عمران خان جس نے حکومت اور قومی مفادات کے خلاف ’’خدائی
فوجدار‘‘کاکردار سنبھال رکھا ہے اور اپنے قوم سے خطاب میں مطالبہ کیا کہ
نواز شریف حکومت کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں استعفی دیں اور گھر کی راہ لیں
،پانامالیکس کسی پاکستانی نے نہیں لیک کی اﷲ کے کرم سے ملک کارخ بدلنے
کاموقع مل گیا اب ملکی تاریخ میں فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے 24اپریل تک چیف
جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن نہ بنا تو پارٹی کے یوم تاسیس پر آئندہ
کا لائحہ عمل کا اعلان کروں گا ،عمران خان نے اس سے قبل اپنے حد درجہ قریبی
دوست جو سابق سندھ پولیس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور متنازعہ طور پر بے
نظیر بھٹو کے حقیقی بھائی مرتضی بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ملوث ہو کر جیل
کی صعوبتیں بھی برداشت کر چکے ہیں کا نام لیکر ان کو تحقیقات کے لئے افسر
مقرر کرنے کی فرمائش کردی تھی ،چوہدری نثار علی خان کے پیشکش کو قبول کرتے
ہوئے کیا ،کہاں پہلے خان صاحب کو عدالت عظمی کے ایک سابق فاضل جج صاحب کے
تحقیقات پر مامور کئے جانے پر تحفظات تھے جن کانام بھی تاحال تجویز نہیں
ہوا اور اب وہ ایک سابق پولیس آفیسر کانام ’’نام نہاد انذاز ‘‘ سے قبول
کرنے کا اعلان کیا اور بعد ازاں قوم سے اپنے خطاب میں چیف جسٹس صاحب کی
سربراہی میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا ،عمران خان نے اپنے خطاب میں
کوئی نئی بات نہیں کیں وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو وہ گزشتہ تین سالوں سے
کرتے آ رہے ہیں ،اس سے تو کہیں بہتر ہوتا کہ چوہدری نثار علی خان اپنے ہمدم
دیرنیہ عمران خان کو ہی تحقیقاتی کمیشن کا افسر مقرر کر دیں تاکہ وہ اپنے
اگلے پچھلے ارمان پورے کر لیں ،عمران خان کے نفسیاتی مسائل میں روز بروز
اجافہ ہوتا جارہا ہے کبھی وہ اپنی پارٹی میں انتخابات کاعلان کرتے ہیں اور
انتخابی عمل پورا ہوتے ہی اپنا مقرر کردہ چیف الیکشن کمشنر کوبرطرف کر دیتے
ہیں اور پھر پوری پارٹی کی تنظیم ہی کوتوڑ دیتے ہیں دوبارہ چیف ایلکشن
کمشنر مقرر کرتے ہیں اس سے بھی استعفیی لے لیتے ہیں ،وزیراعظم سے استعفی
لینے کے لئے ’’دھرنا‘‘ دیتے ہیں پارلیمان اور اس کے ارکان کوگالیاں دیتے
ہیں اور پھر ہاتھ جوڑ کر اسی پارلیمان میں جا کر کرسیاں سنبھال لیتے ہیں
،اب انہیں وزیراعظم کی نقالی کرتے ہوئے قوم سے خطاب کرنے کاشوق ستاتا رہا
حالانکہ کم و بیش روزانہ نیوز کانفرنس سے کطاب کر رہے ہوتے ہیں جو فی الاصل
قوم سے کطاب کر رہے ہوتے ہیں اس میں تو وہ فرشتوں سے مخاطب نہیں ہوتے ،قومی
اسمبلی میں عددی اعتبار سے ان کی پارٹی پانچویں نمبر ہے لیکن مطالبات قائد
حزب اکتلاف کے تقاضوں سے بھی بڑھکر ہیں ،اور بسا اوقات ان کی خوہشات
وزیراعظم کے مساوی ہو جاتی ہیں ان کے قریبی معتمد اور ترجمان مسٹر نعیم
الحق نے اپنیدیر زدہ بات میں اعتراف کیا تھا کہ تحریک انساف اور عمران خان
کی مقبولیت کراچی میں 2013ء سے پچھے ااگئی ہے ،اس میں تجاہل عارفانہ سے کام
لیا ہے خان صاھب کا یہ معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں
انہوں خاص فوبیا میں مبتلا شخص سمجھا جانے لگا ہے جن کے نزدیک زندگی کا صرف
ایک مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طرح وزیراعظم بن جائیں خواہ اس کوشش میں کتنا ہی
نقصان کیوں نہ ہوجائے عمران خان کو اب ثابت کرنا ہو گا کہ وہ متوزان شخص
ہیں جنکی سوچ اور ذہن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوھئی ،غور طلب بات ہے کہ اگر
پاناما لیکس دستاویزات کے اجراء کے بعد عمران خان کاردعمل وہ نہ ہوتا جس کا
مظاہرہ انہون نے ہیجان زدہ ہو کر کیا تو اسے سنبھالنا حکومت کے لئے زیادہ
دشوار ہوجاتا یہ خان صاحب کی دانش مندی ہے کہ انہوں نے تحریک انساف بمقابلہ
پاکستان مسلم لیگ ن یاعمران خان بمقابلہ نواز شریف بنا دیا ہے ،اس مقابلے
میں انہیں قبل ازیں بھی شکست ہوچکی ہے جس کا عادہ ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ
حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں رجعت اختیار کر لی ہے وہ سمجھتی ہیں اگر اس میں
خان کو کوئی کامیابی ملنی ہے تو ان کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ جائے گی اور
صرف جماعت اسلامی کے امیر اپنی ’’سیاسی‘‘ مجبوری کے باعث ان کے ہمدم
کاکردار ادا کر رہے ہیں ،عمران خان کی اپنی جماعت میں اختلافات کھل کر
سامنے آ چکے ہیں شاہ محمود قریشی اب کھل کر جہانگیر ترین اور چوہدری سرور
پر الزمات در الزامات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور انٹرا پارٹی الیکشن بھی
قریب آ چکے ہیں ،عمران خان کو اپنی پارٹی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، راقم
نے اپنے گزشتہ کالم میں انسپکٹر رانا عظمت حیات کا تذکرہ کیا تھا راقم سے
بات کرتے ہوئے کہا کہ جن کا مقصد عوام کو پریشانی دیکھ کر پریشان ہونا اور
انصاف کو غریب کی دہلیز تک پہنچانا ہوتا ہے آپ کے بارے میں مشہور ہے تھانہ
کی حدود میں آپ کسی سے ناانصافی ، ظلم ، زیادتی نہیں ہونے دیتے اور اگر
کوئی کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتا ہے تو پھر اس کو آپ کی قلم سے معافی
نہیں ملتی اس کا قانون کی نظر میں جتنا گناہ ہو اس کی سزا اس کو یقیناً مل
کر رہتی ہے آپ نے کبھی اس بات پر توجہ نہیں کہ دیگر ایس ایچ اوز کی طرح
مغلیہ دور کی یاد تازہ کی جائے اور تھانے میں ،وف و ہراس پھیلایا جائے تاکہ
کوئی ملنے کی جرأت نہ کر سکے بلکہ آپ تھانہ میں اخلاق اور بھائی چارے کو
فروغ دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ کسی سہارے کے بغیر آئیں اپنا مسئلہ
بتائیں حقائق کی روشنی میں فوری ایکشن لیا جائے گا اور اکثر خود چل کر
مظلوم کے پاس چلے جاتے ہیں آپ کی یہی خوبیاں آپ کو پولیس میں ممتاز رکھتی
ہیں اور جہاں بھی تعیناتی ہوتی ہے لوگ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں راقم سے بات
کرتے ہوئے کہا کہ انسان کو کوئی بھی عہدہ مل جائے اسے انسانیت کا دامن نہیں
چھوڑنا چاہئے کیونکہ بطور انسان ہمیں اپنا ضمیر زندہ رکھ کر اپنے فرائض
سرانجام دینے چاہئیں انہوں نے کہا کہ میں جس تھانے میں بھی تعینات ہوتا ہوں
سب سے پہلے عوام کے اندر اپنی جگہ بناتا ہوں کیونکہ عوام اگر پولیس پر
اعتماد کرے تو عوام بے دھڑک اپنے اردگرد ہونے والے جرائم اور رہنے والے دو
نمبر لوگوں کی نشاندہی کرے گی جس پر آپ فوری کارروائی کر کے جرائم کو قابو
میں رکھ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ میرٹ کو فروغ دیا اور میرٹ
پر بنیاد پر مقدمات کو یکسو کرتا ہوں علاقہ میں چور ، اچکوں ، ڈکیتوں ،
منشیات فروشوں ، جواء پرچی مافیا کو نیکل ڈالنے کے لئے گرینڈ آپریشن شروع
کر رکھا ہے اور ٹاپ ٹین اشتہاریوں کی گرفتاریوں کو یقینی بنا کر میں اور
میرے ماتحت پولیس ملازمین اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوئی کسر نہیں چھوڑ
رہے ہیں راناعظمت حیات کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد فیصل راناکی
ہدایت کی روشنی میں جلد علاقہ کو جرائم سے پاک کر کے دم لوں گا،پنجاب پولیس
کا گزشتہ دس روز سے جاری رحیم یار خان اور ڈی جی خان کے کچے کے علاقے میں
خاصی مزاحمت کا سامنا ہے چھوٹو گینگ کے پاس جدید ترین اسلحہ پیش قدمی سے
روکے کھڑا ہے ترجمان کے مطابق جلد کامیابی حاصل ہو جائے گی،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |