عوام کا یہ ایک سپنا تھا کہ کبھی کسی طرح
ملک میں انقلاب آئے گا اور ان کے حالات بدل جائیں گے لیکن ’’دھرنا سیاست‘‘
نے عوام سے یہ خواب بھی چھین لیا۔اسی طرح کا کچھ حال پریس فاؤنڈیشن آزاد
کشمیر کے ایوارڈز میں بھی کیا گیا،جس سے نمایاں صحافتی کارکردگی ،خدمات کا
اعتراف بھی ایک مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ۔کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں آزاد
کشمیر حکومت اور پریس فاؤنڈیشن آزاد کشمیر کی ایوارڈ رتقریب میں تقریبا تین
گھنٹے تقریریں جاری رہیں اور اس کے بعد پندرہ منٹ میں جلدی جلدی ایوارڈ اور
شیلڈز تقسیم کی گئیں۔اس تقریب میں پیپلز پارٹی حکومت کی گزشتہ پانچ سال سے
چلی آ رہی بد انتظامی اور نا اہلی کا کھلا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ،کہ کس
طرح پیپلز پارٹی حکومت ’’ جائز ‘‘ کو بھی’’ ناجائز‘‘ میں بدل دیتی ہے۔ چند
مقررین کی طرف سے تقریب کو ’’ با وقار‘‘ قرار دینے پر اصرار کیا جاتا رہا
لیکن اس تقریب کا باوقار قرار پانا ’’ معیار کی انحطاط پذیر‘‘ حالت کی ایک
اور مثال ہے۔مقررین کی طویل فہرست میں شامل دو مقررین نے نہ جانے صحافیوں
یا اس تقریب کی کون سی ’’ ادا‘‘ دیکھی کہ انہیں ’’ ہجڑوں‘‘ کے لطیفے یاد آ
گئے۔اس مماثلت کا اظہار غور طلب ہے۔تقریب میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی
جماعتوں کے صدور کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن تقریب کے ’’ خد و خال‘‘
دیکھتے ہوئے کسی جماعت کے صدر نے بھی اس میں شرکت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
ایک صحافی نے شیلڈ کے لئے اپنا نام پکارے جانے پر با آواز بلند کہا کہ ’’
میں ایسے ایوارڈ پر لعنت بھیجتا ہوں‘‘، اس پر ہال تالیوں کے شور سے گونج
اٹھا۔
پریس فاؤنڈیشن کے وائس چیئر مین اور دیگر عہدیداران نے ایوارڈ پانے والوں
کا انتخاب کیا اور ایک کمیٹی کے ذریعے اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کراتے
ہوئے اسے جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ پریس فاؤنڈیشن کے عہدیداران کا
کسی بھی حوالے سے کوئی حق ،اختیار نہیں بنتا کہ وہ صحافت کے مختلف شعبوں
میں اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے صحافیوں کا انتخاب کرتے۔پریس
فاؤنڈیشن آزاد کشمیر صحافیوں کی مالی معاونت کے لئے حکومت آزاد کشمیر کی
سرپرستی میں قائم کردہ ایک ادارہ ہے،پریس فاؤنڈیشن کا کسی طور بھی یہ
اختیار نہیں ہے کہ جو کسی کے صحافی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر سکے، صحافت
کے قواعد و ضوابط بنائے یا آزاد کشمیر کی صحافت کی نمائندگی کی دعویدار
بنے۔پاکستان کے صرف ایک اخبار کے مالک کو ایوارڈ تقریب میں بلایا
گیا،پاکستان کے دوسرے اخبارات کے مالکان کا کیا قصور تھا کہ انہیں تقریب
میں شریک نہیں کیا گیا؟پاکستانی اخبار کے مالک نے تقریر میں کہا کہ اس
تقریب میں شریک کئی صحافی میر ے اخبار سے منسلک ہیں اور اسی حوالے سے انہوں
نے اپنے اخبار سے وابستہ ان صحافیوں کو ہدایت کی کہ آزاد کشمیر میں الیکشن
کے موقع پر سرگرمی سے کام کیا جائے۔واہ،کیا ’’ باوقار‘‘ تقریب تھی۔اس تقریب
میں نہ تو آزاد کشمیر کی صحافت کے حوالے سے کوئی بات ہوئی اور نہ ہی تمام
ریاست کشمیر کی صحافت پر کسی نے ایک بھی جملہ ادا کیا۔صحافیوں کو جس انداز
میں ایوارڈ وغیرہ دیئے گئے اسے شایان شان یا با وقار طریقہ نہیں کہا جا
سکتا بلکہ توہین آمیز ضرور کہا جا سکتا ہے۔
اسی حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ چند صحافی دوستوں کی طرف سے یہ انداز
دیکھنے میں آیا کہ انہوں نے خود کو ایوارڈ کے لئے موزوں ترین قرار دیا ،ایسا
غیر مناسب ہے،اخلاقی حوالے سے بھی۔یہ دوست اگر اپنے اعتراض میں کسی دوسرے
صحافی کا نام تجویز کرتے تو ان کی بات میں وزن رہتا لیکن خود کو سب سے بہتر
قرار دینا کسی طور مناسب نہیں۔ہاں صحافی دوستوں کی محفل ،تقریب میں اس
موضوع پر بات ہو تو مناسب معلوم ہو سکتی ہے۔اسی حوالے سے ’’یہ عالم شوق کا
دیکھا نہ جائے‘‘ کا افسوناک طرز عمل بھی دیکھنے کو ملا۔ایک صحافتی دوست کی
یہ تجویز درست معلوم ہوتی ہے کہ ایوارڈ حاصل کرنے والے صحافی دوست ’’ یہ
لکڑی کے ٹکڑے‘‘ واپس کر دیں۔میری ایوارڈ حاصل کرنے والے دوستوں سے درخواست
ہے کہ وہ ’’ لکڑی کے ٹکڑے‘‘ ضرور واپس کریں لیکن بیس ہزار کی رقم واپس کر
نے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے اپنے ہی پیسے ہیں۔
ہر با خبر جانتا ہے کہ عارف بہار،طارق نقاش ،راجہ حبیب اﷲ،الطاف حمید
راؤ،اسلم میر اور دیگر چند دوستوں کا صحافت میں کیا مقام ہے اور ،ہاں یہ
ضرور ہے کہ اپنے لوگوں کے لئے ،کاز کے لئے لکھنے والوں کے لئے اعلی سطح پہ
ان کی خدمات کا اعتراف ہر عنوان سے اہم ہے لیکن یہ تمام طریقہ کار
باوقاراور علمیت کے انداز میں ہونا چاہئے،افسوس اسی بات کا ہے کہ ایسا نہیں
کیا گیا اور اس اہم معاملے کو ابھی ایک تماشہ بنا دیا گیا ۔شایان شان
اورباوقار تقریب تو پھر ہوتی کہ اگر اس حوالے سے مروجہ اصولوں کی پیروی کی
جاتی، تقریریں کرنے کے شوقین حضرات کے بجائے ایوارڈ یافتہ صحافیوں کو ہی
مرکز محفل بناتے ہوئے اظہار خیال کا موقع ملتا۔یہاں ایک بات کا اعادہ ضروری
محسوس کرتا ہوں کہ ہماری صحافت میں سینئر جونیئر کا کوئی فرق نہیں کیا
جاتااور نہ ہی اس حوالے سے کوئی احترام دیکھنے میں آتا ہے۔یہ افسوسناک
رجحان ہے اور اس طرح کے رجحانات سے ہماری صحافت کے منفی طرز عمل کی صورتحال
کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔آزاد کشمیر کی صحافت کی اضلاعی تقسیم کوبھی ایک منفی
طرز عمل کے طور پر دیکھا گیا۔
مانتے تو ہو میرے قلم کی طاقت کو
اعتراف ذات کو کچھ احترام تو دو |