خیالِ رزق ہے رزّاق کاخیال نہیں

 اللہ رب العزت کی ذات ہم مخلوقات کی سمجھ سیبالاترہے،بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی ذات و صفات کا احاطہ محال ہے۔ہم رات دن اللہ کی حمدوثنابیان کریں ،اس کے باوجود ہم اللہ کی حمدوثنا کاحق ادا نہیں کرسکتے ،کیوں کہ ایک مخلوق میںیہ مجال کہاں ؟چوںکہ مخلوق فانی ہے اوراللہ کی ذات باقی،پھر ایک فانی شء ایک باقی ذات کی حمدوثناکاحق کس طرح اداکرپائے؟یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حمدبیان کرتے ہوئے سورہ فاتحہ میں ارشادفرماتا ہے:اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ترجمہ:اللہ ہی کے لیے تمام حمدہے جوتمام جہانوں کارب ہے۔
کیوںکہ ایک باقی ذات کی شایان شان حمدوثناصرف اورصرف باقی رہنے والی ذات ہی کرسکتی ہے اورہم بندوںپریہ اللہ کا عظیم الشان فضل واحسان ہیکہ اس نے ہمیں بھی حمدوثناکا سلیقہ سکھایا۔
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت کے دو اسماآئے ہیں:
۱۔ اسم جلالت :اللہ ۲۔اسم صفت:رب
یہاںہم بطور خاص اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے حوالے سے غور وفکرکرنے کی کوشش کریںگے:
رب:اس اسم صفت سیمراد ایسی ذات ہے جو اپنی مخلوق کو بے کم وکاست جب جس چیز کی ضرورت وحاجت درپیش ہو، اُسی وقت بے مانگے حسبِ مقدار پوری کرنے والی ہو۔
مثال کے طور پرہمارایہ ایمان واعتقادہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کارب ہے ،ان سب کی پرورش کااس نے وعدہ کررکھا ہے اور وہ اپناوعدہ پورا بھی کررہا ہے ۔ ہم اپنی کھلی آنکھوںسے آئے دن یہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ مخلوقات میں جو احکام الٰہی کی تابعداری کرتا ہے اللہ اُسے بھی روزی دے رہاہے اور جو احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتا ہے اُسے بھی ،حالاںکہ اللہ کے نافرمانوںکے لیے دردناک عذاب ہے ۔اس کے باوجود ہم بندوںکاحال کچھ عجب ساہے،ہم یہ کہتے ہوئے کبھی نہیں تھکتے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے ،وہی خلّاقِ عالم ہے اور وہی رزّاق حقیقی ہے مگر جب بات آتی ہے اعمال کی توہم اپنے آپ کوشرک خفی میں مبتلا پاتے ہیں۔
اس میں دورائے نہیں کہ ہم اللہ رب العزت کو قادرمطلق اورمختار کل مانتے ہیںاس کے رب ہونے کااقرارکرتے ہیں لیکن اس کے باوجود جب کبھی ہم زندگی کی کسی منزل پر مصائب وآلام سے دوچارہوتے ہیں تو اللہ کے قادرمطلق اورمختارکل ہونے کوتقریباً نسیاًمَّنسیاً کردیتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں لولگانے کے بجائے دنیاداروں کے دربارمیں حاضری لگانے لگتے ہیں اور ہمارے عمل سے ایسا معلوم ہوتاہے جیسے ہم نے سبب کو مسبب سمجھ لیا ہو،جب کہ مسبب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔نیزیہ جانتے ہوئے بھی کہ جو کچھ خیریاشر ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے۔ہم شکایت کی زبان کھول دیتے ہیں،بلکہ صبرکرنے ،اپنے حالات کو درست کرنے صحیح اورمناسب اسباب اختیارکرنے کے بجائے کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتراض بھی کربیٹھتے ہیں۔ایسے ہی اعمال وافعال سے پرہیزکرنے اور یک درگیرمحکم گیر پر زوردیتے ہوئیاللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا آمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (نسا)
ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ ورسول پر ایمان لاو۔
ایک دوسرے مقام پر ارشادفرماتاہے:
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِیْنٌ(بقرہ)
اے ایمان والو!اسلام میں پورے طورپر داخل ہوجاو،اور شیطان کی راہ پر نہ چلو،بے شک وہ تمہارا کھلاہوا دشمن ہے۔
اگر ایمان داری سے غورکریں تو یہ آیت ہم مسلمانوں پر بھی صادق آتی ہے۔وہ یوںکہ ہم عبادت میں تو ہوتے ہیں لیکن ہمارا دل دنیا کی سیر کررہا ہوتاہے،ہم ایمان تو اللہ رب العزت پر رکھتے ہیں لیکن متوجہ ،دنیاداروں کی جانب رہتے ہیں،اللہ کو رب کی طرح ماننے کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن عملی طورپر اپنے کاروبار،اپنی جاب اوراپنی کمپنی کے منیجر کورب مانتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
آج ہم رزق کے حصول میںاس قدر مشغول ہوچکے ہیں کہ دین ودنیاکاہرفرق مٹ چکاہے۔یہ تسلیم ہے کہ رزق کا حصول ہر مسلمان پر لازم وضروری ہے مگر رزق کے حصول میں رزّاق حقیقی کے حکم کے خلاف عمل کرناکہاں کا انصاف ہے؟فیکٹری اورکمپنی مالکان کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لیے واجبات وفرائض سے منھ موڑلیناکہاں کی عقلمندی ہے؟اورجانے انجانے میں عملی طورپر غیراللہ کو اپنارب مان لینا نادانی نہیں تواورکیا ہے؟کیا ہمارے یہ اعمال اس بات کی شہادت نہیں دیتے کہ ہمارے پاس زبانِ قال (زبانی جمع خرچ)توہے لیکن زبانِ حال(عمل)نہیں، ہم زبانی طورپر یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ موجودہے،تمام جہانوں کا رب ہے، خالق کائنات ہے اورحساب کے دن کامالک ہے،مگرعملی اورقلبی طورپردنیاطلبی وجاہ طلبی میں گم رہتے ہیں اورچندوقتی چیزوںکے لیے اپنامقصدحیات بھول جاتے ہیںکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہم انسانوں کومحض اپنی عبادت واطاعت کے لیے پیدافرمایاہے۔
یہ جانتے ہوئے کہ دنیاایک مردارکی طرح ہے(اَلدُّنْیَاجِیْفَۃٌ)،دنیاکی پونجی بہت تھوڑی ہے(قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ)، دنیاکی محبت تمام برائیوںکی جڑہے(حُبُّ الدُّنْیَارَاْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ)، دنیاکھیل کودکے سوا کچھ نہیں(مَاالْحَیَاۃُالدُّنْیَا إِلَّالَعِبٌ وَّلَہْوٌ)،پھر بھی ہم دنیا کے پیچھے بھاگنے سے نہیں تھکتے۔
جب کہ اللہ ہم سب کو ہمیشہ ایک سے بڑھ کر ایک نعمت سے نوازتارہتاہے اورہر لمحہ وہ ایک نئی شان کے ساتھ اپناجلوہ دکھاتا ہے (کُلَّ یَوْمٍ ہُوَفِی شَانٍ)،وہ کبھی وعدہ خلافی نہیںکرتا(إِنَّہ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ)،وہ دکھ میں بھی صبرکی تلقین فرماکراپنے سے قریب ہونے کا موقع فراہم کرتاہے(إِسْتَعِیْنُوْابِالصَّبْرِوَالصَّلٰوۃِ،إِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ )اورخوشی میںبھی شکرکی توفیق دے کر اورناشکری سے بچاکرہمیں محبوب بندوں میں شامل ہونے کی راہ دکھاتاہے(وَاشْکُرُوْلِی وَلَاتَکْفُرُوْنَ)،پھر بھی ہم اپنے خالق ، مالک اور معبود سے غافل رہتے ہیں،یہ کتنی افسوس ناک بات ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ اس غفلت کے اسباب کیاہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان محض اس لیے ہیں کہ ہماراجنم مسلم گھرانے میں ہوا ہے،ہم نماز ،روزہ،حج ،زکاۃ اس لیے اداکرتے ہیں کہ یہ اعمال ہمارے آباواجدادکرتے چلے آرہے ہیں ،گویا ہم جو کچھ عبادات کرتے ہیں وہ ایماناً،اعتقاداً،یا اخلاصاً نہیں ہوتیں،بلکہ ہم یہ سب کچھ محض رسماً کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم وہ تزکیہ نفس اورتصفیہ قلب نہیںحاصل کرپاتے ہیںجو ہمارا مطلوب ومقصودہیاور ایمان ہمارے قلب کی گہرائیوںمیں نہیں اترپاتا۔
چنانچہ ہم سب کے لیے لازم وضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچانیںکہ ہم دنیامیں کیوںآئے ہیںاورہماری ذمے داری کیا ہے؟جب ہم خود کوپہچان لیںگے توہمارے لیے رب کی معرفت اوراس کی پہچان آسان ہوجائے گی،کیوںکہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْعَرَفَ رَبَّہ۔یعنی جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
اورجو اپنے رب کوپہچان لیتاہے اس کا رشتہ ایمانی اتنامضبوط ہوجاتاہے کہ نہ تو اُسے دنیاکی کوئی خواہش ورغلاتی ہے اور نہ ہی شیطان اپنے مکروفریب میں پھانس پاتاہے،اس لیے کہ اب وہ اللہ کے بندے ہوچکے ہوتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے بندوںپر اس کا بس نہیں چل پاتا(إِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ)۔
یہ بات ہر عقلمندانسان بخوبی جانتاہے کہ اگرہمیں کسی چیز کی حاجت ہے تواُس کو حاصل کرنے کے لیے ،یاتوہمارے پاس طاقت وقوت ہونی چاہیے،یاپھر اس کے مالک کوراضی کرکے مطلوبہ چیز حاصل کرنی چاہییاور ان دونوں میں سیکچھ بھی ہمارے پاس نہیں، پھربھی ہم دنیاکے طلب گارہیں،یہ توہماری بہت بڑی ناسمجھی ہے؟کیوںکہ ہم ایک ایسی چیز کی چاہت کررہے ہیں جسے نہ توخریدنے کی طاقت ہمارے پاس ہے اورنہ حاصل کرنے کی سکت۔ اولاً تو اس لیے کہ ہمیں خود یہ نہیںمعلوم کہ اگلے لمحہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والاہے۔دوم اس لیے کہ جس چیز کے ہم طالب ہیں ،نہ تو اس کے مالک سے ہماری جان پہچان ہے اورنہ ہی مالک پر ہمارا کوئی زورچلتاہے ،بلکہ ہم خودمالک کے رحم وکرم کے محتاج ہیں۔
اب ایسی صورت میں بس ایک ہی راستہ بچتاہے کہ مالک کی مرـضی کواپنی مرضی بنالیاجائیاوراس کی خوشی میں خوش رہا جائے، تاکہ مالک کی نصرت وحمایت بھی حاصل ہواور ہمارامطلوب ومقصودبھی۔جس کے لیے اِس نسخے کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ إِلَیْہِ تَبْتِیْلًارَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا(مزمل)
ترجمہ:اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے منھ موڑکر اسی کے ہو کرر ہو۔وہ مشرق و مغرب کا رب ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،پس تم اسی کو اپناوکیل بناؤ۔(مدیر ماہنامہ خضرراہ،الہ آباد)
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 52231 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More