حقیقت حال تو یہ ہے کہ نائن الیون کے
بعد جب مملکت اسلامیہ پاکستان چار اطراف سے شدید دباؤ میں تھی تو اس وقت
ازلی دشمن نے موقع غنیمت جانتے ہوئے پہلے تو پاکستانی سرحدوں پر اپنی فوج
لا کھڑی کر دیں اور پھر اسی دوران میں افغانستان اور ایران کے راستے دہشت
گرد بھیجتا رہا ۔ بااعتماد ذرائع کے مطابق 2005تک پاکستان میں بھارتی بدنام
زمانہ خفیہ ایجنسی RAWکی مداخلت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ اس وقت کے برطانوی
وزیر اعظم ، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو یہ کہنے پر مجبور ہو گے کہ
آپ کا ملک پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں جو کر رہا ہے یہ بہت زیادہ ہے ۔ جس
کا نتیجہ آج بدترین دہشت گرد بھارتی بندر کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کی شکل
میں نکلا۔ ہمارا دشمن ہمارے لیے کتنا خطرناک ہے سیکورٹی ذرائع کے مطابق
2014-15کے دوران میں بھارت نے بلوچستان کے 188شہر اور قصبات سمیت پاکستان
کے 396مقامات کو دہشت گردی کا ہدف بنانا چاہا لیکن ارض مقدس کے پاسبانوں نے
قبل از وقت دشمن اسلام کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا ۔ بھارتی تخریب
کار بندر کے ہوشربا انکشافات کی روشنی میں بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی
’’ RAWکے پچاس ایجنٹوں کی سندھ میں نشاندہی کی گئی ہے۔خیال رہے اس دور میں
بھی RAWکے دو اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا تھا جو ایران کے سرحدی شہر زاہدان
میں قائم بھارتی قونصل خانے سے ہی آپریٹ کیے جاتے تھے ۔
پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے بندر کو پکڑے جانے پر جس طرح دشمن کا میڈیا
مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ایسے ہی پاکستان کے تاجر حکمران کو جیسے
اس Hard Issue پر سانپ سونگھ گیا ہو ۔حتیٰ کہ ٰ قوم سے اپنے خطاب میں
بلوچستان سے لیکر کراچی تک را کی دہشت گردی اور تخریبی کاروائیوں کا بالکل
ذکر نہیں کیا ۔قوم اب تک یہ نہیں سمجھ سکی کہ بادشاہ سلامت بھارتی دہشت گرد
بندر کی گرفتاری پر اتنے رنجیدہ کیوں ہیں ؟ بیس کڑوڑ عوام کی دلی خواہش اور
سلامتی کے تقاظوں کے تناظر میں وفاقی حکومت اس ہائی پروفائل ایشو کو عالمی
سطح پر اٹھانے سے اتنے لیت و لعل سے کام کیوں لے رہی ہے ؟جس سے عوام اور
عسکری قیادت میں شدید قسم کے شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں ۔ سوچنے کا مقام
تو یہ ہے کہ جس بادشاہ کا وزیر اطلاعات قیام پاکستان کا کبھی حامی نہ رہا
ہو جس نے ہمیشہ Father of the Nation کا مذاق اڑایا ہو ۔ بیس کروڑمسلمانوں
کی عزتوں ، جانوں اور ان کے اموال کے کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے والوں
یعنی مملکت اسلامیہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے امین کا
تمسخر اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو ، آخر ایسا شخص بادشاہ
سلامت کو اتنا عزیز کیوں ہے؟ ایسے شخض سے کیسے خیر کی توقع کی جاسکتی ہے ۔
؟ کیا امت مسلمہ ایک اور ابن علقمی کی منتظر ہے ؟ جس بدبحت نے پوری کی پوری
خلافت مسلمانوں کے سروں کی کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے وحشی درندے ہلاکو
کے گھوڑوں کے سموں کے نیچے کچل دی ۔ اور پھر خود ایک انتہائی عبرت ناک موت
سے ہمکنار ہوا ۔تاریخ کے اوراق اس واقعہ کی گواہ ہے کہ جب ایک مست گھوڑا
غدار ان اسلام کو اپنے سموں سے کچل رہا تھا تو اس وقت اسی ہلاکو نے تاریخ
ساز جملہ کہا تھا جو رہتی دنیا تک تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ۔ جی ہاں تب اس
نے کہا کہ ’’ جو شخص اپنی قوم کا وفادار نہ رہ سکا وہ میرے ساتھ وفاداری
کیسے کرے گا ‘‘؟ ۔انتہائی معذرت کے ساتھ ، کیا اب ایک اور ابن علقمی کے
بھیانک انجام بننے کا انتظار کیا جارہا ہے ؟ راقم کے خیال میں اب بدترین
قاتل مودی اور وحشی درندے ہلاکو کے مابین موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔
محترم مسٹر شریف! اب آپ قوم سے بھی زیادہ محبوب بت پرست اس ہندو کے بارے
میں کیا رائے رکھتے ہے ؟ جس نے بھارتی بندر کی گرفتاری کے فوری بعد جی ہاں
، بھارتی نیشنل سیکورٹی کے سابق ڈپٹی ایڈوائزر ستیش چندرا ، نے ایک معروف
انگریزی بھارتی جریدے کے تازہ شمارے میں لکھا ہے ’’ بھارت کو چاہیے کہ وہ
افغانستان میں اپنے دوستوں کے تعاون سے بلوچستان میں دراندازی کرتے ہوئے
بلوچ علیحدگی پسندوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے فساد کی آگ بھڑکتا رہے ‘‘ ۔
محترم شریف صاحب چانکیہ کے پیروکاروں کی سوچ کو آپ کس طرح بدل سکتے ہو جن
کے انگھ انگھ میں نظریہ پاکستان ( لاالٰہ الا اﷲ امحمد رسول اﷲ، ﷺ) کی
دشمنی کا آلاؤ دھک رہا ہے ۔ کیا اآپ قران کے اس واضح پیغام کو بھول گے ہیں
کہ ’’ اسلام کا سب سے بڑا دشمن یہود اور مشرکین ہیں ‘‘ ۔ اور ہندو اس دور
کا سب ے بڑا اور بدترین مشرک ہے ۔ کوئی مانے یا مانے ، بھارت نے پاک دشمنی
میں تمام کی تما م اخلاقی حدوں کو کراس کر لیا ہے اور اب کمپرو مائز کی
کوئی گنجائش نہیں رہی ۔ |