دو ہفتے سے زائد کا وقت وہ ضائع کر چکے تھے۔ رات کے
اندھیرے میں بیٹھے سب ایک ہی سوچ میں گم تھے کہ وہ لوگ اپنا بادشاہ کس کو
بنائیں؟ بلا آخر ایک بزرگ نے اپنی عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک مشورے سے
نوازا۔ اور کہا! ’’دیکھومیرے بیٹو! بنا کسی بادشاہ کے کوئی بستی زیادہ دیر
تک قائم نہیں رہ سکتی۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی ایک نقطہ پر راضی ہوجائیں
مگر سب بے سود۔ لیکن اب مجھے اس مسئلے کا واحد حل یہ ہی نظر آتا ہے کہ تم
سب اپنی بستی کی حدود میں پھیل جاؤ۔ صبح صادق کے وقت جو بھی اس بستی میں سب
سے پہلے داخل ہوگا وہی ہمارا بادشاہ ہوگا,کہو منظور ہے میرا مشورہ؟
سب نے اک دوسرے کی طرف متفکر نظروں سے دیکھااور اسے واحد حل سمجھتے ہوئے
قبول کرلیا۔ فیصلہ کرنے کی دیر تھی کہ سب نوجوان ہاتھوں میں پھولوں کے ہار
لئے آنکھوں میں خوشی و انتظار ملے جذبات لیے کھڑے تھے۔ طویل انتظار کے بعد
دور اک آدمی چلتا نظر آرہا تھا۔ جوں جوں فاصلہ کم ہورہا تھا اس کا حال واضح
ہوتا جارہا تھا۔ ایک ہاتھ میں رسی تھامے جس کا دوسرا سرا اس کے ساتھ چلتے
ہوئے بندر کے گلے میں بندھا تھا۔ اور دوسرے ہاتھ میں ڈگڈگی پکڑے وہ انسان
بے نیازی سے چلتا آرہا تھا۔ وہ اک بندر نچانے والا تھا۔ یہ حقیقت جان کر
چند ایک نوجوانوں نے لمحے بھر کو سوچامگر پھر اس خیال کو گناہ تصور کرتے
ہوئے ہاتھوں میں پکڑے ہار اس بندر والے کے گلے میں سجادیئے۔ اس سے کچھ
پوچھا گیا اور نہ بتایا گیا بس چند نوجوانوں نے اسے کندھوں پر اٹھا لیا۔
اور اپنی بستی کے بادشاہ کے لیے مخصوص عالی شان رہائش گاہ پر پہنچادیا۔
اندھے کو کیا چاہیے ’’دو آنکھیں‘‘۔
اور اتنی دیر میں وہ ڈگڈگی والی بستی کے لوگوں کی فہم و فراست کی گہرائیوں
سے بخوبی واقف ہوچکا تھا۔
دربار سجتے ہی درباریوں نے ہاتھ جوڑ کر سوال کیا
’’حضور کوئی حکم صادر فرمائیں‘‘۔
بادشاہ نے سب سے پہلے پیٹ پوجا کا سوچ کر حلوہ بنانے کا حکم دے ڈالا۔ اور
درباریوں نے بھی بنا چوں چراں کیے دیسی گھی اور خشک میوہ جات سے بنا حلوہ
سونے کی طشتری میں سجا کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا۔ بادشاہ نے خوب مزے
لے کر حلوہ کھایا اور جب نظر سونے کی طشتری پر پڑی تو وہ اٹھا کر اپنے
تھیلے میں ڈالتے ہوئے بلند آواز سے کہا
’’بادشاہ کو تمہارا تحفہ پسند آیا‘‘
اور دربار مرحبا کے نعروں سے گونج اٹھا۔ دوپہر ہونے کو ہوئی تو درباریوں نے
ہاتھ جوڑے پھر وہی سوال دہرایاتو بادشاہ نے پھر حکم سنا ڈالا مگر اس مرتبہ
درباریوں کو اپنا شریک بنایا حکم ملا
’’حلوہ بناؤ اب میں درباریوں کے ساتھ کھاؤں گا‘‘۔
درباری تو اس حکم سے پھولے نہ سمائے تھے۔ خیر پھر یہ سلسلہ درباریوں سے
بڑھتا ہوا عام عوام تک بھی جا پہنچا۔ صبح و شام ایک ہی حکم ملتا حلوہ بناؤ
مجھے بھی کھلاؤ تم سب بھی کھاؤ۔ چند ہفتے ہی گزر پائے تھے کہ اک دشمن بستی
نے اس بستی پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ بات سپہ سالار تک پہنچی تو
سپہ سالار مشاورت کرنے کے لیے بادشاہ سے ملنے کا منتظر پایا گیا۔ بادشاہ کو
حلوہ کھانے سے فرصت ملی تو سپہ سالار کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ کافی سوچ
بچار کے بعد بادشاہ نے اک تاریخی فیصلہ سنایا
اور کہا’’
کہ حلوہ بناؤ سپاہیوں کو پیٹ بھر کھلاؤ اور ہاتھیوں کو بھی‘‘۔
حکم کی تعمیل کی گئی۔ چند دنوں میں حملہ ہوگیااور جب بادشاہت چھننے کا خوف
شدید ہواتو بادشاہ نے بھی اپنے بندر کو کندھوں پر بٹھایاڈگڈگی اٹھائی اور
محل سے باہر کو چل دیا۔ عوام پہلے ہی پریشان حال تھی اور پھر بادشاہ کے
چھوڑ جانے کا غم کسی پہاڑ ٹوٹنے سے کم نہ تھا ۔ بے نیازی سے چلتے بادشاہ کو
اک نوجوان نے روکا اور ہمت کر کے پوچھ ڈالا،
حضور! آپ کدھر جارہے ہیں ؟
بادشاہ بڑی عاجزی سے بولا۔۔۔
’’بھئی ہم تو درویش لوگ ہیں ہمارا کیا کام یہاں یہ تو تم لوگوں کی ذر ہ
نوازی تھی کہ مجھے اپنا بادشاہ بنا کر شرف بخشا مگر حقیقت ہے کہ اب میرے
کمزور کندھے اس بستی کی باگ دوڑ نہیں سنبھال سکتے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ تو اپنے راستے ہولیا مگر عوام اس کی بے نیازی اور عاجزی سے اس
قدر متاثر ہوئی کہ بستی چھن جانے کے غم کو چھوڑ کر بادشاہ کے چلے جانے کے
دکھ میں دھاڑیں مار مار کر روتی رہی۔ نجانے کیوں مگر کبھی کبھی یہ کہانی
مجھے کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ پاکستان کی کہانی لگتی ہے۔ ہر پانچ سال بعد
ڈگڈگی والا بدلتا ہے فرق یہ ہے کہ ناچنے والا بندر نہیں ہماری عوام ہیں۔
یہاں ہر ڈگڈگی والاحلوہ تو پسند کرتا مگر عوام کے خون پسینے کی کمائی مرغوب
غذا ہے۔ اب ڈگڈگی والے سونے کی طشتری ڈائریکٹ تھیلے میں نہیں ڈالتے بلکہ
انہوں نے یہ تحفے وصول کرنے کے اور بہت سے اصول ایجاد کر رکھے ہیں۔ خدا کی
پناہ !
کہ ہمارے حکمران ہر طرح سے منافع خور ، کمیشن خور ، منی لانڈرنگ اور بیرون
ملک جائیدادیں بنانے والے اور ہم عوام اس قدر عقل و دانش کہ حامل ہیں کہ جب
بھی کوئی وکی لیکس یا یانامہ لیکس کچھ بتاتی ہے ہم سارے ان ڈگڈگی والوں کے
دفاع میں لگ جاتے ہیں ۔ ایک اور فرق ہے
اس کہانی میں صرف ایک ڈگڈگی والا تھااب یہ ڈگڈگی والے نچلی سطح تک پہنچ چکے
ہیں۔ مرکزی سطح پر دو ڈگڈگی والے موجود ہیں اور ان کے درباریوں نے مزید
ڈگڈگیاں اور بندر پال رکھے ہیں جو اپنی اپنی باری پر اپنے من پسند حلوے
کھانے آتے ہیں اور بڑی عاجزی سے باقی کے پانچ سال بے نیازی و انکساری کی
رام کتھا سنا کر عوام کا پیٹ بھرتے ہیں ۔ پانامہ لیکس کے انکشافات کا حال
بھی وہی ہوگاجو وکی لیکس سمیت مختلف ایجنسیز اور پھر ثبوت و شواہد سے
بھرپور مضبوط الزامات کا ہوتا رہا ہے۔ جانتے تو ہم سب کچھ ہیں پھر اس پر
ستم یہ کہ اب بین الاقوامی تصدیق بھی۔۔۔۔۔۔
مگر ہمیں فرق نہیں پڑتا ۔ ہمیں قلم اور کتاب تھامنے والے ہاتھ پسند نہیں ۔
ہمیں یہ ڈگڈگی والے ہی چاہیے۔ میڈیا کے ذریعے کچھ رونق میلہ تو میسر ہوتا
ہے۔ |