امن کی آشا

سورج کہیں دور افق کے اس پار غروب ہوئے کچھ ہی دیرہوئی تھی شام کا وقت ،ایسٹرکا تہوار اور اتوارکادن لاہورکے گلشن ِ اقبال میں معمول سے کہیں زیادہ رش تھا شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی، رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس بچے تتلیوں کی مانند بھاگتے پھررہے تھے والدین، بہن ،بھائی ،دوست احباب سب کے چہروں پر خوشیاں رقص کررہی تھیں پارک کے جھولوں والے حصہ میں بہت زیادہ بچے ابھی اپنی باری کے منتظر تھے ۔قوس قزح کے رنگوں کے برقی قمقمے عجب شان سے جگمگارہے تھے ۔جھولے نیچے سے اوپر آسمان کو گویا چھونے لگتے تو کئی بچوں کے دل کچھ لحظوں کیلئے ڈوب ڈوب جاتے،کچھ خوشی سے اور زیاد ہ شور مچانے میں مصروف ہوجاتے ۔یہ موج میلہ جاری تھا کہ اچانک ایک خوفناک دھماکے کی آواز نے اس طلسم کدے کا ماحول بدل کررکھ دیا اب ہر طرف آگ ، خون اور بارود کی مہک رچ بس گئی۔ خوشیوں سے قلقاریاں مارتے، ہنستے دوڑے بھاگتے بچوں کی آوازوں کی بجائے چیخنے، چلانے، آہوں ،سسکیوں کی آوازوں نے لے لی۔ اس کے ساتھ ہی سراسیمگی پھیل گئی اور شور ہونے لگا کہ دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ جس کی باعث بھگڈرپیدا ہو گئی۔ جان بچانے کی فطری کوشش میں کئی ایک دوسرے کے نیچے آکر کچلے گئے۔ والدین اپنے بچوں کے لئے چیخنے چلانے لگے کچھ اپنے پیاروں کو دیوانہ وار تلاش کرنے لگے ۔معلوم یہ ہوا کہ گلشن ِ اقبال میں ہونے والاہشت گردی کا واقعہ خودکش حملہ ۔تھا جس میں20کلو سے زائد بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا ۔فوری طور پر پولیس اور آرمی کے جوانوں اور کمانڈوزکو طلب کرلیا گیا۔ جنہوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں اور لاہوربھرکے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذکردی گئی۔ دہشت گردی کے اس بدترین واقعہ میں 26بچوں درجن سے زائد خواتین سمیت 80سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ایسی خبریں تشویش ناک ہی نہیں دل دہلادینے والی ہیں۔ ایک ہفتہ قبل بلوچستان سے’’را‘‘ کا ایجنٹ بھوشن یادو کوگرفتارکیا گیا تھا جس نے سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوں کا اعتراف کیا تھا۔ ملک کے کئی شہروں میں غیر ملکی ایجنٹوں کی موجودگی کا انکشاف ہوتارہتاہے ۔جو انتہائی تشویش ناک بات ہے آرمی پبلک سکول ،باچاخان یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں پرپے در پے حملوں کے باعث معلوم ہوتاہے۔ دہشت گردوں نے بچوں کو ٹارگٹ کرلیا ہے شاید یہ ان کا آسان ہدف ہے ۔جس سے خوف وہراس زیادہ پھیل رہاہے بچوں پر حملہ دہشت گردوں کی بزدلی کی علامت ہے ۔اگر دیکھا جائے تو یہ ہمارے مستقبل پر حملے کی مترادف ہے پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔تحریک ِ طالبان ماضی میں ایسے زیادہ تر واقعات میں ملوث رہی ہے جب سے اپریشن ضرب ِ عضب شروع کیا گیا ہے کہ تحریک ِ طالبان چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہوکررہ گئی ہے۔ یہ گروپ اپنے آپ زندہ رکھنے اور خوف و ہراس پھیلانے کیلئے خودکش حملے کرکے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ لیکن تازہ ترین سانحہ گلشن ِ اقبال نے ایک بار پھرپوری قوم کو ہلاکررکھ دیاہے۔ اس واقعہ کو معمولی نہ سمجھا جائے یہ اس بات کی طرف ایک اشارہ بھی ہے کہ ہم محفوظ نہیں ہیں دہشت گرد جب اور جہاں چاہیں حملے کر سکتے ہیں ۔یہ واقعہ ہماری ایجنسیوں، حکومتی اداروں اور وزارت ِ داخلہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس واقعہ نے کچھ سوال اٹھائے ہیں جن کے جواب ملنے تک دہشت گردی نہیں رک سکتی ۔اولاً تحریک ِ طالبان کے باقی مانندہ کچھ گروپ اب بھی طاقت میں ہیں ثانیاً ! ان واقعات میں بھارت اور ان کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔’’را‘‘ کے ایجنٹ بھوشن یادو کی گرفتاری اسی بات پر دلالت کرتی ہے مزیداً کچھ اسلام دشمن طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن و امان ہو وہ طالبان کی آڑ میں دہشت گردی کرکے حالات خراب کررہی ہیں۔ اس وقت حکومت اور عوام کے پیش ِ نظر یہی تین سوال ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چا ہیے۔یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ بیشتراسلام دشمن قوتوں امریکہ ، بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کوآج تک دل سے تسلیم نہیں کیا وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں جب سے پاکستان ایٹمی قوت بناہے ان کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں اس لئے غالب خیال یہ ہے کہ پاکستان کے حالات خراب کرنے میں اسلام دشمن طاقتوں کا کلیدی رول ہے اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ملک میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات ، درجنوں بے گناہوں کی شہادت اور عوام میں خوف وہراس کے باوجود میاں نواز شریف اور عسکری قیادت دہشت گردوں کونیست و نابود کرنے کیلئے پر عزم ہیں اب تلک سینکڑوں بے گناہ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا اٹھاکر تھک گئے ہیں دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کو کھوبوں ڈالرکا نقصان ہو چکاہے۔50000سے زائد افراد شہیدہوچکے ہیں جن میں اکثریت بچوں، خواتین اور نوجوانوں کی ہے دہشت گردی کے یہ واقعات انسانیت کے قتل کے مترادف ہیں۔ ایسے واقعات حکومتی رٹ چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کی ہر شکل کو بے حم اپریشن کے ذریعے کچل ڈالے انسانیت کے قاتلوں، امن کے دشمنوں سے کوئی رعائت ،کوئی نرمی نہ برتنی جائے یہی حالات کا تقاضا اور امن کا سب سے بہترین فارمولاہے۔ دہشت گرد جب ہمارے قومی اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں ان کا سب سے بڑا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہوتاہے۔وہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ ہم اپنی ذ مہ داریاں پوری کرنے کے اہل نہیں ہیں دہشت گرد جب معصوم بچوں اور طالبعلموں کو نشانہ بناتے ہیں تو اس کا مقصد ملک میں خوف و ہراس پھیلانا ہے ۔آج وہ وقت آ ن پہنچاہے جب ہم نے دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہچاناہے یقینا عسکری قیادت، عوام اور سیاسی رہنما ایک بیچ پرموجود ہیں۔ امن کی خواہش میں حکومت ِ پاکستان ،فوج اورعوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں پوری قوم انسانیت کے قاتلوں، امن کے دشمنوں کے خلاف حکومت کے ساتھ ہے ان کو نیست و نابود کردینا چاہیے تاکہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔دنیا کو جان لینا چاہیے کہ پاکستانی قوم مٹھی بھر دہشت گردوں کو ان کے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیگی۔’’را‘‘ کے ایجنٹ، امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی پاکستان دشمن طاقتیں اور اسلام مخالف قوتیں پاکستانی قوم کے عزم کے آگے ہیچ ہیں کسی قسم کی دہشت گردی سے ہمیں ڈرایا ، دھمکایا اور جھکایا نہیں جا سکتا مسلمان کے سر صرف اﷲ کے حضور جھکنا جانتے ہیں ،امن کی خواہش مقدم لیکن ہمارا اپنے وطن سے وعدہ۔اﷲ تبارک تعالیٰ سے عہد اوردل کا عزم ہے ہم اپنے مادر ِ وطن کی طرف اٹھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ پھینکیں گے۔ ہر میلی آنکھ کو پھوڑ ڈالیں گے اس وطن کو انشاء اﷲ آگ کا دریا نہیں بننے دیں گے۔ ہمارا تن ،من دھن ہر چیز اس وطن پرقربان ہے ۔پاکستان کی سا لمیت،بقاء اور سلامتی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے عبرت ناک موت اوربدترین شکست پاکستان کے دشمنوں کا مقدرہے۔ یہ لوح ِ محفوظ پر لکھا جا چکاہے اسلام کے نام پر بننے والی مملکت ِ خداداد تاقیامت قائم دائم رہے گی اور اس کے دشمنوں کا منہ کالا ہوناٹھہرگیاہے۔ ہر پاکستانی نے اپنے وطن کے دشمنوں کو نسیت و نابودکرنے کیلئے دل پر گرہ لگارکھی ہے کیونکہ امن کی خواہش میں ملکی سلامتی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
Faisal Javed
About the Author: Faisal Javed Read More Articles by Faisal Javed: 23 Articles with 17300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.