پنجاب میں شادی و بیاہ کی تقریبات کا ترمیی بل
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
سماجی رسوم رواج کبھی معاشرئے کے یے ٹھنڈی
ہوا کا جھونکا ہوا کرتے تھے۔ لیکن اِس سادگی اور محبت کے ایام کو نہ جانے
کس کی نظر لگ گئی کہ ہر طرح کی تقریبات جو بھی معاشرئے میں میل جول کا باعث
تھیں اُن میں نمود نمائش اور ہوس لالچ نے گھر کر لیا۔پاکستان جو کہ گزشتہ
دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔معاشی ابتری کے شکار اِس ملک کے رہنے
والوں کو انٹرنیٹ پر سو شل میڈیا اور موبائل فون نے اِس طرح جکڑا ہے۔کہ
قناعت جیسی عظیم روایات کی حامل مسلمان قوم بھی ہوس پرستی کی راہ پر چل
نکلی ہے۔ پرائیوٹ چینلز کی بہتات نے انسان کو اکنامک اورینٹیڈ پروڈکٹ بنا
چھوڑا ہے جس سے انسان کی زندگی سے محبت خلوص وفا کے جذبے ختم ہوگئے ہیں اور
بس دولت جھوٹی آن بان میں انسان کو مصروف کردیا گیا ہے تاکہ وہ معاشی
سرگرمیوں کے ایک عامل کے طور پر کولہو کا بیل بنا رہے۔شادی بیاہ کی تقریبات
کبھی ہمارئے معاشرئے میں خوشیاں لاتی تھیں لوگ کئی کئی دن شادی والے گھر
میں مہمان بنتے۔ آپس میں گپ شپ ہوتی۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال نے
اپنے ہی گھر میں موجود افراد ایک دوسرئے کے لیے اجنبی بن گئے ہیں۔ اِن
حالات میں شادیاں صرف نمود نمائش تک محدود رہ گئی ہیں اور اِس کی وجہ سے
معاشرئے میں محبت اور خلوص وفا کے دائرئے جو پھیلتے تھے وہ سمٹ گئے
ہیں۔پنجاب حکومت پولیس اور سرکاری محکمہ جات کو لگام دینے میں ناکام ہوچکی
ہے۔ اِس لیے ہر وہ قانون جس میں عوام الناس براہ راست متاثر ہوتے ہین اُس
قانون کی وجہ سے پولیس کے لیے کرپشن اور لوٹ مار کا ایک نیا درواز کھل جاتا
ہے اور یوں حرام کی کمائی میں اضافے کرکے اپنی قبر کو مزید بھاری کرنے میں
یہ اہلکار جُت جاتے ہیں۔پنجاب اسمبلی نے شادی بیاہ کی تقریبات کے ھوالے سے
جو نیا ترمیمی بل پاس کیا ہے۔ یقینی طور بہت ہی اچھا ہے۔اور اگر اِص پر
دینات دری سے عمل ہو تو معاشرئے کے پسے ہوئے طبقوں کو سکون کا سانس میسر
آسکتا ہے۔پنجاب اسمبلی نے شادی بیاہ کی تقریبات سے متعلق ترمیمی بل منظور
کر لیا۔ بل کے مطابق شادی بیاہ پر گھر کے اندر مہمانوں کو ایک سے زائد ڈشیں
کھلانے کی اجازت بھی ختم کر دی گئی۔ شادی کے موقع پر جہیز کی نمائش پر
پابندی ہو گی۔ گھر کے علاوہ گلی محلے میں چراغاں کرنے پر بھی پابندی ہو گی۔
خلاف ورزی پر ایک ماہ قید کی سزا ہو گی۔ اس کے علاوہ 50 ہزار سے 20 لاکھ
روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔ شادی بیاہ پر کھانوں اور فضول رسومات
میں دولت کی نمائش اور پیسے کے ضیاع کو روکنے کیلئے پیش کئے گئے بل کو کثرت
رائے سے منظور کر لیا گیا۔ شادی کی تقریبات میں گلی‘ سڑک‘ عوامی مقامات اور
کھلی جگہوں پر آرائشی روشنیاں لگانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔اونچی آواز
میں گانے بجانے پر بھی پابندی ہو گی۔ رسم نکاح‘ مایوں‘ مہندی‘ بارات اور
ولیمہ پر بھی مہمانوں کی تواضع کیلئے صرف ون ڈش ہی پیش کی جا سکے گی۔ بل
میں واضح طور پر تحریر ہے کہ تقریبات میں ان قواعد و ضوابط پر عمل کرنا
انتہائی ضروری ہے۔ رات دس بجے کے بعد گھروں میں بھی شادی کی تقریبات جاری
نہیں رکھی جاسکیں گی۔ کرائے کے فارم ہاوسز میں بھی رات گئے تک شادی کی
تقریبات پر پابندی ہو گی۔ علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی نے ترمیمی ویجیلینس
کمیٹیاں بل 2016 بھی منظور کر لیا۔ جس کے مطابق کمیٹیوں کے کنوینر ڈی سی او
ہونگے‘ کمیٹیوں کا مقصد گلی محلوں میں مشکوک افراد کی سرگرمیوں پر نظر
رکھنے کے نظام کو یقینی بنانا ہے۔ کمیٹی میں پولیس، سپیشل برانچ، انٹیلی
جنس کا نمائندہ، دو ارکان اسمبلی اور دو عام شہری شامل کئے جائیں گے۔ کمیٹی
یونین کونسل کی سطح پر مقامی ویجیلینس کمیٹی تشکیل دے گی۔ کمیٹی کا رکن
بننے والے فرد کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ سپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی مقامی
ویجیلینس کمیٹیوں کے ارکان کو ٹریننگ دے گی۔ کمیٹی یونین کونسل سطح پر اپنے
دائرہ اختیار میں مشکوک افراد کی موجودگی فرقہ واریت یا تخریب کاری کو ہوا
دینے والے عناصر کے بارے معلومات اکٹھا کرے گی۔ کمیٹی ممنوعہ اور غیر
قانونی تنظیموں کے چندہ اکٹھا کرنے، وال چاکنگ آڈیو ویڈیو ممنوعہ مواد
تقسیم کرنے کا بھی خیال رکھے گی۔ کمیٹی کے ذمہ رہائش پذیر کرائے داروں کی
معلومات اکٹھا کرنے کا کام بھی ہو گا۔ کمیٹی ارکان کو کسی قسم کا کوئی
معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔ مسودہ قانون شادی بیاہ تقریبات کی منظوری کے بعد
آرڈیننس شادی بیاہ تقریبات 2015ئمنسوخ ہو گیا۔ نئے قانون کے مطابق شادی
بیاہ کی تمام تقریبات 10 بجے رات ختم ہوجایا کریں گی۔ آتشیں اسلحہ سے ہوائی
فائرنگ، کریکر، آتشبازی چلانے پر پابندی ہو گی۔ شادی والے گھر کے علاوہ
چراغاں نہیں کیا جا سکے گا۔ مہمانوں کو صرف ون ڈش دی جا سکے گی جس میں ایک
سالن، چاول کی ڈش، سلاد، گرم اور ٹھنڈے مشروبات، روٹی، نان اور ایک سویٹ ڈش
شامل ہے۔ مسائل کے حل کے لیے آئے دن نئے نئے قوانین تو بنالیے جاتے ہین
لیکن اِن قوانیں پر عمل درآمد کروانی والی بیوروکریسی سفید ہاتھی کی شکل بن
چکی ہے۔ کتابوں میں لکھے قوانین اچھے دیکھائی دیتے ہیں۔لیکن خادم اعلیٰ
پنجاب میاں شھباز شریف سے پولیس سُدھر نہیں سکی۔ اِس لیے اِس نئے قانون سے
پولیس کو لوٹ مار کرنے کے کافی مواقع میسر آئیں۔ اِس حوالے خادم اعلیٰ کو
سوچنا چاہیے کہ قوانین تو بنا جارہے ہیں اِن کو لاگو کروانے کے لیے فرشتے
کہاں سے آئیں گے۔
|
|