یہ بَین ،یہ فغا ں،یہ آہ،یہ گہار، جموں
وکشمیر کے ہری پورہ، ہنڈواڑ ا کی اس ماں کی ہے ،جس کے اکلوتے بیٹے،
لعل،گلاب،چندا،چمیلی،گیندا،موراور گواسکر،کرکٹر نعیم قادر بھٹ کو انڈین
آرمی کی بے رحم سنگینوں نے سرعام بھون بھون ڈالا ․․․․․حالاں کہ اس نے کوئی
جرم نہیں کیاتھا اور نہ ہی اس پر ایکٹ لاگو تھے نیز نہ ہی وہ مفرور تھا کہ
’انتظامیہ یا افواج کے ہاتھوں آتے ہی اسے ماردیا جاتا․․‘وہ ایک سچا محب وطن
تھا اور ملک کے لیے کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا ․․․․․اس نے اپنی ماں سے کہا تھا․․․․․’ماں
!ایک دن دیکھنا !میں گواسکر بن کر دکھا ؤں گا․․․!!‘مگر وہ بدنصیب اپنے دل
کے ارمان میں دل میں ہی لے کر چلا گیا اور اس ماں ․․․․․اس کی آنکھوں کے
سامنے تو اب اندھیرے ہی اندھیرے ہیں،اس کی تو کاینات ہی لُٹ گئی اور
سربازار اس کی متاع عزیز چھن گئی ۔پتا نہیں اس کی زندگی میں اب، کب اجالا
آئے گا اور کب سحر پیدا ہوگی کچھ نہیں کہا جاسکتا ․․․․اگر اجالاآئے گا بھی
،سحر پیدا بھی ہوگی اور پو پھٹے گی بھی تو وہ خوشیوں کے بجائے غم لے کر آئے
گی اور نعیم کی ماں․․․․زندہ رہ کر بھی روزمرے گی اور ہر دن اس لاش سولی پر
لٹکے گی․․․․!
فوجی اہلکاروں کی جانب سے اسکولی طالبہ سے دست درازی کی مجرمانہ اورشرمناک
حرکت کے بعد کون ایسا غیرت مند ہو گا جو اس پر اپنے غم و غصے کا اظہار نہ
کرے گا ․․․ ․ ․ اگر ایسارد عمل نہیں ہوتاہے تو وہ قوم مردہ قرار دی جاتی ہے
․․․․مگر جموں و کشمیر کی قوم زندہ ہے ․․․․وہ ان حالات میں بھی زندہ ہے جب
چاروں طرف سے سنگینوں نے اس کا گھیرا ؤ اور محاصرہ کررکھا ہے․․․․․․ کشمیر ی
قوم نے اپنی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق و انصاف کے لیے ریلی نکالی
اور فوج کی بے رحم آتش بازی ان سے زندگی کی چھین لے گئی ۔جیسے ملک میں
امرجنسی نافذ ہو یا انگریزی سرکارابھی تک یہاں موجود ہو․․․․․!
واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں پیش آنے والا یہ کوئی انو کھا اورنیا واقعہ
نہیں ہے ،بلکہ سچائی یہ ہے کہ آسام ،مدورائی،منی پور،میگھالیہ ،چھتیس گڑھ
تمل ناڈ،راجستھان اور دیگر آرمی متاثر علاقوں میں ہر دن یہ وارداتیں ہوتی
ہیں اور لڑکیاں اور خواتین گھروں سے باہر جانے سے ڈرتی ہیں ․․․․․مگر جموں و
کشمیر والا واقعہ اس لیے شدید تر اور گمبھیر ہے کہ اس نے پورے ملک کے
باضمیر اور حساس لوگوں کے دلوں میں شدید ترین ہل چل مچادی ․․․․اس نے سنجیدہ
اور بے فکر آنکھوں میں آنسو رواں کردیے․․․․․
میں جب یہ تحریر سپردقرطاس کررہا ہوں ․․․․ مرے لیپ ٹاپ کے وی ایل سی میڈیا
پلئیر کے بیک گراؤنڈ سے نعیم قادر بھٹ کی ماں کی آواز میرے کانوں میں آرہی
ہے ، جس میں وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہیں ․․․․وہ بہت کچھ کہنا چاہتی
ہیں ․․․․․مگر الفاظ ان کی زبان پر آآکر ٹوٹ رہے ہیں ․․․․آس پاس کی عورتیں
انھیں تسلیاں دے رہی ہیں اور صبرو ہمت کی تلقین کررہی ہیں مگر ․․․․․وہ بس
ایک ہی گہار لگا رہی ہیں․․․․․مجھے میرا گواسکر لوٹا دو․․․․مجھے میرا گواسکر
لو ٹادو․․․․․ہٹ جاؤ وہ آرہا ہے ․․․․ہنستا ہوا کھلتا ہوا ․․․․ارے کہا ں گیا
․․․․ارے ․․․․ارے ․․․․اور پھر دھاڑیں ․․․․رونا دھونا ․․․․․!
خدا معلوم ،میں یہ سطور کیسے لکھ پار ہوں ․․․․میرا دل پھٹ کیوں نہیں رہا
اور میرے ہاتھ ٹوٹ کیوں نہیں جارہے ․․․․․ایک طرف ایک مظلوم ماں کی آہ و
فغاں ہے اور دوسری طرف میں اس کی بے بسی کی داستان بیان کررہا ہوں ․․․․مگر
یہ میری ذمے داری ہے ،ایک کالمسٹ کے ناتے، کہ میں ساری دنیا کو انڈین آرمی
کی گھناؤنی اور کالی کرتوت بتاؤں ․․․․جموں و کشمیر میں ان کے سیاہ کارناموں
سے پردہ اٹھاؤں اور ساری دنیا کو وہ حقیقت بتاؤں جو انڈین آرمی اور وزارت
دفاع کبھی کسی کو نہیں بتاتی․․․․․!
میرے سامنے جموں و کشمیر کے لیڈنگ انگلش ڈیلی’گریٹر کشمیر ‘کا شمارارکھا ہے
اس کے علاوہ ٹائمز آف انڈیا،انڈین ایکس پریس وغیرہ دیگر اخبارات بھی موجود
ہیں مگرمجال ہے جوسوائے جی کے ،کے کسی بھی اخبار نے اس خبر کو شائع کیا
ہو․․․․․پتا نہیں کیوں ․․․․؟مگر مجھے ایک ضرور صاف طور پر محسوس ہوتی ہے کہ
ان اخبارات کا مشن اب صحافت نہیں بلکہ جی حضوری بن کر رہ گیا ہے۔حقیقت
بیانی نہیں بلکہ سچائیوں سے چشم پوشی ہو کر رہ گیا ہے۔انڈین آرمی کے سیاہ
کارناموں کو چھپانا اور جموں و کشمیر کو بھیڑیوں کی چراگاہ بنتے دیکھنا ان
کا مقصد ہے․․․․یہ کتنے افسوس کی بات ہے اورقابل مذمت بھی کہ اب صحافت جانب
دار ہو گئی اور حقیقتوں کو چھپانے والی بھی ․․․․!!
اس بھی زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کا صدر
ایوارڈ ڈسٹری بیوٹر،جہاں کا پارلیمانی اپوزیشن ،عوام کے جذبات سے کھلواڑ
کرنے والا ،جہاں وزیر اعظم،ملک کے بجائے باہر کی دنیا کا وزیٹر ،جہاں کے
سیاسی لیڈران ملک بھر میں آگے لگانے والے ،جہاں کے امیر ،غریبوں کو زندہ
نگل جانے والے اور کروڑوں کا گھوٹالہ کرکے ملک سے بھاگ جانے والے․․․․جہاں
کی فوج ،راہ چلتی لڑکیوں اور خواتین کی عصمت دری کرنے والی ․․․․جہاں کے
عوام، انتہائی بھولے بھالے اور جہاں کی فضا میں انسانی ہمدردی کے بجائے زہر
گھلا ہوا ہے․․․․․․ایسے حالات میں کوئی جیے تو کس طرح جیے اورترقی کرے تو
کیوں کر کرے․․․․!!
میرا کلیجہ پھٹ رہا ہے اور آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے ․․․․سینہ دھونکنی کی
طرح پھول پچک رہا ہے اور اعصاب پر لرزا طاری ہے ․․․․مجھے ہندوستانی فوج سے
نفرت ہوتی جاری ہے اور حکومت سے بد ظنی ․․․․کشمیر سے ہمدردی اور ہندوستان
سے دشمنی ․․․․میں یہ کرنے پر مجبور ہوں اور معذور بھی ․․․․اس لیے کہ میں
چاہے کتنی ہی کوشش کرلوں ․․․ان واقعات کا عادی نہیں بن سکتا حالاں کہ میں
جموں و کشمیر سے ہزارو ں کلو میٹر نئی دہلی میں بیٹھ کر یہ سطورلکھ رہا ہوں
مگر مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے ․․․کہ جیسے یہ میرے سامنے ہو رہا ہو اور میں
بے بس ہوں ․․․․کشمیر سے میرا کوئی رشتہ نہیں اور نہ میرے آباؤ اجداد وہاں
رہے ․․․نہ میں انوپم کھیر کی طرح پنڈت ہوں اور نہ کچھ اور! مگر اس کا مطلب
یہ ہرگز نہیں کہ میں ان مظلوموں کے لیے روؤوں بھی نہیں ،گاؤں بھی نہیں
․․․․لکھوں بھی نہیں اور ان کے دکھ کواپنا دکھ نہ سمجھوں ․․․․میں ضرور ان کے
دکھ کو اپنا دکھ سمجھوں گا ․․․․ان کے غم کو اپنا غم جانوں گا اور ان کے
پریشانیاں میری پریشانیاں ہیں ․․․․
میں اس ٹوٹی پھوٹی تحریر کے ذریعے بالخصوص کشمیر میں تعینات انڈین آرمی کی
پر زور الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور حکومت ہند سے مطالبا بھی کہ جلد ازجلد
ان علاقوں کو آرمی فری کر دیا جائے ․․․․․ورنہ یہ خون شہیداں رنگ لائے گا
اور نئی دہلی پر قیامت ٹو ٹ پڑیں گی․․․․حشر بپا ہوجائے گا اور مظلوموں کی
آہیں عرش الٰہی سے رحم لے کر اس کی تمام شان و شوکت کو بھسم کر دیں گی․․․․․
اب نعیم قادر کی ماں کی آواز دبتی جارہی ہے ․․․․اس کی سانسیں ٹوٹ رہی ہیں
مگر اتنا تو صاف سنائی دے رہا ہے․․․․․’مجھے میرا گواسکر لوٹادو․․․․․مجھے
میرا گواسکر لوٹا دو․․․․․مجھے میرا گواسکرلوٹا دو․․․․․!‘
٭٭٭
احساس
میرا کلیجہ پھٹ رہا ہے اور آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے ․․․․سینہ دھونکنی کی
طرح پھول پچک رہا ہے اور اعصاب پر لرزا طاری ہے ․․․․مجھے ہندوستانی فوج سے
نفرت ہوتی جاری ہے اور حکومت سے بد ظنی ․․․․کشمیر سے ہمدردی اور ہندوستان
سے دشمنی ․․․․میں یہ کرنے پر مجبور ہوں اور معذور بھی ․․․․اس لیے کہ میں
چاہے کتنی ہی کوشش کرلوں ․․․ان واقعات کا عادی نہیں بن سکتا حالاں کہ میں
جموں و کشمیر سے ہزارو ں کلو میٹر نئی دہلی میں بیٹھ کر یہ سطورلکھ رہا ہوں
مگر مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے ․․․کہ جیسے یہ میرے سامنے ہو رہا ہو اور میں
بے بس ہوں ․․․․کشمیر سے میرا کوئی رشتہ نہیں اور نہ میرے آباؤ اجداد وہاں
رہے ․․․نہ میں انوپم کھیر کی طرح پنڈت ہوں اور نہ کچھ اور! مگر اس کا مطلب
یہ ہرگز نہیں کہ میں ان مظلوموں کے لیے روؤوں بھی نہیں ،گاؤں بھی نہیں
․․․․لکھوں بھی نہیں اور ان کے دکھ کواپنا دکھ نہ سمجھوں ․․․․میں ضرور ان کے
دکھ کو اپنا دکھ سمجھوں گا ․․․․ان کے غم کو اپنا غم جانوں گا اور ان کے
پریشانیاں میری پریشانیاں ہیں ․․․․ |