اردوادب سے تھوڑابہت شغف رکھنے والوں کے
لئے شیخ امام بخش ناسخ کانام نیا یاغیرمانوس نہیں ہے۔شیخ امام بخش 1772کو
فیض آبادمیں پیداہوئے ۔انکے والد کانام شیخ خدابخش لاہوری تھا، تاہم یہ بحث
نزاعی ہے ، بعض ناقدین کہتے ہیں کہ ناسخ شیخ خدابخش کے حقیقی بیٹے تھے جبکہ
بعض کے نزدیک متبنیٰ تھے، تاہم خدابخش کی وفات کے بعدناسخ کووراثت میں خاصی
دولت ملی اوربقیہ زندگی خوب فراغت سے بسرہوئی۔ناسخ کو ورزش اورپہلوانی
کابہت شوق تھا۔خودبھی ورزش کرتے اوردوست احباب میں جس کو ورزش کاشوق دیکھتے
توخوش ہوتے۔خوش خوراک، خوش لباس اورخوش وضع انسان تھے اوراس پر مستزاد
بااخلاق اورمہذب بھی تھے۔شیخ صاحب نہ صرف جسمانی لحاظ سے پہلوان تھے بلکہ
انہوں نے اردوزبان میں جومہارت حاصل کی تھی اوراس کی جس طرح تحقیق کرکے
آبیاری کی ، اسی وجہ سے انہیں پہلوان سخن کاخطاب دیاگیاہے۔امام بخش بچپن
میں لکھنو چلے آئے اوریہاں فارسی اورعربی کی تعلیم حاصل کی، تاہم بقول
محمدحسین آزادانہیں عربی زبان پر فاضلانہ دسترس حاصل نہ تھی۔
شیخ امام بخش ناسخ لکھنو کے ارباب کمال میں تھے۔ وہ نہ صرف ایک خاص طرز کے
بانی ہیں بلکہ اساتذہ ادب کے خیال میں اردوشاعری کے موجودہ اسلوب کے
موجدہیں۔ناسخ کو دبستان لکھنوکامعمارقراردیاگیاہے۔ ان کی پیروی کرنے والوں
میں لکھنوکے علاوہ دہلی کے شاعربھی تھے۔ناسخ کاسب سے بڑاکارنامہ اصلاح زبان
ہے۔تاہم تذکرہ نویس اورنقادوں نے ناسخ کی شاعری پر رائے زنی کے سلسلے میں
غفلت کامظاہرہ کیاہے، کیونکہ وہ ناسخ کی اصلاح زبان کی کوششوں کاذکرکرتے
ہوئے انکی دشوارپسندی ، ادق نگاری ، رعایت لفظی ، بے کیفی اورتصنع وتکلف
کااس زورسے ڈنڈورا پیٹے ہیں کہ انکی شاعری کی دیگرخوبیاں نظروں سے
پوشیدہوجاتے ہیں۔بعض نقادوں نے توسرے سے ناسخ کی شاعری میں میں اچھے
اشعارکی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے ۔یہاں تک کہ حسرت موہانی جیسے اردوشاعری
کے نباض نے بھی انہیں ریگِ رواں کہاہے۔حسرت نے انکے کلام کے انتخاب کے
سلسلے میں لکھاہے ۔’’ایسااستاداورکامل فن دیکھنے میں نہیں آیا،جسکے سینکڑوں
اوراق پڑھنے کے بعدبھی کام کاشعرنہ ملتاتھا۔‘‘شیفتہ نے ناسخ کے کلام
کااعتراف ضرورکیاہے، مگرمثال میں زیادہ ترانکے ماہرانہ رنگ کے اشعارمنتخب
کئے ہیں ۔ ان تمام باتوں سے یہ امرواضح ہوتاہے کہ غالباً ساری اردوشاعری
میں کسی کے ساتھ اتناظلم نہیں ہواہے ، جتنا ناسخ کے ساتھ ہواہے۔انکی شاعری
کاصرف بدنمارخ پیش کیاگیاہے اورزبان وبیان کے لحاظ سے ان کے لطیف
اورخوشگوارنیز سوزوگداز سے لبریز اورجذبات سے مملواشعارنظراندازکئے گئے
ہیں۔شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ اردوشاعری میں جوکام ناسخ نے کیا، اسکی وجہ سے
ماہرانہ قسم کے اشعارانہیں زیادہ کہنے پڑے اوروہ اپنے زمانہ کے میلان سے
بھی مجبورتھے ۔چنانچہ انکے اس قسم کے اشعارکو ان کانمائندہ کلام سمجھ کر
پیش کیاگیا۔مگراسکایہ مطلب ہرگزنہیں کہ ناسخ کے ہاں عمدہ شاعری بالکل
مفقودہے۔ناسخ کااردوزبان پرخاصااحسان ہے ۔ انہوں نے قدماکی زبان کے فحش
اورغیرفصیح الفاظ کو متروک قراردیا اورہندی الفاظ خارج کرکے اسکی جگہ عربی
اورفارسی الفاظ اورتراکیب کو رواج دیا، جس کی وجہ سے اردوشاعری میں وزن کے
ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کاوقارپیداہو۔ناسخ نے اردومیں مستعمل عربی، فارسی
اورہندی الفاظ کے لئے تذکیروتانیث کے قاعدے وضع کئے اورمحاورات درست کئے ۔شیخ
امام بخش ناسخ کو اس وجہ سے متروکات کاناسخ بھی کہاجاتاہے۔انہوں نے بیدل
اورصائب کی پیروی کی ،انکی تقلید غالب نے کی اورغالب کی تقلید اقبال نے
کی۔اگراردوشاعری کاموجودہ اندازبیان غالب اوراقبال سے متاثرہے توبلاشبہ
ناسخ اسکے موجدہیں۔ناسخ میرکے بھی معتقدتھے ، جس کااظہارغالب نے اس شعرمیں
کیاہے۔
غالب اپنایہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
ٓآپ بے بہرہ ہے جومعتقد میرنہیں
لیکن محمدحسین آزادنے آب حیات میں ایک واقعہ نقل کیاہے کہ ناسخ کو شاعری
میں کسی کے استادی میسرنہیں ہوئی ہے ، تاہم ابتدائے شاعری میں ذوق سخن نے
بے اختیارکیاتواپنی کچھ غزلیں میرتقی میرکی خدمت میں لے گیا۔میرصاحب نے
اصلاح دی لیکن شایدطبیعت خراب ہونے کے باعث یاکسی اوروجہ کے، کچھ ایسی
باتیں کہیں، جس کی وجہ سے ناسخ دل شکستہ ہوکر واپس آیا اورکہا۔’’میرصاحب
بھی آخرآدمی ہیں ،فرشتہ نہیں۔اپنے کام کوآپ اصلاح دوں گا۔‘‘خوداپنے کلام پر
توجہ دی۔ لکھتے اورپھر اصلاح کے لئے بارباردیکھتے اورپڑھتے۔ یہاں تک کہ
کلام میں رفتہ رفتہ ایسی پختگی آئی کہ شیخ صاحب، ہمیشہ کے لئے شیخ امام بخش
ناسخ بن گئے۔انکے دیوان سے کچھ منتخب اشعاریہ ہیں
لبریزاسکے ہاتھ میں ساغرشراب کا
بنتاہے عکس رخ سے کٹوراگلاب کا
جوہرہیں برگ گل ترے چہرے کے عکس سے
بن جائے کیوں نہ آئنہ تختہ گلاب کا
آتاہے رشک اے دل پرآبلہ مجھے
کیاجلد پھوٹتاہے پھپھولا گلاب کا
ایک اورخوبصورت شعر
دوستوں جلدی خبرلیناکہیں ناسخ نہ ہو
قتل آج اسکی گلی میں کوئی بے چارہ ہوا
اس طرح شیخ امامام بخش ناسخ سوداکی شاعری کا بھی متعقد رہاہے، جس کااعتراف
اس نے اس شعرمیں کیاہے ۔
پہلے اپنے عہد سے افسوس سودااٹھ گیا
کس سے مانگیں جاکے ناسخ اس غزل کی داد ہم
شیخ امام بخش ناسخ16اگست 1838کو لکھنومیں وفات پائے۔انکے کے کلیات میں
غزلیں، رباعیاں ، قطعات ، تاریخیں اورایک مثنوی ’’نظم سیراج ‘‘شامل ہیں۔ |