کہتے ہیں، ایک شہزادہ اپنے باپ کے مرنے کے بعد تخت حکومت
پر بیٹھا تو اس نے حاجت مندوں کی امداد کے لیے اپنے خزانے کے دروازے کھلوا
دیے جو شخص بھی سوالی بن کر آتا، شہزادہ اس کی ضرورت کے مطابق اس کی امداد
کرتا، نئے بادشاہ کا یہ رویہ دیکھا تو ایک روز وزیر نے مناسب موقع دیکھ کر
خیر خواہی جتا نے کے انداز میں کہا کہ حضور والا پہلے بادشاہوں نے یہ خزانہ
بہت توجہ اور دانشمندی سے جمع کیا ہے۔ اسے یوں لٹا دینا مناسب نہیں۔
بادشاہ کو کسی وقت بھی خطرات سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ کیا کہا جاسکتا ہے
کہ آیندہ کیا واقعات پیش آئیں۔ اگر حضور والا اپنا سارا خزانہ بھی تقسیم کر
دیں تو رعایا کے حصے میں ایک ایک جو کے برابر آئے گا لیکن اگر حضور رعایا
کے لوگوں سے ایک ایک جو کے برابر سونا لیں تو حضور کا خزانہ بھر جائے گا۔
بظاہر یہ بات بہت خیرخواہی کی تھی لیکن شہزادے کو بالکل پسند نہ آئی اس نے
کہا خدا نے مجھے اپنے فضل سے ایک بڑی سلطنت کا وارث بنا یا ہے میرا یہ کام
نہیں کہ مال جمع کرنے کی دھن میں لگ جاؤں بادشاہ کا فرض رعایا کو خوشحال
بنانا ہے۔ خزانے پر سانپ بن کر بیٹھنا نہیں ہے ؎
قارون ہوا ہلاک خزانوں کے باوجود
نوشیرواں ہے زندہ و جاوید عدل سے
ڈبّے میں ہے گر بند تو بے فیض ہے عود
خوشبو اڑے جب آتش سوزاں میں جلائیں
ملتی ہے بزرگی تو فقط جو دوسخا سے
دانہ ہو اگر کاشت تو کھلیان سجائیں
وضاحت:اس حکایت میں حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ
سلطنت اور اقتدار کو دوام خزانوں سے نہیں بلکہ لوگوں کو خوشحال بنانے سے
ملتا ہے۔ یہ سراسر سطحی سوچ ہے کہ زیادہ مال دار لوگ زیادہ عزت پاتے ہیں
اور مال کی قوت سے ان کا اقتدار مستحکم ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سخاوت اور
عدل و انصاف کے باعث دلوں میں جو محبت پیدا ہوتی ہے وہ اقدار اور عزت کو
دوام بخشتی ہے۔
٭٭٭
|