عطائے رسول سرکار غریب نواز قدس سرہ : ہندوستان کے طغرائے افتخار
(Ata Ur Rehman Noori, India)
ہند میں اسلام کی باغ وبہار حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی دعوت وتبلیغ کا ثمرہ |
|
اِک اِک نفس میں بُوے وطن ہے بسی
ہوئی
نبضِ وطن میں خون کی صورت رواں ہیں ہم
ہندوستان پرکئی مجاہدین نے فوج کشی کی مگر غزوۂ ہندکایہ ذوق محض کشور کشائی
کے جذبے سے نہیں تھا بلکہ انہوں نے جہادِ ہندکے لیے پیش رفت ارشاد نبوی کی
تکمیل کے لیے کی تھی ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے دوگروہوں کو اﷲ
تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھاہے۔ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد
کرے گااور دوسرا وہ گروہ جو حضرت ابن مریم کا ساتھ دے گا۔(سلطان الہند
خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ،ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)مذکورہ روایتوں سے
قارئین کرام پر ہند وستان کی اہمیت یقیناواضح ہوچکی ہوگی،بھلا وہ ملک جہاں
سب سے پہلے آپ ﷺ کا نور جلوہ گر ہوا،وہ ملک جہاں پہلے نبی اتارے گئے ہواور
جس سے حضور ﷺ اس قدر محبت کرتے ہو وہ مقدس سرزمین اسلام کی دعوت وتبلیغ سے
کیسے محروم رہ سکتی تھی،یوں تو دور رسالت ہی میں یہاں اسلام کی شمع روشن ہو
چکی تھی۔مسلم فاتحین وسلاطین نے طاقت وقوت کے زور پر ہندوستان میں شمع
اسلام کو روشن کیا۔تاج وتخت کے مالک بنے اور شاہانہ طمطراق کے جلوے دکھا
کررخصت ہوگئے اور ان کے ساتھ ہی شمع اسلام ٹمٹماکر ماند پڑگئی،مگر رسول اﷲﷺ
کی نگاہِ کرم نے ہند کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہند میں علم حدیث کو عام
کرنے کے لیے کبھی حضور ـﷺ نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کو
ہندبھیجاتو کبھی سرکار معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کو اسلامی بنیادوں کو
مستحکم وتقویت فراہم کرنے کے لیے بھیجا ،اسی لیے آپ کونائب النبی، عطائے
رسول اور ہندالولی کہاں جاتا ہے۔درحقیقت قدرت نے ہندوستان کی فتح اور یہاں
اسلامی اقتدار کاقیام ایسے فرزند توحید کے نام لکھ دیاتھاجس نے
ﷲیت،دربانیت،عشق خدا،ذوق اتباع سنت ، حب رسول ،دل سوزی ،بلند ہمتی،تازگی
فکر،نور بصیرت،فراست ایمانی،حقیقت پسندی،اعتقاد صحیح،عمل صالح،وسعت قلب
ونظراور اخلاص وایثار کی متاع گراں بہاسے شمع اسلام کو بقاکی تابندگی
عطاکی۔جسے دنیا قطب الاقطاب،معین الملۃ والحق،خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ
معین الدین چشتی اجمیری کے نام سے جانتی ہے۔
اﷲ پاک نے سلطان الہند ،عطائے رسول حضرت خواجہ غریب نواز چشتی اجمیری قدس
سرہ (۶۳۳/۵۳۴ھ) کو وہ عزت وعظمت اور رفعت وبلندی سے سرفراز کیا کہ اہل
تاریخ وسیر کی تو بات دیگر ہے اربابِ سیاست وحکومت بھی غریب نواز کی حکومت
وسلطنت کوکل بھی تسلیم کرتے تھے اور آج بھی تسلیم کرتے ہیں۔حضور خواجہ غریب
نواز ہندوستان کیاآئے، بہار آگئی ، اسلام کی رونق وروشنی نے
کفروضلالت،اورنفاق وجہالت سے لوگوں کے قلوب کو مجلیٰ ومصفیٰ کیا۔آج دین کی
جو باغ وبہار نظر آرہی ہے وہ حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ کی ہی تبلیغی
کاوشوں اور بے پناہ دینی مشقتوں کا ثمرہ ہے ،کیوں نہ ہوکہ خود ہمارے
آقاحضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دربار اقدس میں حاضری
کے وقت یہ بشارت سنائی ’’اے معین الدین !تو میرے دین کا معین ہے ،میں نے
تجھے ہندوستان کی ولایت عطاکی،وہاں کفروظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیرجا
،تیرے وجود سے ظلمت وکفر دور ہوگی اور اسلام کی رونق بڑھ جائے گی ‘‘۔ (سیرا
لاقطاب ،ص:۱۲۴)اسی طرح حج کے دوران کعبہ میں حضرت خواجہ یا د الٰہی میں
مشغول تھے تو آپ نے ایک غیبی آواز سنی ’’اے معین الدین !ہم تجھ سے خوش ہیں
،ہم نے تجھے بخش دیا جو کچھ چاہے مانگ عطاکروں ۔ (اہل سنت کی آواز،مارہرہ
شریف ،ص:۱۵۸)یہ تمام بشارتیں اور خوشخبریا ں حضور غریب نواز کی بارگاہ
الٰہی میں مقبولیت کی واضح اور روشن دلیلیں ہیں ،یہ حقیقت ہے کہ جو بندہ اﷲ
تعالیٰ کا ہوجاتا ہے ساری کائنات اس کے تابع ہوجاتی ہے۔خود خالق کائنات اس
بندہ کی مددواعانت فرماتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے : اگر تم دین خداکی
مددکروگے اﷲ تمہاری مددکرے گا ۔(سورہ محمد ،۴۷ /۷ ، کنزالایمان)
حقیقت یہ ہے کہ اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے اﷲ تعالیٰ کے دین کی
تبلیغ واشاعت ،اس کی عبادت وریاضت اور تقوی وطہارت کو اپنااوڑھنااور
بچھونابنالیاتوخداواندقدوس نے انہیں وہ عزت وعظمت عطافرمائی جو ہماری
نگاہوں کے سامنے ہے۔آج ہر ایک دکھ درد کا مارااولیائے کرام کے مزارات پر
حاضر ہو کر سلام نیازپیش کرتا ہے اور اپنے من کی مراد پاتا ہے ۔ اولیائے
کرام ہی دین کے سچے پاسبان وعلم بردار ہیں ،یہی گروہ فرمان باری تعالیٰ
’’وکونو امع الصدقین ‘‘کی سچی تفسیر ہے۔لہٰذا ان نفوس قدسیہ کی طرف ہمارا
قلبی لگا ؤ ہونا اس پر فتن دور میں نہایت ضروری ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز
نے ہندوستان میں آکر اسلام کو خوب پھیلایا ،اسلامی شریعت سے لوگوں کو آشنا
کیا ،ظلمت کدہ ٔہند کو دین مصطفے کے نور سے روشن کیا ،آپ نے اس تبلیغی مشن
کو ۴۵؍سالوں تک جاری رکھا ۔آپ کے دم قدم سے اسلامیات ودینیات کا خوب فروغ
ہوا،جسے تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔
غریب نوازہندوستان کیا تشریف لائے ،اسلام آیا ،ایمان کی بادبہاری۔چلی،محبت
واخوت، صداقت ودیانت،عدل وانصاف،مساوات وروادای کا نظام برپاہوا۔نہ تیراٹھا
نہ تلواراٹھی، نہ تو بت پرستی کی مذمت کی ، نہ تو بتوں اور بت خانوں کو
چھوانہ چھیڑا۔یہ تومحض ان کی نگاہ کیمیاگر کی کشش تھی ۔تشول برداروں کا
جتھا کا جتھا آیا ،جب نظر اٹھی ، سب اس نظر پرتاثیر کا اسیر ہوکر رہ گئے ۔
وہ ہندوستان جہاں بت پرستی عام تھی وہاں توحید پرستی عام سے عام ترہوگئی
۔پھر ایک دن وہ آیا ، غریب نوازہندوستان کا طغرائے افتخارقرارپائے ۔اب
حکمراں کوئی بھی ہو ،ان کی چوکھٹ پر جبیں سائی کرتا دکھائی دیا۔یہ نہ صرف
ہندوستان تک محدودتھا ،دنیاکے تاجوروں کا تانتابندھ گیا جو اس تاجدارہندکی
دیوڑھی جان ودل کا نذرانہ لئے حاضرآیا ۔ہندوستان میں مذہبی مقامات اور
مذہبی تہواروں کی کمی تو نہیں ،مگر مختلف قوموں کا اجتماع
امرا،رؤسا،وزراوحکمراں کی جو بھیڑ یہاں اکٹھی ہوتی ہے وہ کہیں اور نظر نہیں
آتی ۔
مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ کی دعوت وتبلیغ پر نَوّے لاکھ سے زیادہ
کفارومشرکین نے اسلام قبول کیا ۔یہ حضرت خواجہ کا ایساکارنامہ ہے کہ تاریخ
میں اس کی مثال نہیں ملتی۔آج ہندوستان میں ایمان واسلام کی جو بہار اور نور
نظر آرہاہے یہ سب حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی دعوت وتبلیغ ہی کا
ثمرہ ہے۔آپ نے تقریبا ۴۵سال تک سر زمین ہند پر دعوت توحید اور تبلیغ دین
فرمائی اور ظلمت کدہ ٔہند میں اسلام کا اُجالا پھیلایا۔ہمیں چاہئے کہ رسول
اکرمﷺ کی نگاہ خاص کے فیوض وبرکات کو حاصل کرتے ہوئے مقصد خواجہ پر عمل
کریں،دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیں۔بزرگان دین سے محبت کا تقاضہ بھی یہی
ہے کہ ان کے مشن کو عام کیا جائے۔اﷲ پاک ہمیں اسلاف کے دامن سے وابستہ ہونے
اور دینی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |
|