب کردہ وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔
پھر اسی طرح کی پریس کانفرنسوں کا سلسلہ 1992 میں دیکھا گیا جب اس وقت کی
مہاجر قومی موومنٹ پر ایک فوجی آپریشن کیا گیا جس کی سب سے بڑی وجہ اس
تنظیم کے کوٹری حیدرآباد کے دفتر سے جناح پور کے نقشے برآمد کرنے کے دعوے
بتائے گئے اور کئی پریس کانفرنسوں میں یہ بتایا گیا کہ یہ تنظیم ملک دشمن
سرگرمیوں میں ملوث ہے لیکن ثبوت کوئی فراہم نہیں کیئے گئے جس کی بناء پر اس
تنظیم پر پابندی لگائی جاسکتی کئی کردار اس وقت بھی قومی ٹیلیویژن پر
نمودار ہوئے جنہوں نے ایم کیو ایم اور اس کے سربراہ کو براہ راست ملک دشمن
سر گرمیوں میں ملوث ہونے کا عندیہ دیا اور فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کی
خاطر کئی لوگوں کو قتل کرنے کا برملا اعتراف کیا جن میں ایک نام حکیم محمد
سعید صاحب کا بھی تھا جن کے قتل کے اعتراف کرنے والوں میں ایم کیو ایم کے
فصیح احمد جگنو کے ساتھ حافظ اسامہ قادری بھی تھے جو بعد میں مصطفی کمال کی
نظامت کے دور میں لیاقت آباد کے ناظم منتخب ہوئے تھے اور جن افسران کی زیر
نگرانی دوران آپریشن وہ نقشے برآمد کیئے گئے تھے انھوں نے پھر قومی
ٹیلیویژن پر آکر خود ان کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام چیزیں ہماری
خودساختہ تھیں ۔ایم کیو ایم کے ساتھ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب بھی اس
سے علیحدگی اختیار کرنے والے کسی نئی پارٹی کا اعلان کرتے ہیں ان کی پہلی
تعداد دو ہی ہوتی ہے جیسا کہ ماضی میں منحرف ہونے والی آفاق احمد اور عامر
خان نے ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور اس مرتبہ
مصطفی کمال اور انیس احمد قائم خانی نے ایسا کیا لیکن جو چیز اللہ کا شکر
ادا کرنے والی ہے وہ یہ کہ اس مرتبہ ماضی کی طرح آپس میں کوئی تصادم کی
صورت حال سامنے نہیں آئی جس میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں تھیں۔
قارئین کرام یہاں ماضی کی ان باتوں کا ذکر کرنا اس لیئے ضروری محسوس ہوا کہ
یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ
لوگ مصطفی کمال اور ان کی پارٹی میں شامل ہونے والوں کو مشکوک نظروں سے
دیکھ رہے ہیں کیوں کہ ان کی خود کی پریس کانفرنس اور اب تک کی تمام تقاریر
اور ان کی پارٹی میں شامل ہونے والے رہنماؤں کی پریس کانفرنسوں کا متن کم و
بیش یکساں ہے مصطفی کمال کی پہلی پریس کانفرنس میں ہی انھوں نے اپنے الطاف
بھائی کو الطاف صاحب کہہ کر مخاطب کیا جس سے اندازہ ہوا کہ واقعی جو یہ بات
کہہ رہے ہیں کہ اردو بولنے والے ایک مہذب قوم تھی ایک پڑھی لکھی قوم تھی
اسے جاہل بنا دیا اس میں کافی حد تک وزن ہے اور اتنے شدید اختلافات ہونے کے
باوجود تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جو کہ ان کی بات کا ایک عملی ثبوت
تھا ۔
پہلی پریس کانفرنس میں مجھ سمیت کئی قارئین کو بھی ان کی کئی باتوں نے بہت
کچھ سوچنے پر مجبور کردیا کہ جس طرح انھوں نے فرمایا کہ قائد ایم کیو ایم
بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی را کے آلہ کار ہیں اور ان کے منحرف ہونے
کی بنیادی وجوہات یہی ہیں تو یہاں ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر
واقعی ایسا ہے تو مصطفی کمال صاحب نے خود ایک سینیٹر کا حلف اٹھایا ہوا تھا
انہیں اس قسم کی باتوں کا علم تھا تو انہیں اسی وقت اس تنظیم سے علیحدگی
اختیار کرکے حکومت وقت کو آگاہ کرنا تھا جہاں وہ ایم کیوایم سے منحرف ہوئے
وہیں اپنے اٹھائے ہوئے حلف کی بھی پاسداری نہ کرکے شائید وہ خود بھی سہولت
کار کے زمرے میں آگئے ، دوسری اہم بات یہ کہ مصطفی کمال صاحب نے اپنی ہر
پریس کانفرنس میں کراچی میں ایم کیو ایم کو بلوچستان کے طرز پر دی گئی عام
معافی کا مطالبہ کیا جو کہ انتہائی خطرناک مطالبہ ہے یہ ملک اب مزید کسی
بھی قسم کے نئے این آر او کا متحمل نہیں ہوسکتا جس شخص نے بھی جرم کیا ہے
اسے سزا ملنی چاہیے یہ روایت بہت غلط ہوگی کہ کوئی بھی جرم کرو اور پھر کسی
این آر او کی گنگا بہنے کا انتظار کرو تاکہ بغیر کسی عدالت کے بغیر کسی سزا
کے پاک و صاف ہوجاؤ اسی مطالبے میں ایک اور مسعلہ پنہا ہے جس کے مزید منفی
اثرات مرتب ہونگے وہ یہ کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک کسی شخص پر جرم
ثابت نہیں ہوجاتا وہ ملزم ہوتا ہے مجرم نہیں حالیہ جاری آپریشن جو کہ
الحمداللہ نہایت کامیابی سے جاری ہے اس میں رینجرز ایک خصوصی اختیار کے تحت
مشتبہ افراد کو نوے دن کے لیئے حراست میں لے کر تحقیقات کرسکتی ہے اور
متعلقہ شخص کو نوے دن کے بعد رہا کردیا جاتا ہے یا پھر عدالت میں ثبوتوں یا
اعترافی بیان کے ساتھ پیش کردیا جاتا ہے ،لیکن اگر مصطفی کمال کا عام معافی
کا مطالبہ مان لیا گیا تو کراچی کے وہ نوجوان جن پر جرم ثابت نہیں ہوئے وہ
بھی اس عام معافی کے پیکیج میں آجائیں گے جن پر مجرم نا ہوتے ہوئے بھی ایک
لیبل لگ جائے گا کہ یہ دہشت گردی میں ملوث تھے۔
مصطفی کمال اور ان کے دیگر پارٹی رفقاء جو اب تک بہت بہتر انداز میں گفتگو
کررہے تھے کہ ان کے دورہ میرپورخاص کے بعد ان کی قوت برداشت بھی جواب دیتی
نظر آئی جو ہر تقریر میں اپنی قوم کو پڑھی لکھی با تہذیب قوم گردان رہے تھے
خود تہذیب کا دامن چھوڑتے نظر آئے بات الطاف بھائی سے الطاف حسین سے بھی
بہت آگے نکل کر انسان اور شیطان پر جاپہنچی شائید اس کی وجہ ان کے اندازے
کے برخلاف انہیں حیدرآباد سے میرپورخاص کے سفر کے دوران راستے میں ملنے
والا وہ شدید عوامی رد عمل تھا جس کی وجہ سے ان کا لب و لہجہ تبدیل ہوا
لیکن قارئین اگر غور کریں تو ایسے عوامی رد عمل کئی بہت نامور رہنماؤ کو
بھی دیکھنے کو ملے جن میں امریکی صدر کو جوتا مارنے کا واقعہ اور یکے بعد
دیگرے ایسے ہی واقعات پاکستانی سابق صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے
ساتھ بھی پیش آئے جبکہ سندہ کے سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم کے ساتھ تو
سندھ اسمبلی میں ایسا واقع پیش آیا لیکن اسے خندہ پیشانی سے برداشت کیا گیا
ہر سیاسی رہنما کو اچھے اور برے عوامی رد عمل کے لیئے تیار رہنا ہی چاہیے ۔
کراچی کی عوام نے 07 اپریل کو ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمنی
انتخابات میں ایک مرتبہ پھر سے ایم کیو ایم کے نامز امیدواروں کو ووٹ دے کر
متحدہ اور اس کے قائد پر اعتماد کا اظہار کردیا اس مرتبہ عوام کے ووٹ دینے
کی شرح نہایت کم رہی اور یہ ووٹ کی کمی کا معاملہ صرف ایم کیو ایم کو ہی
نہیں بلکہ تمام سایسی جماعتوں کے امیدواروں کے ساتھ درپیش رہا جس کی وجوہات
کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے ایک تو لوگ عام انتخابات کی بنسبت ضمنی
انتخابات میں کم دلچسپی لیتے ہیں اور دوسرا گرم موسم بھی لوگوں کو گھروں
میں رہنے پر مجبور کرتا رہا ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں
کی تعداد وہ نہیں جس کی امید کی جارہی تھی باوجود تحریک انصاف کے امیدوار
امجداللہ کا ملک کمال کے حق میں دستبرداری کے اعلان کے جن کا ضمیر رات کی
تاریکی میں اچانک جاگ اٹھا تھا ان کے ضمیر کا بیدار ہونا بھی ایم کیو ایم
کے ووٹوں کے تعداد نہیں بڑھا سکا دوسری خاص بات یہ تھی کہ ان حلقوں سے
جماعت اسلامی نے بھی اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیئے تھے جس سے واضح نظر آتا
ہے کہ ایم کیو ایم کو ملنے والے ووٹوں میں کوئی نئے ووٹ شامل نہیں تھے لیکن
کچھ سایسی ناقدین کی پیشن گوئیاں یکسر غلط ہوگئیں کہ ایم کیو ایم شائید ہی
اب جیت پائے گی ۔یہاں ایم کیو ایم کو بھی اب احساس ہونا چاہیے کہ اگر اسے
اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے یا اس میں اضافہ کرنا ہے تو کراچی کے لوگوں
کے مسائل حل کرنے ہونگے اب کچھ دنوں کی صفائی مہم چلا کر پھر خاموشی سے
بیٹھ جانے سے معاملات درست نہیں ہونگے ، حالیہ ضمنی انتخابات میں رینجرز کا
کردار نہایت منصفانہ رہا کسی امیدوار کی جانب سے نہ کوئی شکایت کی گئی اور
نہ ہی جعلی ووٹ بگھتانے کا کوئی واقع سامنے آیا۔
اب رہی بات الزامات در الزامات کی تو قائد ایم کیوایم پر جتنے بھی الزامات
لگائے گئے اگر وہ واقعی درست ہیں تو اس کے ثبوت بھی پیش کردیئے جائیں جب کے
اطلاع یہ ہیں کہ جب ایف آئی اے کے سربراہ ان الزامات کے ثبوت مانگنے کمال
ہاوس گئے تو خالی ہاتھ واپس آگئے لیکن مصطفی کمال صاحب کی یہ بات بھی کسی
حد تک درست ہے کہ ہم نے جو دیکھا اور سنا بتا دیا اب ثبوت اکھٹا کرنا
تحقیقاتی اداروں کا کام ہے تو چلیئے پھر اب اس سلسلے کو ختم کردیجیئے اور
حکومت، عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں پر چھوڑ دیجیئے کیوں کے جو آپ اپنی ہر
تقریر اور کانفرنسوں میں بتا رہے ہیں یہ قوم اصغر خان کیس میں یہ باتیں
بارہا سن چکی ہے اور واقعی اپنی اس بات کو ثابت کریئے کہ آپ دلوں کوتوڑنے
نہیں آئے ہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے آئے ہیں آپ کسی سے کسی کی طاقت چھیننے
نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے آئے ہیں ۔اس میں کسی قسم کی
دو رائے نہیں کہ ہر شخص کو سیاست کرنے کا حق ہے نئی پارٹی بنانے کا حق ہے
اختلاف رائے رکھنے کا حق ہے سوچیں تعمیری ہونی چاہیے موجودہ حالات میں
دونوں جانب سے تحمل مزاجی کی شدید ضرورت ہے شائستہ انداز بیان اپنانے کی
ضرورت ہے قائد ایم کیو ایم پر لگائے گئے الزامات کس حد تک درست ہیں اس کا
فیصلہ جلسے جلوسوں میں کرنے کے بجائے عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ |