پانامہ لیکس کے ازدواجی زندگیوں پر اثرات

جب سے پانامہ لیکس کے معاملات چلے ہیں ہمارے معمولی معاملات بھی تناؤ کا شکار ہوگئے ہیں ،گھر والیوں اب ہم پر شک کرنے لگی ہیں کہ ہم نے بھی اپنی آمدن ان سے چھپائی ہوئی ہے ، بارہا کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں میری اتنی آمدن ہی نہیں کہ چھپاؤں ، لیکن ان کو یقین نہیں آتا ہے ، اسکاٹ لینڈ پولیس کی طرح میرے تمام سرکاری و غیر سرکاری کاغذات قبضے میں لے لئے گئے ہیں ایک بیگم نے شلوار قمیض کے ملبوسات تو دوسری نے پینٹ ، جینز و شرٹ اپنے قبضے میں لئے لئے ہیں ، ایک نے کمپوٹر قبضہ میں لیا ہوا ہے تو دوسری نے لیپ ٹاپ ، میری فیس بک کی آئی ڈی میرے موبائل کے نمبر سے سیکورٹی کوڈ ڈال کر چینج کرلیا گیا ہے ۔ میری 14سالہ پرانی ای میلز چیک کی جا رہی ہیں ، میرے فون کی مس کالز چیک کی جار ہی ہیں ،نہ جانے کیا کیاہورہا ہے ، میں ان بھلی مانسوں سے کہتا ہوں کہ اعتبار بھی کوئی چیز ہوتی ہے میں تم لوگوں کا ناخدا ہوں ، میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں ، تو کہتی ہیں کہ ہم جانتے ہیں ، کتنے اعتبار کے قابل ہیں ، مجھ سے پوچھا کہ بیگمات جن پر آپ حکومت کا حق جتا تے رہتے ہیں ، کتنی ہیں ، میں کہتا ہوں ، دو تو ہیں پا ک سر زمین کا نظام تو نہیں بنایا دو قوموں کو ملایا ہے کوئی گناہ کیا ہے کیا، اور جو تم دونوں ایک میان میں نہیں رہ سکتی تھی آج خود دو دھاری بن کر کھڑی ہوگئی ہو ، کیا مجھے سیاست دان سمجھ لیا ہے، سر ہلا کر کہنے لگی کہ دو شادیاں کیں ، ہمیں باخبر رکھا؟ ، جواب یقیناَ نہیں ملا ، پھر کہا سیاسی جماعتیں کتنی جوائن کیں ، میں نے بے چارگی سے کہا کہ دو ، تو کہا کہ آگ اور پانی کا ملاپ کرنے جارہے تھے کہ دو سیاسی جماعتیں میں جا گھسے ، میں احتجاجا َ کھڑے ہوکر کہا کہ عرصہ ہوئے سیاست چھوڑ چکا ہوں کہنے لگی گھر میں تو اب بھی عمران خان بنے ہوئے ہیں ، کوئی ایک بیان پر ثابت قدم رہے ہیں ، بولے کتنے کثیر اشاعت اخبارات سے وابستہ رہے ، میں نے کہا دو ، کہنے لگی ، کتنے بنکوں میں اکاونٹ ہیں ، کہا دو میں ، وہ بھی اس لئے کہ اک بنک کے دو اے ٹی ایم کارڈ نہیں ہوتے ، وہ بھی تم لوگوں کی وجہ سے رکھے ہیں ،ایک بنک کا اے ٹی ایم ایک پاس ، دوسرے کا اے ٹی ایم دو سرے کے پاس ، لیکن اس میں اثاثے کہاں چھپائے ، مجھے تو خود خرچہ لینے کیلئے ڈبل کوشش کرنے پڑتی ہے ، دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ دے مارا ، کہ قبول کرلیا نا کہ اثاثے چھپاتے ہو، میں کہا بھئی یہ وہ وینا ملک والے یا ایان علی والے اثاثے نہیں جو ظاہر کردوں ،کہنے لگی اچھا یہاں بھی دو ، کہنے لگی تم تو ڈبل شاہ لگتے ہیں ۔ فیس بک کی دو آئی ڈی کیوں بنائی ، ؟ میں نے کہا یوزر زیادہ ہوگئے تھے اس لئے ، کہنے لگی نہیں یہاں بھی کچھ گڑ بڑ ہے ، اب تفتیش کا دائرہ کار بڑھتا جارہا ہے اور میرا پارہ ۔ لیکن مجبوری تھی ، حقوق نسواں کا بل جو پاس ہوا تھا۔ کچھ کر نہیں سکتا تھا ۔مجھ سے کہا کہ فون نمبر کتنے ہیں ، میں نے کہا کہ دو ، ایک تم سے بات کرنے کیلئے ایک ، اور ایک ۔۔۔ بیچ میں ٹوکتے والی بولیں ، دوسر سے بات کرنے کیلئے ۔ چلو اچھایہبتاؤ ، گرلز فرینڈز کتنی ہیں ، میں کہا کہ یہ غلط بات ہے ، یہ ولی لیکس نہیں تم لوگ پانامہ لیکس کی وجہ سے میرے پیچھے پڑے ہو ، یہ میرے خلاف سازش ہے ، میرا نام پانامہ لیکس میں نہیں آیا ، انھوں نے سرکاری ٹی وی کی طرح میرے تمام اعتراضات بلیک آؤٹ کردئیے۔ کہا نہیں بتاؤ کہ کہ کتنی ہیں ، ہمیں فیس بک سے ویسے پتہ چل گیا ہے لیکن وہاں تعداد لڑکیوں اور خواتین کی بہت زیادہ ہیں ، میں نے کہا کہ میری کسی سے دوستی نہیں ، میں کسی سے نہیں ملتا خرچہ کرنا پڑتا تھا ۔انھوں نے سر ہلایا کہ یہ اس طرح نہیں مانے گا ، اس کی تمام فیس بک پر آنے والے میسجز کو چیک کرتے ہیں ، میں بلبلایا ،کہ یہ بھی زیادتی ہے ، میرے فیس بک پر تم لوگ چائنا کٹنگ نہیں کرسکتے ، کوئی کس طرح بھی بات کرسکتا ہے ، میڈیا پرسن ہوں ، کوئی نہ کوئی تو بات کرے گا ہی ، لیکن پانامہ لیکس سے متاثر کل تک جو اپوزیشن تھیں ایک ہوچکی تھیں ادھر دماغ تیزی سے چلنے لگا کہ ، وہ چندر مکھی صبح میسج نہ کرے وہ پارو شام کو فون پر میسج نہ کردے اﷲ کرے ،بیمار ہوجائے ، توبہ توبہ ، بیمار نہیں ، اس کے گھر کی لائٹ چلی جائے ، پھر سوچا کہ موبائل سے کرتی ہے ، میں نے کہا چوری ہوجائے ، پھر توبہ توبہ ، اسٹریٹ کرائم کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ کیا کروں کیا کروں ، ان کے گھر بھی نہیں معلوم کہ جا کر کہہ دوں کہ میں جنید جمشید سے متاثر ہوگیا ہوں ، ڈاکٹر عامر لیاقت سے ملنے جا رہا ، لیکن وہ تو مولا جمیل احمد سے ملا تھا ، ارے دفع کرو ، کسی کوو کیا معلوم کون کس سے ملا ، اب کیا کروں ۔ پانامہ لیکس نے گھروں میں بھی الجھنیں پیدا کردیں ہیں ۔ انھیں معلوم ہی نہیں کہ بھئی میڈیا میں اتنی تنخواہ نہیں ملتی ، وہ بھی وقت پر ، اب وہ خدا پرست ، بزنس آئیکون کو دیکھ لو ، چینلز پر آنے کیلئے کروڑوں روپے امداد دے دیگا لیکن اس کے اخبار کے ملازمین کو پانچ مہینے سے تنخواہ نہیں مل رہی ، ۔دراصل بات اعتبار کی ہے کہ اگر حکومت کا سربراہ ہو یا گھر کا ، اس پر اعتبار اٹھ جائے تو اس کی ہر حرکت مشتبہ لگتی ہے۔ہمارے رویئے میں تضاد ہے ، ہم نے پاکستان بنایا ، تو دو قومی نظریئے پر ، لیکن عمل پیرا نہیں ہوئے ۔ ایک مسلم پاور ملک ہونا برداشت نہیں ہوا ، تو دو ممالک بن گئے ، ایک ملک لبرل بنانے پر تلا ہوا ہوا تو دوسرا سرکاری مذہب آئین سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہے ، ہر سیاست دان کے دو چہرے ہیں ،۔ ملک اسلامی بھی ہے تو جمہوری بھی ہے ۔صبح ایک بیان دیتے ہیں تو شام کو تردید کردیتے ہیں ۔ میڈیا تک ایک نہیں گرپوں میں بٹا ہوا ہے ۔ تعلیم کا نظام دوہرا ہے ۔ایک میں کلرک بنائے جا رہے ہیں تو ایک میں سی ایس ایس آفسر ۔ ملک میں عوام سے محبت کا معیار بھی دوہرا ہے ، الیکشن میں باڈی اسپرے لگا کر ملتے ہیں تو جتنے کے بعد ڈرائئنگ روم میں اسپرے اس طرح کراتے ہیں کہ جیسے ان کے ووٹر نہیں ، ڈینگی وائرس آگئے ہوں۔ بھارت دشمن بھی ہے لیکن پاکستانی قوم کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ بھارت کی دشمن ہیں ، کترنیہ کیف اور کرینا کپور کے تصویر پرس میں لگائے پھرتے ہیں ادھر اداکارہ میرا شادی کیلئے دولہے کی تلاش میں بوڑھی ہوگئی ہے ، بوڑھی ہیروئین سرجری کراکر کر واپس آگئیں کہ فلم میں کام کرنے کا معاوضہ لیکر شرافت سے کام کروں گی کیونکہ شریف ہوں ، پہلے ارکان اسمبلی الیکشن کے بعد فروخت ہوتے تھے اب امیدواران الیکشن سے پہلے ہی ڈبکی مار جاتے ہیں ، پہلے سیاست خدمت کا نام ہوا کرتی تھی اب وکٹیں اڑانے کا اکام کرنے لگی ہے ، ہر جماعت کسی نہ کسی جماعت کے رکن کی وکٹ اڑانے میں لگی ہوئی ہے این جی اوز کو جو مرضی کرنے کی اجازت ہے لیکن مدارس کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے کوئی سنجید کوشش نہیں ، دنیا کی سب سے مفت اور لاکھوں بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے والے مدارس دہشت گردی کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں تو مما ڈیڈٰی ولاے لاکھوں روپیہ فیس لیکر مخلوط تعلیم سے مرد و عورت کو کندھے سے کندھے ملا کر چلنے کا عادی بنا رہے ہیں۔ سیاست دان پاکستان میں ٹیکس نہیں دیتے ، ایک ماچس خریدنے والے عوام سے دو روپیہ کی ماچس سے ایک روپیہ ٹیکس ، فون کارڈ سے 37فیصد ٹیکس پہلے کاٹ لیتے ہیں لیکن اربوں روپوں والوں سے سرمایہ داروں ٹیکس نہیں لیتے۔سرمایہ دار اپنی جان بچانے کیلئے بھتہ تو دے سکتا ہے لیکن اپنی آخرت بچانے کیلئے زکوۃ نہیں دے سکتا ۔بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو لانے کے دعوے کرتے ہیں لیکن اپنے اداروں کی نجکاری کرتے ہیں۔سب گول مال گڑبڑ گٹھلہ ہے۔ٹیکس چوروں کیلئے کالا دھن وائٹ کرنے کیلئے ایمنسٹی اسکیم لاتے ہیں تو دوسری جانب منی لانڈرنگ پر پابندی لگاتے ہیں۔لیکن 280ارب روپیہ سوئس بنکوں سے واپس نہیں لاتے ۔ بیروں ملک صنعتیں لگاتے ہیں ، لیکن پاکستان میں بیٹھ کر سیاست کرتے ہیں ، نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں گھنٹوں ان کی بکواس سننا پڑتی ہے۔ پانامہ لیکس نے کیا کہا کیا نہیں کہا ، یہ تو سب تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا سرمایہ ان کے خاندان کا سرمایہ باہر ملک ہے ، پھر یہ پاکستان کیوں نہیں لاتے۔ کتنے دوہرے معیار ہیں کہ جتنا بھی لکھو کم لگتا ہے ، لیکن یہ جو میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اس کا حساب کون دے گا ، میں سیشن کورٹ کا فیصلہ آئے تو ہائی کورٹ اسٹے دے دیگا ، ہائی کورٹ جاؤں فیصلہ دے تو سپریم کورٹ اسٹے دے دیگا ،پھر سپریم اپیلٹ کورٹ جاؤں تو عوام سب کچھ بھول چکے ہونگے اور نورجہان کے گانے سن کر سر ہلا رہے ہوں گے کہ ’ ایہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے ‘۔ لیکن پانامہ لیکس سے جو گھریلو مسائل پیدا ہو رہے ہیں ، پیمپرا سے درخواست ہے پی ٹی وی کی طرح تمام پانامہ لیکس کے معاملات پر نیوز چینلز کا بلیک آؤٹ کرادے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 664044 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.