اردو ، سرکاری زبان، صدر کا اقدام!

 اردو کے چاہنے والے خوش ہو جائیں، خبر معلوم ہونے کے بعد وہ خوشی سے لوٹ پوٹ بھی ہو سکتے ہیں، اگر وہ چاہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سمائیں۔ اگر ان کا کوئی اور بھی رد عمل ہو تو اس پر بھی کوئی قدغن نہیں، کیونکہ نہ تو خواب دیکھنے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے اور نہ ہی اظہاررائے کے راستے میں کوئی رکاوٹ پسند کی جاتی ہے۔ہمارے جیسے اردو کے چاہنے والے بہت سے ایسے بھی ہیں، جو انگریزی نہ آنے کی بنا پر اردو کی حمایت میں رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ خیر یہ بھی کوئی بری بات نہیں، اردو کی حمایت تو کرتے ہی ہیں نا! خبر یہ ہے کہ اب اردو کو سرکاری زبان قرار دینے میں آخری رکاوٹ بھی دور ہونے کو ہے، ہی تحقیق بعد میں ہوتی رہے گی کہ آخر اردو کے راستے میں رکاوٹیں کیوں پیدا ہوتی ہیں، اور ان کو دور کیوں نہیں کیا جاتا، مگر فی الحال خوشخبری یہ ہے کہ اب معاملہ صدراسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کے ہاتھ میں آگیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اردو کو سرکاری زبان بنانا آئینی تقاضا ہے، اس میں پہلے ہی خاصی تاخیر ہو چکی ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے کام کی رفتار تیز کی جانی چاہیے۔ انہوں نے یہ گفتگو وزیراعظم کے مشیر اور قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کے سربراہ عرفان صدیقی سے بات چیت کرتے ہوئے کی۔ مشیر صاحب صدرمملکت سے ملاقات کے لئے ایوان صدر تشریف لے گئے تھے۔ اس موقع پر عرفان صدیقی نے بتایا کہ اسلام آباد میں اس ضمن میں ایک میلے کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
 
گزشتہ دنوں ہی حکومت نے اعلیٰ سطح پر ’’یومِ دستور‘‘ منایا ہے، اس موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس کو برقی قمقموں سے روشن کیا گیا تھا، سیمینار بھی ہوئے اور سابق صدر زرداری اور دیگر لوگوں نے دستور کے حق میں بیانات وغیرہ دے کر اپنا فریضہ ادا کیا۔ اس روز پاکستان میں دستور کے بانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا، ان کی خدمات کو سراہا گیا، شاید دستور پر عمل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہو۔ تاہم یہ ضرور بتایا گیا کہ جو لوگ دستور کے مخالف ہیں وہ دراصل غدار ہیں۔ دستور کا دن تو منایا گیا مگر دستور کیا کہتا ہے، اس پر کوئی غور نہیں ہوا، اس لئے اس پر عمل کرنے کے معاملے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ورنہ دستور میں مراعات وغیرہ کے علاوہ اور بھی بہت سی شقیں ہیں، جن میں مفت تعلیم کے بارے میں بھی کچھ رائے موجود ہے، صحت کے لئے سہولتوں کی بات بھی ہے، عوام کو بنیادی سہولتیں دینے کا حکومتی وعدہ بھی اپنی جگہ قائم ہے، تاہم حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دستور پر عمل کرے، مگر زیادہ مصروفیات کی بنا پر انہیں صرف انہی شقوں پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے، جن میں حکمرانوں اور بیوروکریسی وغیرہ کے لئے مراعات کا ذکرہوتا ہے۔ دیگر شقیں طاقِ نسیاں پر دھری ہیں، گرد تو اُن پر نہیں پڑے گی کیونکہ اسلام آباد اور وہ بھی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گرد کا عمل دخل کہاں او رکیسے ہوسکتا ہے؟

اردو کو سرکاری زبان قرار دینا بھی چونکہ آئین کا حصہ ہے، اور اب صدرمملکت نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس کارِ خیر میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لئے حکومتی ایوانوں میں ذکر ہوتا رہتا ہے۔ اردو کو سرکاری زبان قرار دینے میں صرف آئین کا حکم ہی موجود نہیں، بلکہ اس سلسلہ میں عدالت عظمیٰ کے مسلسل احکامات کے بعد بہت مشکل سے حکومت نے اس پر عمل کرنے کا اشارہ دیا۔ مگر عمل کی نوبت نہ آئی۔ عرفان صدیقی کے ہوتے ہوئے اگر حکومتِ وقت اب بھی اردو کو سرکاری زبان قرار نہیں دیتی تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ اس کے بعد اردو کے سرکاری زبان بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابررہ جائیں گے۔ یہاں حکومت کی جانب سے اردو کے راستے میں رکاوٹوں کی بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے، اپنے وزیراعظم انگریزی مجبوری کی صورت میں ہی بولتے ہیں، یا یوں جانئے کہ بس گزارہ ہی کرتے ہیں، اس صورت میں انہیں اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے لئے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا، اب اگر اردو کو نظر انداز کیا جارہا ہے تو اس کے پیچھے یقینا کوئی مزید طاقتور ہاتھ ہوں گے، جو مختلف حیلے بہانوں سے اردو کو روک رہے ہیں۔ اب صدر مملکت نے بھی تاخیر کا نوٹس لے لیا ہے، وہ دن دور نہیں جب اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.