بیان کیا جات ہے کہ ملک مصر کے شہر اسکندریہ میں ایک بار
بہت سخت قحط پڑا۔ کافی عرصہ بارش نہ ہونے سے زمین جھلس گئی اور فصلیں بر
باد ہو گئیں۔ لوگ پانی کے ایک گھونٹ اور روٹی کے ایک نوالے کے لیے مارے
مارے پھرنے لگے۔
ایسے سختی کے دنوں میں شہر کے ایک ہیجڑے نے لنگر جاری کر دیا۔ بھوکے اس کے
دروازے پر جاتے تھے اور پیٹ بھر کر لوٹتے تھے۔ ایسے حالات میں درویشوں کی
حالت تو اور بھی خراب تھی۔ چنانچہ رزق کی تنگی سے گھبرا کر خدا رسیدہ
بزرگوں کے ایک گروہ نے اس ہیجڑے سے امداد لینے کا ارادہ کیا اور سعدی علیہ
الرحمہ سے مشورہ طلب کیا کہ حضرت ہمیں بتائیے کہ اس ہیجڑے سے امداد لینا
موزوں رہے گا نہیں ؟
سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، نے زوردار لفظوں میں کہا کہ آپ حضرات دل میں
اس قسم کا خیال بھی نہ لائیے ؎
ہو نحیف و ناتواں، اور جاں بلب گو بھوک سے
شیر کتے کا جھوٹا کھا نہیں سکتا کبھی
گندگی کے ڈھیر سے لیتے نہیں خوددار رزق
متقی سلفے کے در پر جا نہیں سکتا کبھی
وضاحت:حضرت سعدی علیہ الرحمہ نے اس حکایت میں یہ بات واضح کر دی ہے۔ کہ
حصول رزق اور حاجات پوری کرنے کے سلسلے میں شرفا کو وہ پستی ہر گز اختیار
نہیں کرنی چاہیے جو جانوروں کا خاصہ ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا
ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انتہائی ضرورت اور تکلیف کے وقت بھی وہ جائز اور
ناجائز اور حلال اور حرام کا خیال رکھتا ہے۔ جو لوگ یہ احتیاط نہیں کرتے،
جانوروں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭
|