صحافتی اقدار :(اطہر مسعود کے مضمون سے اقتباس)۔

صحافت ایک مقدس پیشہ ہے ۔صحافت وہ ہے جس کے قلم کی قرآن نے ــ․ن ولقلم و ما یسطرون کہہ کر قسم کھائی اور اس سے تعلیم دینے کی بات کی ہے ۔صحافت نہ کسی کو گالی دینے کا نام ہے نہ تعریفیں کرنے کا ۔ نہ بد تمیزی کا نہ چمچہ گیری کا ۔ نہ سوال کرتے وقت سوالی بننے کا ۔نہ سوال کو دست سوال بنانے کا ۔صحافت نام ہے مطالعے اور محنت کا نہ کہ جہالت اور کام چوری کا صحافت نام ہے سچ کو تسلیم کر لینے کا نہ انا پرستی ،ضد اور اپنی بات پر اڑے رہنے کا ۔صحافت نام تبصرے کا تجزیے کا نہیں ۔صحافت نہ کسی کے اشارے پر کسی کے خلاف مہم چلانے کا نہ کسی کے تعلقات کی بناء پر کسی کی تعریفیں کرنے کا ۔صحافت نام ہے خوداری اور خودی کا ،بلیک میلنگ یا بد اخلاقی کا نہیں ۔صحافت نام ہے کسر نفسی کا تکبر اور غرور کا نہیں ۔ صحافت نام ہے صحافت کا سیاست کا نہیں ، نہ اپنے سیاسی نظریات کے پرچار کا نہ دوسرے کے سیاسی نظریات سے بیزاری کا نہ اتنی چمچہ گیری کا کہ عوام مسترد کر دیں۔ صحافت نام ہے قربانی دینے کا نہ قربانی مانگنے کا اور آخری بات یہ کہ صحافت بحث کرنے کا ہٹ دھرمی کا نہیں ۔ صحافت نام ہے دلیل دینے کا فیصلہ کرنے کا نہیں۔جو لوگ گھر سے یہ سوچ کر نکلتے ہیں کہ وہ صحافت کی وجہ سے ان کی صدر ، وزیراعظم ، چیف جسٹس ، چیف سیکٹری ، آئی جی یا اپنی اوقات کے مطابق اپنے علاقے کے مجسٹریٹ یا تھا نے دار تک رسائی ہو جاے گی وہ کس طرح کی صحافت کریں گے اس کا اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ۔۔ اور معذرت کے اس وقت ہماری صحافت کے حالات کم و بیش ایسے ہی ہیں ۔ اگر ہمارے حکمران پروٹوکول اور مراعات کے مارے ہوے ہیں تو کچھ صحافیوں کو بھی یہ مرض لا حق ہو چکا ہے ۔ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے کیمرے یا کے ان کی شکل کو دیکھ کر مظاہرین کا پتھر رک جائے اور ان کا قلم دیکھ کر پولیس کی لاٹھی کو فالج ہو جائے جو ظاہر ہے ممکن نہیں اور پھر اسی بات پر احتجاجی مظاہرے اور بیان بازی شروع کر دی جاتی ہے ۔ کیا دنیا کی صحافت میں کہیں یہ ممکن ہے کہ کوئی اخبار نویس کسی بھی وجہ سے تقریب ، کسی پریس کانفرنس یا کسی واقعہ ، کسی اسمبلی یا کسی شخص کا بائکاٹ کردے۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ عراق یا افغانستان کی جنگ میں قتل ہونے والے صحافی کی کی موت پر اس کے ساتھیوں نے محاذ پر جانے سے انکا ر کر دیا ہو ۔ اصول کی بات تو یہ ہے کہ اس کے اندر کا مزاحمت کار اسے کام کے بایئکاٹ پر نہیں کام میں جتے رہنے پر اکسا تا ہے ، دوسرے کو قربان کرنے کی بجائے قربانی دینے پر آمادہ کرتا ہے ۔ عوام کی محبت جہاں اسے باغی بناتی ہے وہا ں اسے خطروں اور نقصانات سے سے بے پرواہ ہونے کے لیے تیار کردیتی ہے ۔

شورش کاشمیری نے محض حکمرانی کے استعارہ کے طور پر پرویز کا لفظ استعمال کیا انہیں کیا پتہ تھا کہ ایک وقت میں پرویز مشرف نامی کوئی جر نیل ہمارا حکمران بھی ہوگا ۔ اس سے بھت پہلے قیام پاکستان کی تحریک میں مولانا محمد علی جوہر مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان کی خدمات کو کون بھول سکتا ہے کہ ان سب لوگوں نے ذات کی قربانی دے کر حریت فکر اور حریت قلم کا پرچم بلند رکھا ۔ کیا ہم ان لوگوں کی صحافت سے اپنی صحافت کا کوئی موازنہ کر سکتے ہیں ؟یقینا نہیں کہ یہ سب آزاد ذہن ، آذاد سوچ اور آذاد ضمیر لوگ تھے جبکہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور اپنی ننھی منی اناؤ ں کے اسیر ۔ لیکن اک بات جو ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ وہ سارے بڑے صحافی بنیادی طور پر سیاستدان تھے ، لیکن موجودہ صحافیوں کی طرح اپنی سیاست کو خفیہ نہیں رکھتے تھے اور یہی موجودہ اور اس سیاست میں فرق ہے ۔․․․․ صحافت پیغمبری پیشہ تو نہیں لیکن اس کا ایک رخ ضرور ہے اور اسے اپنانے والوں کے لیے پیغمبری صفات سے متصف ہونا ضروری نہ ہو تب بھی اس میں بنیا دی بات اپنی ذات اور مفادات کی نفی ہے کہ جب ایسا ہو جائے گا تو پھر ہم بڑے فخر سے کہہ سکیں گے ؂
سچ کہہ کے کسی دور میں پچھتا ئے نہیں ہم
کر وار پہ اپنے کبھی شرماے نہیں ہم

پیشے سارے ہی مقدس ہوتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ اپنے دائر ے میں رہیں اور یوں بھی صحافیوں کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ ہمارا پیشہ مقدس ضرور ہے مقدس ترین نہیں کیونکہ مقدس ترین پیشہ بحرحال سیاست کا ہے ۔ گندے لوگ ہر شعبے میں ہو سکتے ہیں کیا ہماری عدلیہ ، ہمارے جرنیل ،ہماری بیورو کریسی اور خود ہمارے صحافی پاک صاف ہیں ؟کیا ان طبقوں میں کسی کے پاس جعلی ڈگری نہیں ہے ؟ جس طرح گندے صحافی ہو سکتے ہیں اسی طرح گندے سیاستدان بھی ہو سکتے ہیں تا ہم اس سے پیشوں کے تقدس پر کوئی حرف نہیں آتا اور نہ ہی آنا چاہیے ۔ رہنما ی کا حق صرف سیاست دانو ں کا ہے اور کسی کا نہیں ، رہے صحافی تو وہ مصلح نہیں ہوتے ان کا کام صرف اطلاع دینا اور قوم کو باخبر رکھنا ہے ۔ ستائش کی تمنا یا صلے کی پرواہ کاکام کرنے والا اچھا کلرک تو ہو سکتا ہے اچھا صحافی نہیں اور رہے حکمران تو ان کو صحافیوں سے ڈرنا نہیں چاہیے کہ یہ بے چارے محض ایک روشن مستقبل کی آس لگائے قوم کی خواہشوں کو زبان دیتے ہیں اور یہی کام سیاستدانوں کا ہے ۔
Muhammad Zulfiqar
About the Author: Muhammad Zulfiqar Read More Articles by Muhammad Zulfiqar: 20 Articles with 17241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.