لفظ برین ڈرین کا اصطلاح 1960 میں اس وقت
شروع ہوا جب بہت سارے ہنر منداور نوجوان طبقہ ترقی پزیر ملکوں سے ترقی
یافتہ ملکوں کی طرف بہتر روزگار اور معیاری تعلیم کے حصو ل کے لئے منتقل
ہونا شروع ہوئے۔ جس کی وجہ سے ترقی پذیرملکوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا
پڑا۔مگر اب بھی یہ مسئلہ غریب اور کم ترقی یافتہ ملکوں کے سر سے ہٹنے کا
نام نہیں لے رہے ہیں۔البتہ بہت سارے ممالک اس بیماری کو سد باب کرنے میں
کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں ۔ تاریخ جھانکنے سے بہت سے ایسے ممالک کے بارے
میں علم ہوتا ہے جنہیں کئی امتحان اور مسائل کا سامنا پڑنے کے باوجود ان
ملکوں سے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد کی ہجرت کی تعداد نہ ہونے کی
مانندہوتی ہے ۔ کیونکہ ان محب وطن باشندوں کو اس بات کا ضرور علم تھا کہ
ملک کو درپیش مسائل اور مشکلات سے نکالنے کے لئے ایسے افراد کا ہوناناگزیر
تھا۔ایسے ملکوں میں جاپان ، انگلینڈ، جرمنی ، اور فرانس جیسے ترقی یافتہ
ممالک زیر بحث آتے ہیں۔ اور یہ ان کی ہمیشہ سے صفت رہی ہیں کہ وہ کبھی بھی
غیروں کی تہذیب کو اپنے تہذیب میں املغم ہونے نہیں دیا۔ اس کے بر عکس وطن
عزیز میں برین ڈرین کی تناسب سالہا سال بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ملک میں بے
شمار قدرتی انعامات اور انسانی زرائع موجود ہونے کے باوجود ہماری حکومت ان
سے اب تک فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔ ملکی زرائعوں کو پس پشت ڈال کر غیروں
کاسہارا لینے کی عادی ہو چکی ہے۔آزادی کے وقت ملک میں ہجرت کرکے آنے والوں
کی تعداد 73 لاکھ سے بھی زائد تھے مگر ان سب کے امیدوں میں بہتر کل ، معاشی
خوشحالی ، مساویانہ سلوک اور یکساں مواقع کے حصول وغیر ہ موجود تھے۔ مگر آج
67 سال گزرنے کے باوجود یہ ملک عوام کی ان امیدوں پر اترنے سے قاصر ہے۔ اور
آج ان کی امیدیں بیرونی ملکوں سے جڑے جا رہے ہیں۔لوگوں کو ملک میں معاشی
خوشحالی ، مساویانہ سلوک اور بہتر کل کی امید دور دور تک نظر نہیں آتا۔جس
کی وجہ سے ہر سال ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد دوسرے ملکوں
میں ہجرت کر رہے ہیں۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہرفرد کی بیرون ملک
منتقلی کی وجہ یکساں نہیں ہوتی۔ایسے لوگ جن کے پاس بہتر تعلیم اورہنر نہیں
ہوتی وہ زریعہ معاش کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنے گھر
والوں کی بہتر کفالت کرسکے۔اور ساتھ ساتھ یہی افراد ملک کی معیشت کا سہار
بھی بن جاتے ہیں۔ مگرہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد کے بیرون ملک منتقل
ہونے سے نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں
ملک پیچھے رہ جاتی ہے۔کیونکہ جس شخض کے تعلیم پر خطیر رقم بیرون ملک منتقل
ہونے کے باوجود وہی شخص اپنی علم و ہنر وطن پر نچھاورکرنے کے بجائے دوسرے
ملکوں میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے ۔اور وہ اُن ملکوں میں گھر
بسانے کے ساتھ ساتھ اپنے کمائی ہوئی رقوم کو ملک میں بیجنے سے بھی قاصر
رہتے ہیں۔اور ملک معاشی طور پر کمزور اور ہنر مند افرادی قوت سے محروم رہ
جاتی ہے ۔ جس سے ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں ماہرین کی
کمی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ہمارے باغ اس وقت تک آباد نہیں ہو سکتا جب تک ہم
اپنے باغ سے پھولوں کا اجاڑنا بند نہیں کرتا ۔ہمیں نہ صرف جدید علوم میں
میں ترقی کی ضرورت ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی بگاڑکو بھی سمبھالنے والوں کی
ضرورت ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے
افرادملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم
اپنے چمکتے ستاروں سے دوسرے کا آسمان کب تک روشن کرتے رہیں گے ؟ برین ڈرین
کا ایک اہم اور بنیادی وجہ ناقص نظام تعلیم بھی ہے ۔ ملک میں ٹیکنالوجی اور
میڈیکل کے شعبے میں جدیدتعلیم ، تحقیقاتی ادارے اور ان اداروں میں ماہر
اساتذہ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبا بیرون ملک
اعلی تعلیم کے حصول کیلئے ہجرت کرتے ہیں۔جن میں سے 80 فیصد طلبا اُن ممالک
میں اپنا روزگار تلاش کرتے ہیں۔اور اپنی ہنر اور فن کو غیروں کے بازار میں
نیلام کرتے ہیں۔ اگر اسی طرح ہماری حکومت اپنی ہنرمندافرادی قوتوں کو کھونے
کے ساتھ ساتھ ملکی خزانے پر پڑے بوجھ کم کرنے میں ناکام رہے تو آنے والے
وقتوں میں یہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔یہ بات عیاں ہے کہ ملک کا تعلیم یافتہ
اور ہنر مندطبقہ ہی ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے ۔اور یہی لوگ ہی سب سے قیمتی
سرمایا ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم اپنے پیسوں اور ہنر سے دوسرے ملکوں کے
ادارے مضبوط کرنے کی تگ و دو میں مگن ہے اورملک سے سالانہ اربوں روپے
یونیورسیٹیوں کے فیسوں اور دیگر اخراجات کے طور پر بیرونی ملک بیجھتے ہیں
جو کہ دوسروں کے خزانے بھرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اور ہم ان سرمایوں
سے اپنے ملک کی مستقبل بدلنے کا زرا بھی فکر نہیں رکھتا۔ اگر چہ ملک میں
قدرتی اور دیگر زرایع وافر مقدار میں موجود ہے مگر جب تک ا ن کو استعمال
میں لانے والا نہ ہو سب بنجر زمین کے مانند ہوگا۔ افسوس اس بات کی ہے کہ
ہمارے حکمران ان مسائل کو سنجیدہ لینے کی بجائے خواب خرگوش سوئے ہوئے ہیں۔
اگر یہی صورت حال رہتے ہوئے ان لوگوں کو وطن کی خدمت کرنے کی ٹھوس وجہ نہ
دی جائے تو اس آشیانے کا قسمت کبھی نہیں بدلے گا۔ جہاں تک ذکر اغیار کی
کریں تو بھارت ، بنگلہ دیش ، سرلنکا جیسے ترقی پذیر ممالک پہلے سے بہتر حال
میں ہیں وہاں وطن عزیز کی حالت بتدریج مایوسی کی طرف گامزن ہے۔1984کی ایک
سروے کے مطابق صرف 17فیصد پاکستانی عوام بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے تھے
جو کہ آج ایسے لوگوں کی شناخت بڑھ کر 38فیصد سے تجاوز کر گیا ہے۔جس سے یہ
بات عیاں ہو جاتی ہیں کہ ملک ابھی تک ترقی کی طرف رواں نہیں ہوئی ہے ۔ان
مسائل کو روکنے کے لئے ملکی نظام تعلیم میں بہتری ، جدید تحقیقاتی اداروں
کا قیام ، اور میرٹ کی بالادستی دور حاضر کی اولین ضرورت ہے ۔ تاکہ ملک کے
ہر ذہین اور قابل طلب علموں کو اپنے ملک میں ہی اعلی تعلیمی نظام اور بہتر
روزگار میسر ہو۔ کیونکہ یہی ماہر افراد ملک میں اپنی خدمات سر انجام دے کر
ملک کو ترقی کی طرف لے جانے کے ساتھ ساتھ ملکی خزانے سے نکلنے والے رقوم
میں بھی کمی لانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔لہذا ان تمام نفع نقصان کو مد
نظر رکھتے ہوئے حکومت وقت کو چاہیے کہ مستقبل میں بڑھتی ہوئی برین ڈرین کو
کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ۔ تاکہ مادر وطن کے
اہل دماغ کو اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کا رواج ختم ہوسکے ۔ |