حق اور باطل کی پہچان۔۔(۳)
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
(۴)چوتھا اصول’’حق کا کام جھکنا نہیں بلکہ
جھکا دینا ہے‘‘۔
یعنی حق کبھی جھکتا نہیں اور مغلوب نہیں ہوتا بلکہ غالب ہی رہتا ہے اور
باطل کو ہمیشہ شکست فاش ہوتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’حق آیا اور باطل مٹ
گیا بیشک باطل تو مٹنے ہی والا ہے (القرآن)۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اس کائنات کا حقیقی شہنشاہ اور مطلق العنان حکمران ہے
اسے آنکھوں سے دیکھا تو نہیں جا سکتا مگر مظاہر فطرت میں وہی جلوہ افروز ہے
اور کائنات میں پھیلی جابجا نشانیوں میں اسے ڈھونڈا جا سکتا ہے ،کائنات کی
تمام مخلوق چاہے وہ جمادات ہوں ، حیوانات یا نباتات سب کے سب اللہ تبارک و
تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اسکے اقتدار کامل اور جلال و جبروت کے
آگے جھکے ہوئے حالت سجدہ میں ہیں چنانچہ فرمایا:۔
۱۔ کیا تونے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور
جو کوئی زمین میں ہے اور سورج چاند ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور
بہت سے آدمی اور بہت ہیں جن پر ٹھہر چکا عذاب اور جس کو اللہ ذلیل کرے اسے
کوئی عزت دینے والا نہیں(الحج پارہ:۱۷)
۲۔اور اللہ کو سجدہ کرتاہے جو کوئی ہے آسمان و زمین میں خوشی سے یازور سے
اور انکی پرچھائیاں صبح و شام(سجدہ کرتی ہیں) الرعد:پ۱۳
۳۔اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے جو کچھ کہ ہے آسمانوں میں او ر جو کچھ کہ ہے
زمین میں بادشاہ پاک ذات زبردست حکمتوں والا(الجمعہ پ:۲۸)
۵۔ اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ کہ ہے آسمان میں اورجو کچھ کہ ہے زمین میں
اور وہی ہے زبردست حکمت والا(الصّف:۲۸)
آنحضرتﷺ نے جب مکہ مکرمہ میں دین کی دعوت کا آغاز کیا تو کفار و مشرکین نے
ابتدائی طور پر یہ سمجھا کہ یہ شخص جو ہمارے آباء و اجداد کے مذہب پر تنقید
کرتا ہے اور ایک نئے دین کی دعوت دے رہا ہے تو شاید اسکے پیچھے اسکے کوئی
ذاتی مقاصد ہیں یہی وجہ ہے کہ ا نکے ایک وفد نے آپکے دادا عبد المطلب کے
پاس آکر کہا کہ اگرآپ کے بھتیجے کا اس نئے دین کی اشاعت سے مقصد دولت حاصل
کرنا ہے تو ہم انھیں منہ مانگی دولت دینے کیلئے تیار ہیں اور اگر یہ چاہتے
ہیں کہ کسی اچھے خاندا ن کی لڑکی سے انکی شادی ہو جائے تو یہ بھی ہو سکتا
ہے اور اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہم انھیں اپنا سردار مان لیں تو ہم یہ بھی
کرسکتے ہیں مگر یہ ہمارے خداؤں(بتوں) کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔
آنحضرتﷺ نے جواب دیا کہ چچا جان! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور
دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو بھی میں دین کی دعوت دینے سے باز نہیںآؤں گا
چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسلام خطہ عرب میں پھیلنا شروع ہوا جو شخص ایک
مرتبہ اسلام قبول کرلیتا تو وہ مرنا تو قبول کر لیتا مگر اس سے پھرتا نہیں
تھا ۔ اور پھر کفار سے جنگوں کا آغاز ہوا غزوۂ بدر،احد،خندق اورغزوۂ حنین
میں مشرکین کے بڑے بڑے سرداروں کو شکست فاش ہوئی۔ فتح مکّہ کے بعد تو کفار
و مشرکین کو یہ یقین ہو گیا کہ اب اسلام کو دنیا میں پھیلنے سے کوئی طاقت
نہیں روک سکتی۔ اور پھر اس وقت کی دو سپر پاورز قیصر و کسرٰی کو اسلام کے
مقابلے میں شکست ہوئی اور انھیں حقانیت اسلام کے آگیسرنگوں ہونا پڑا۔
اور آج اسلام دنیا کا سب سے بڑا دین ہے اور روز بروز اسکے پیروکاروں کی
تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور باطل قوتیں مسلسل پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔
۵۔پانچواں اصول’’کائنات میں سب حق ہی حق ہے باطل تو انسان کے اندر ہے‘‘۔
کائنات کو حق کے ساتھ پیدا کرنے سے مراد یہ ہے کہ اسکی پیدائش کا ایک خاص
مقصد ہے اور اسے یونہی بیکار پیدا نہیں کیا گیا اور وہ مقصد اللہ تبارک و
تعالیٰ کی تمام صفات کمالیہ جلالیہ و جمالیہ کا ظہور ہے۔
ایک حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کنت کنزا مخفیّاً فا حببت ان اعرف
فخلقت الخلق کہ میں ایک چھپا ہو ا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا
جاؤں تو میں نے مخلوقا ت کو پیدا کیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اسے نیک و بدی کے دونوں
راستے دکھادیے اور دونوں میں سے کسی ایک پر چلنے کا اختیار بھی عطا فرمایا
گیا، یعنی انسان میں ہدایت یا ضلالت دونوں کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ حق کے مقابلے میں باطل ہے
جو انسان کو حق کی پیروی کرنے سے روکتا ہے اور برائی پر اکساتا ہے اور یہ
انسان کے اندر بھی موجود ہے اور باہر بھی۔ انسان کے اندر یہ نفس امّارہ کی
شکل میں ہے جو اسی کے وجو د کا ایک حصہ ہے اور برائی کا بڑا حکم کرنے والا
ہے چنانچہ فرما یا’’ میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا بیشک نفس تو
برائی پر بڑا ابھارنے والا ہی تو ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم
کرے یقیناًمیرا پروردگار بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے
‘‘(یوسف:۱۵)۔
اور باہر یہ شیطان ابلیس اور اسکے ساتھیوں کے روپ میں ہے جو انسان کو گمراہ
کرنے اور سیدھی راہ(اسلام) سے بھٹکانے کی بڑی طاقت ہے ۔
مفسرین کے مطابق یہ دنیا ابلیس و آدم کا معرکہ کارزار ہے جہاں دونوں کے
درمیا ن جنگ جاری رہتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ہم نے آسمان و زمین کو
اور جو کچھ انکے درمیان ہے کھیل نہیں بنایا اگر ہم یونہی کھیل تماشے کا
ارادہ کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہوتے بلکہ ہم
سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس وہ اسکا بھیجا نکال دیتا ہے او ر وہ اسی
وقت نابود ہو جاتا ہے پس جو تم باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لئے خرابی کا باعث
ہیں‘‘(الا نبیاء:۱۸)
ان آیا ت کریمہ میں کفار و مشرکین کو خطاب ہے باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
اگر ایسے لھو لعب کے کام بالفرض ہماری شان کے لائق ہوتے اور ہم ارادہ بھی
کرتے کہ یونہی کوئی مشغلہ اور کھیل تماشہ بنا کر کھڑا کردیں تویہ چیز ہم
بذات خود اپنی قدرت سے کر گزرتے تمھاری دارو گیر اور پکڑ دھکڑ سے اسکو کچھ
سروکار نہ ہوتا ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ دنیا محض کھیل تماشہ نہیں بلکہ میدان
کا رزار ہے جہاں حق و باطل کی جنگ ہوتی ہے حق حملہ آور ہو کر باطل کا سر
کچل ڈالتا ہے اسی سے تم اپنی مشرکانہ اور سفیھانہ باتوں کا سمجھ لو کہ حق و
صداقت کا گولہ جب پوری قوت سے تم تم پر گرے گا اس وقت کیسی خرابی اور
بربادی تمہارے لیے ہوگی اور کونسی طاقت بچانے آئے گی۔(تفسیر القرآن از
علّامہ شبیر احمد عثمانیؒ )
اور فرمایا ’’حق آیا اور باطل مٹ گیا باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘ (القرآن)
لہٰذا حق و باطل کی کشمکش انسا ن کے اندر سے شروع ہوتی ہے اور پھر اسکے
اثرات خارجی طور پر ظاہر ہوتے ہیں جب انسان حق تعالیٰ کے احکامات کو نظر
انداز کر کے باطل(نفس امّارہ و شیطان) کی پیروی کرتاہے تو پھر اسکے غلط
کاموں کی وجہ سے زمین میں فساد برپا ہو جاتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’پھیل
پڑی ہے خرابی جنگل میں اور دریا میں لوگوں کے ہاتھ کی کمائی (برے اعمال) سے
چکھانا چاہئے انکو مزہ انکے کام کاتاکہ وہ پھر آئیں ‘‘ (یعنی اپنی بد
اعمالیوں کو چھوڑ کر رجوع الی اللہ کی طرف مائل ہوں۔الرّوم:۴۱)
تفسیر میں لکھا ہے کہ لوگ دین فطرت پر قائم نہ رہے اور کفر و ظلم دنیا میں
پھیل پڑا اور اسکی شامت سے ملکوں اور جزیروں میں خرابی پھیل گئی نہ خشکی
میں سکون رہا اور نہ تری میں، روئے زمیں کو فتنہ و فساد نے گھیر لیا،بحری
لڑائیوں اورجہازوں کی لوٹ مار سے سمندروں میں بھی طوفان برپا ہو گیا۔
لہٰذاجب لوگ شیطان کی پیروی کرتے ہیں تو وہ اسکے بندے بن جاتے ہیں اللہ کے
بندوں یعنی عبادالرحمٰن کے خلاف بر سر پیکار ہو جاتے ہیں اور پھر دونوں کے
درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے اسی لئے یہ دنیا ابلیس و آدم کا معرکہ کارزار
ہے۔
لہٰذا کائنات میں صرف حق ہی حق ہے اور حق و باطل کی کشمکش کا محور انسان کا
دل ہے ۔ فرمایا نبی پا ک صلی اللہ علیہ و سلّم نے ’’ آگاہ ہو جاؤ! کہ جسم
میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم ہی صحیح ہے اور اگر وہ
خراب ہے(فاسد عقیدہ و عمل کی وجہ سے) تو سارا جسم ہی فاسد ہے، جان لو! وہ
دل ہے جان لووہ دل ہے‘‘( بخاری و مسلم)۔
بہرحال اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ انسان حق تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے اور
اسکے احکامات پر پوری طرح عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں کامیابی و
کامرانی سے سرفراز ہوآمین۔(تمام شد) |
|