جس مسئلے پر ہم سوچ رہے ہیں اسی پر ہم سوچ
رہے ہیں کہ لکھیں لکھیں یا نہ لکھیں مگر پھر سوچتے ہیں کہ اگر لکھ سکتے ہیں
تو پھر کیوں نہ لکھیں۔۔۔۔؟؟
عرض یہ ہے؛
کچھ آپ بھی تو اپنی آداؤں پر غور کیا کیجیئے
ہم گر کریں گے تو آپ کو شکایت ہوگی
بے ساختہ یہ شعر اکثر اس بات کو سوچ کر ہمارے ذہن میں یکا یک ابھر آتا ہے
جسکی سمت ہم آپکی توجہ مبذول کروانے جارہے ہیں سو ایڈیٹر صاحبان ہم آپ سے
مخاطب ہونے کی گستاخی کررہے ہیں اور عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ جناب ِ عالی
ہم اکثر و بیشتر بہت سی غلطیاں کرتے ہیں کچھ غلطیاں ہم نظر انداز کردیتے
ہیں اور کچھ غلطیاں آنکھوں کو بھلی نہیں بھی لگتی۔۔۔ ہمارا اشارہ باقی
غلطیوں کی سمت نہیں ہے بلکہ اسی لکھنے کے حوالے سے ہے کہ جب ہم آپ حضرات کے
اخبارات میں اپنی تحریر بھیجتے ہیں تو آپ اسے حرف با حرف چھاپ دیتے ہیں نہ
نہ ہم قطعی اس میں کچھ جمع کرنے کی بات نہیں کررہے بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے
کہ اکثر وبیشتر انجانے میں املا کی غلطی یا ایک لفظ کے بعد جگہ نہ چھوڑ کر
دوسرا الفاظ ملا کر لکھ دینے جیسی غلطیاں ہوتی ہیں۔۔۔ یہ تو ہم جانتے ہیں
کہ ہم لکھاریوں کو ہی اپنی تحریر صحیح املا کے ساتھ لکھ کر بھیجنی چاہیئے
مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو ادارے تحریروں کو حرف با حرف چھاپ دیتے
ہیں غلطیوں سمیت تو کیا وہ پروف ریڈنگ نہیں کرتے؟ کیونکہ اکثر و بیشتر ہم
لکھاریوں سے بھی غلطی ہوجاتی ہے جسے سدھارنا پھر ادارے کی ذمہ داری ہوتی ہے
کیونکہ یہ انکے اخبار کے معیار کا سوال ہوتا ہے ۔۔۔ کیا آپ لوگوں نے پروف
ریڈنگ کا سلسلہ بند کردیا ہے؟ کیونکہ تحریر پڑھتے ہوئے ہمیں ایسی غلطیاں
بھی نظر آتی ہیں جو بلکل بھلی معلوم نہیں ہوتی اب کسی محب وطن کو پاکستان
کی جگہ پاکسٹان لکھا نظر آئے یا پھر قائداعظم کی جگہ قائڈاعظم تو کیسا لگے
گا یقیناً برا ہی۔۔ بلکہ ہماری دوست تو کہتی ہیں کہ ایسے میں بلکل ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ آپ مچھلی کا مزیدار سا سالن کھا رہے ہوں اور بیچ میں
کانٹا اٹک جائے۔۔۔ ہمارے خیال میں تو اخبار میں ہر شے پر نظر خاص ڈالی جانی
چاہیئے کیونکہ پروف ریڈنگ کے بنا غلطیوں سے پْر اخبار تو پڑھنے والے کے ذہن
میں برا تاثر پیش کرتا ہے ، اور جو بے دھیانی کا منہ بولتا ثبوت معلوم ہوتا
ہے اور اگر کسی شے میں آپکو کامیابی کی خواہش ہو تو اسے تو مزید سجانے
سنوارنے کی بھی آپکی ذمہ داری ہوتی ہے تو ایسے میں کیسے یہ بے دھیانی
ہوسکتی ہے کیا آپ صرف وقت گذاری کے لیئے اخبار نکالتے ہیں یا صرف نام بنانے
کے لیئے؟ اور اگر ایسا ہے تو بھی نام مثبت تبدیلیوں ہی سے بنایا جاسکتا ہے
صرف اخبار چھاپ دینے سے نہیں بلکہ ذمہ داریوں کا احساس ہی ہمیں پروان
پڑھاتا ہے ایک ایسے دور میں جہاں مقابلہ سخت ہے وہاں آپ وقت کو بچانے کے
لیئے کچھ بھی تو چھاپ کر اپنا معیار نہ گنوائیں کیونکہ ہمیں تو اکثر وبیشتر
کچھ کو چھوڑ کر یہی لگتا ہے کہ آپ لوگ پڑھے بنا ہی آرٹیکل بھی لگا دیتے ہیں
کہ اگر پڑھتے تو غلطیاں تو ضرور رفع کی جاتی۔۔ ویسے جو کچھ پڑھنے والے ہیں
ان میں اپ اپنا بھی نام شامل کرسکتے ہیں تاکہ ہماری تحریر اشاعت کی منازل
طے کرکے ہمارے ہاتھوں کی زینت بنے ورنہ تو ہمیں ڈر ہے کہیں ساری نظریں ہی
اس آرٹیکل پر نہ پڑجائیں۔۔۔
شکوہ بجا ہے یا نہیں یہ تو اب آپ ہی اسے قابل اشاعت گردان کر ہمیں اپنی
مثبت رائے سے آگاہ کرکے ہی بتا سکتے ہیں۔۔ امید واثق ہے کہ ہمارے لفظوں کچھ
دھیان ضرور دیا جائے گا |