پاجامہ لیکس

ہر سال موسم برسات میں طفیل کے گھر کی چھت یوں ٹپکتی گویا ساری بارش یہیں ہو رہی ہو۔طفیل وغیرہ سات بہن بھائی تھے ۔بارش ہوتے ہی سارے کچن میں بھاگ جاتے کیونکہ پکوڑے چھت سے نہیں ٹپکتے۔ لیکن کچن سے نکلتے توبرساتی پکوڑوں کے بجائے سب کے ہاتھوں میں ۔دیگچیاں، بالٹیاں، ہانڈیاں، کٹوریاں اور جگ وغیرہ ہوتے۔ سارا خانگی اسلحہ وہاں نصب کر دیا جاتا جہاں چھت لیکتی ۔اور خود کونے کھدروں میں مورچہ زن ہوجاتے ۔پانامہ لیکس بھی طفیل کی چھت کی طرح برسی ہیں۔لیگی وزر ا۔دیگچیاں، بالٹیاں اور ہانڈیاں پکڑے پھر رہے ہیں۔

پانامہ لیکس پر پریشان ایک سیاستدان

ہر سال موسم برسات میں طفیل کے گھر کی چھت یوں ٹپکتی گویا ساری بارش یہیں ہو رہی ہو۔طفیل وغیرہ سات بہن بھائی تھے ۔بارش ہوتے ہی سارے کچن میں بھاگ جاتے کیونکہ پکوڑے چھت سے نہیں ٹپکتے۔ لیکن کچن سے نکلتے توبرساتی پکوڑوں کے بجائے سب کے ہاتھوں میں ۔دیگچیاں، بالٹیاں، ہانڈیاں، کٹوریاں اور جگ وغیرہ ہوتے۔ سارا خانگی اسلحہ وہاں نصب کر دیا جاتا جہاں چھت لیکتی ۔اور خود کونے کھدروں میں مورچہ زن ہوجاتے ۔پانامہ لیکس بھی طفیل کی چھت کی طرح برسی ہیں۔لیگی وزر ا۔دیگچیاں، بالٹیاں اور ہانڈیاں پکڑے پھر رہے ہیں۔

پانامہ دراصل۔دو بحروں۔بحراوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان واقع۔ وسطی امریکہ کا ملک ہے۔جس کی ’’موزیک فونیسکا‘‘ نامی لا فرم نے پانامہ پیپرلیکس کے نام سےتقریبا سوا کروڑ۔ایسے بلیوپیپرلیک کئے ہیں ۔جنہوں نے دنیا کے معروف سیاستدانوں اور۔امرا کی دولت کے خفیہ ٹھکانوں کو طفیل کے گھر کی طرح ننگا کر دیا ہے۔ یہ فرم’’ آف شور کمپنی‘‘ بناکرٹیکس چوری اوراثاثے چھپانےکے گُر بتانے میں بدنام ہے۔کئی’’شرفا‘‘بھی حمام میں کھڑے ہیں۔

داماد: (ساس سے)آپ کی بیٹی میں ہزاروں عیب ہیں ۔پھر بھی میں نے شادی کر لی
ساس :ہاں بیٹااسی لئے تو اسے کوئی اچھا لڑکا نہیں ملا۔

آزادی کے بعدسے ہمارا جمہوری نظام ’’ داماداور ساس‘‘جیسا ہے۔اپنا نے کے بعدعیب نکالنے والا نظام۔۔پاکستان کو ہمیشہ دو طرح کے حاکم ملے۔پہلے وہ جو زبردستی آگئے اور۔دوسرے وہ جو زبردستی بھیجنے پڑے۔چج کا کوئی نہ ملا ۔یہاں کرپشن کے خلاف جب بھی شور اٹھا ۔ عزیز ہم وطنو کے نیچے دب گیا۔لوٹ مار کی اتنی برسات ہوئی کہ کٹورے بھی کم پڑ گئے۔خزانہ ٹکے ٹوکری ہو گیا۔عزیز۔ہم وطنوں نے احتساب کے بجائےاین آر او سائن کر لئے۔ایسٹ انڈیاکمپنیوں سے کسی نے حساب نہ مانگا۔کوئی اپنا ۔ شریک اچانک امیر ہو گیا تو ہم نے پوچھ پوچھ کرآتما رول دی کہ ’’اوئے۔تیرے کو ل کار اور کوٹھی کیتھوں آئی‘‘۔’’عرب پتی‘‘شریفوں سے ہم کبھی نہ پوچھ سکے۔’’تیرے کول فیکٹریاں اور بنگلے کیتھوں آئے‘‘۔لیکن اب صیاداپنے دام میں آچکا ہے۔وہ جو کل تک مسندِاقتدار پر بیٹھے تھے۔آج اسی مسند کو کندھادئیے کھڑے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی۔ رائے ونڈ دھرنے کا بگل بجا چکی ہے۔

پانامہ لیکس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس ملتوی کرکےاچانک وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرڈالا۔آف شور کمپنیوں کے الزامات مسترد کئے۔عدالتی کمیشن بنا کر تحقیقات کااعلان کیا۔ایساعدالتی کمیشن ۔جن کے ججز عدالتوں میں نہیں ہوتے۔بولے ۔کچھ لوگ سیاسی مقاصد کیلئے ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں۔خطاب کے بعد انہیں مزید نشانہ بنایا گیا۔لیگی وزرا نے اچانک کٹوریاں چھوڑ کر کشکول پکڑ لئے۔دھرنے سے لاتعلقی کا اعلان کرکے پہلی خیرات پیپلز پارٹی نے ڈالی ۔آج پوری ن لیگ اور آدھی پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ ہے۔وہ لوگ بھی’’امیر المومنین‘‘ کے ساتھ ہیں۔جنہوں نے پوچھنا تھا ’’ مال غنیمت سے جو کپڑا حصے میں آیا ہے اس سے قمیض نہیں بن سکتی ‘‘۔ڈی چوک کے بعد رائے ونڈ دھرنے کا سن کر شریفوں کے طوطے دوسری بار اُڑ ے ہیں۔مائنس الطاف کے خواب دیکھنے والوں کومائنس نواز کی تعبیرنظر آنے لگی ہے۔اعتراف شکست کے بجائے ہار کاجوازتلاش کیا جا رہا ہے۔

چور ایک گھر میں داخل ہوا تو الماری میں لکھا تھا۔ بٹن دبائیں تو تجوری کھل جائے گی۔چورنے بٹن دبایا اور سائرن بج اٹھاوہ پکڑا گیا۔
عدالت :تم اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو۔؟
چور:جج صاحب بس دنیا سے اعتبارہی اٹھ گیا ہے۔

آف شور کمپنیوں کے شور میں قومی اسمبلی کااجلاس بھی بہت ہنگامہ خیز ہوا۔پیپلز پارٹی،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے حکومت کے خوب للتے لئے ۔پہلے پارلیمنٹ۔پھرعدالت اور پھرعوامی عدالت کا پلان بنایا گیا ہے۔ن لیگ۔عمران خان پر یوں برسی ہے گویا ۔پانامہ لیکس کے ذمہ دار وہ ہیں۔ وفاقی وزیر پرویز رشیدبولے عمران خان نےشوکت خانم کو ملنے والی خیرات اورزکوۃ کی رقم آف شور کمپنیوں میں لگائی اور30 کروڑ روپے ڈبو دئیے۔دانیال عزیز بولے۔عمران خان نے دبئی، اومان او ر افغانستان میں بھی آف شورکمپنیاں بنائیں۔مولانا فضل الرحمن بولے وکی لیکس کا کچھ بنا جوپانامہ لیکس کا بنے گا۔؟خورشید شاہ بولے۔ شریف فیملی دولت باہرکیسے لے کر گئی بتایا جائے۔؟ عمران خان کہتے ہیں کہ وزیراعظم استعفی دیں اور بتائیں اربوں روپے کی جائیداد کیسے بنائی۔ شفاف تحقیقات نہ ہوئیں تو دھرنا دیں گے۔ سراج الحق کہتے ہیں کہ پانامہ لیکس تو ٹریلر ہے ابھی مزید دھماکے ہونے ہیں۔اعتزاز احسن بولے نواز شریف صحت مند ہیں لیکن لندن جا کر آصف زرداری سے مدد چاہتے ہیں۔مجھے تو فارسی کہاوت یاد آگئی۔ کند ہم جنس با ہم جنس پرواز۔

پچھلے دنوں میرے دوست سماجی کارکن مہر عبدالروف نے سوشل میڈیا پر ایک تصویرشیئر کی کہ’’مستانی۔باجی راو کی دوسری بیوی تھی۔جس سے وہ بے حد محبت کرتا تھا۔ ممتاز ۔ شاہ جہاں کی آٹھویں بیوی تھی ۔جس پروہ اپنی جان چھڑکتا تھا۔ جودھا۔اکبر کی تیسری بیوی تھی۔جن کی محبت امر ہوئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی نے آج تک پہلی بیوی سے مثالی محبت نہیں کی‘‘۔ مجھے یہ جملےمحبتی سے زیادہ سیاسی لگے۔کیونکہ عشق کی چاہت اور ۔وزیراعظم بننے کی محبت ہمیشہ رہتی ہے ۔اکبر کی جودھا۔کی طرح تیسری باروزیراعظم بننانوازشریف کی محبت تھی۔ تاریخ اگر خود کودوہراتی ہے تومیاں صاحب کی پہلی دو ’’محبتوں‘‘ کا انجام بھی اچھا نہیں ہوا۔لیکن مرید کہتا ہے کہ بیوی جتنی بھی حُور پری ہو ۔ آف شور بیوی کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔عمران خان کا رائے ونڈ دھرنا بھی تیسری شادی کا’’ پیش خیمہ‘‘ثابت ہو سکتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک نےاپنے ساحلوں پرٹیکسوں سے چوری سرمایہ کاری کی ترغیب دے رکھی ہے۔یہی آف شور کمپنیاں ہیں جولوٹ مار ۔ اور منی لانڈرنگ سے بنتی ہیں۔پیپلزپارٹی بھی آصف زرداری،ڈاکٹر عاصم اور ماڈل گرل ایان علی کی وجہ سے منی لانڈرنگ سے بخوبی آگاہ ہے۔بلاول زرداری تورائیونڈ دھرنےسے لاتعلقی ظاہرکرچکےہیں۔ممکن ہے اس ڈیل میںڈاکٹر عاصم اور ایان علی کو ریلیف مل جائے۔اگر ایسا ہوگیا تو وزیر اعظم کی تبدیلی اتنی ہی دو ر ہوگی۔جتنادور مفتی منیب کو عید کا چاند دکھائی دیتا ہے۔رہ گیا استعفے کا اخلاقی جواز تو۔اخلاقیات کے جنازے یہاں روزانہ اٹھتے ہیں۔

اعتزاز احسن کا الزام ہے کہ پانامہ لیکس پر میاں شہباز شریف خوش ہیں ۔ پانامہ لیکس کے بعد ’’پنجاب‘‘ نے خوشیاں بھی منائیں ہیں۔جبکہ واقفانِ حال کا دعوی ہے کہ ممتاز قادری کے چہلم پر اسلام آباد دھرنا دینے والے علما کو پنجاب حکومت نے بھجوایا تھا۔کیونکہ وفاق نے پنجاب میں فوجی آپریشن اور بلاامتیاز ۔ احتساب کی اجازت دے تھی۔اس کے باوجود۔وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے پاناما لیکس کو پاجامہ لیکس قرار دیا ہے اور شیخ رشید کہتے ہیں کہ اگر یہ پاجامہ لیکس ہیں توحکومت کو بہت جلد پیمپر کی ضرورت پڑے گی۔
ایک جنگی بحری جہازمیں اچانک جنگ کا سائرن بج گیا۔عملہ الرٹ ہوگیا۔توپیں تیار ہو گئیں۔کپتان نے سرخ کوٹ پہنااور گولہ باری کا حکم دے دیا ۔ آخر دشمن کا جہاز ڈوب گیا۔
سیلر:سر آپ نے سرخ کوٹ کیوں پہنا؟
کپتان: میں نہیں چاہتا تھا کہ گولی لگنے سے میرا بہتاخون دیکھ کرمیرے ساتھی پریشان ہوں ۔
فوجی ابھی کپتان کی تعریف کر رہے تھے کہ ریڈار آپریٹرچلایا: سردشمن کے 10جہازوں نے حملہ کردیا ہے ۔ ہم پھنس چکے ہیں۔
کپتان (نیم مردہ آواز میں):توپیں دوبارہ تیار کرو اور میرا پیلا پاجامہ لے آؤ ۔
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 104631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.