آپریشن ضرب آہن!اہلیت کے فقدان کے باعث لینے کے دینے پڑ گئے
(Sohail Ahmad Mughal, Lahore)
دنیا بھرمیں شہریوں کے جان و مال ‘ عزت و
آبروکے تحفظ اور امن وامان قائم کرنے سمیت قانون شکن اور جرائم پیشہ عناصر
سے نمٹنے کیلئے معرض وجود میں لایا گیا پولیس کا ادارہ پاکستان میں خود کس
روش پر چل نکلا ہے اس بات کا اندازہ آپ آئے روز پیش آنے والے پولیس گردی ،
فرضی مقابلوں اور رشوت جیسے واقعات سے بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ ہمارا المیہ ہے
کہ ہمارے ملک کی پولیس معاشرے میں امن وامان قائم کرنے اور لوگوں کو تحفظ
فراہم کرنے کی بجائے ایسی صورتحال پیدا کر رہی ہے جس سے معاشرے میں اشتعال
اور پرتشدد رویوں کو فروغ مل رہا ہے ۔ مثال کے طور پر چھوٹے موٹے جرائم میں
ملوث ان افراد کو پولیس مقابلے کا رنگ دیکر پار کردیا جاتا ہے جن میں پولیس
کا پیٹ بھرنے کی طاقت نہیں ہوتی جب کہ اس کے برعکس بڑے بڑے جرائم پیشہ
افراد گرفتار تو ضرور ہوتے ہیں مگر مستقل جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کی
کم ہی مثالیں سامنے آئی ہیں ۔بد قسمتی سے ملک میں 90 فیصد ایسے پولیس
مقابلے ہوتے ہیں جن میں پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوتے کیونکہ ہاتھ بندھے
شہری پولیس کیخلاف مزاحمت کیسے کرسکتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں آئے
روز فرضی پولیس مقابلوں کے ٹھوس شواہد منظر عام پر آتے رہتے ہیں حیرت اس
وقت ہوتی ہے جب ریاستی ادارے ان فرضی پولیس مقابلوں کو اصلی پولیس مقابلوں
میں تبدیل کردیتے ہیں ۔ہرمقابلے کے بعدپولیس موقف اختیار کرتی ہے کہ مقابلہ
کے دوران ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا ہے ۔ ایسے مقابلوں
کی کیا اصلیت ہوتی ہے اب تو عوام بھی بخوبی جانتی ہے۔لیکن اگر کبھی پولیس
کا سامنا منظم جرائم پیشہ عناصر سے ہوجائے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو حالیہ
آپریشن ضرب آہن میں نکلا ہے ۔ دراصل ہماری پولیس فورسز کی عملی کرمینلز
کیساتھ مقابلوں کی تاریخ کم ہی نظر آتی ہے زندہ پکڑ کر اور ہاتھ باندھ کر
ان کے سینے میں گولیاں پیوست کرنا ایک مشغلے کی شکل اختیار کرچکا ہے اگر
ایسا نہ ہوتا تو یقیناحالیہ واقعہ میں ایس ایچ او سمیت ہلاک نہ ہوتا۔ جہاں
بھی حقیقت میں پولیس مقابلہ ہوتا ہے وہاں ڈاکوؤں کی ہلاکتیں کم اور پولیس
ملازمین کی ہلاکتیں زیادہ نظر آتی ہیں ۔آپریشن ضرب آہن تین ہفتے قبل اسوقت
شروع ہوا جب گھوٹکی پولیس نے پنجاب اور سندھ کی سرحد پر واقع ایک جزیرے پر
پناہ لیے ہوئے چھوٹو گینگ کے ارکان کو گرفتار کرنے کیلئے چھاپہ مارا جس کے
نتیجے میں ایک ایس ایچ او جاں بحق جبکہ متعدد اہلکار شدید زخمی ہوگئے اس
واقعہ کے تین روز بعد چھوٹو گینگ نے پنجاب کی سرحد پر واقع ایک پولیس چوکی
پر دھاوا بول دیا اور سات پولیس اہلکاروں کو اغواء کرکے اپنے زیر قبضہ
جزیرے پر لے گئے ۔ جس کے بعد باقاعدہ آپریشن کا آغاز کردیا گیا جو تاحال
جاری ہے۔ ابتدائی آپریشن میں متعلقہ تین اضلاع کی پولیس نے حصہ لیا جس میں
ناکامی کے بعد مزید چھ اضلاع سے اضافی پولیس کی نفری منگوالی گئی اور
آپریشن کی مانیٹرنگ خود انسپکٹر جنرل پنجاب کرنے لگے ۔ حیرت انگیز امر ہے
کہ اس آپریشن میں اب تک 7 پولیس کے جوان شہید ہوچکے ہیں اور درجنوں اہلکار
شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ کئی اہلکاروں کو ملزمان نے یرغمال بنا رکھا ہے ۔سترہ
روز سے جاری آپریشن میں 22 سو سے زائد پولیس کے جوان تاحال 80 کے قریب
چھوٹو گینگ کے ارکان کو زیر نہیں کرسکے ہیں ۔ گزشتہ روز ملزمان نے یرغمال
بنائے گئے اہلکاروں کی وائرلیس سروس کے ذریعے فائرنگ بند کرنے کی دھمکی اور
اپنے زخمی ساتھیوں کے علاج معالجہ کیلئے ڈاکٹر کا مطالبہ کیا جسے حالات کے
پیش نظر پولیس حکام نے فوری تسلیم کرتے ہوئے فائرنگ بند کردی اور ملزمان کو
ڈاکٹر بھی فراہم کردیا گیا ۔ جس کے بعد ملزمان کی جانب سے یرغمال بنائے گئے
چارشہید اہلکار پولیس کے حوالے کردئیے گئے ۔جبکہ درجنوں پولیس اہلکار انکے
قبضے میں ہیں ۔ دوسری جانب پولیس کی جانب سے تاحال صرف ایک ملزم جو چھوٹو
گینگ ڈپٹی کمانڈر بتایا جاتا ہے کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ دونوں
صوبوں کی پولیس نے سترہ روز سے جاری آپریشن میں ناکامی کے بعد اب پولیس
حکام کی جانب سے فضائی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے اور افواج پاکستان سے
بھی مدد طلب کی گئی ہے۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ ہر دوسرے روز
ملک بھر میں شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کرکے خود کو ہلاکو خاں سمجھنے
والے پولیس افسران ملکر بھی چھوٹو گینگ کے صرف 80 ارکان کے سامنے ڈھیر ہو
چکے ہیں ۔ جس سے یہ ثابت ہے کہ مذکورہ افسران صرف چھوٹے موٹے ملزمان کو
ہتھکڑیاں لگا کر ہی پولیس مقابلے میں مارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ چھوٹو
گینگ کیخلاف اس سے قبل بھی کئی مرتبہ کاروائی کی گئی لیکن ہر بار پولیس کو
ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔یہاں یہ امر انتہائی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ
ملزمان کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز، دستی بم، راکٹ لانچر اور دیگر جدید
ہتھیار بھاری تعداد میں موجود ہیں اور پولیس کے ایک ذمہ دار افسر کے مطابق
ملزمان کی جانب سے جو ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں ان میں ایسی گنز بھی
ہیں جن کی گولیاں آدھے آدھے فٹ کی ہیں ۔ اس قسم کے خطرناک ہتھیار ان تک
کیسے پہنچے اور کس نے انکی معاونت کی یہ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر
سوالیہ نشان ہے ۔پاکستانی قوم کو اس آپریشن میں شہید ہونے والے پولیس
اہلکاروں کی شہادت پر دلی دکھ پہنچا ہے اور پاکستانی قوم آپریشن کی کامیابی
کیلئے دعا گو بھی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس آپریشن میں ہونے والے
نقصانات اور پولیس کی جگ ہنسائی سے آئی جی پولیس پنجاب و سندھ اور دونوں
صوبوں کی وزارت قانون کیا سبق سیکھتی ہے ۔ |
|