قارئین جس طرح امریکا کی دوستی
ہمیں کبھی راس نہیں آئی اور اس کے ہمیشہ منفی اثرات ہی سامنے آئے، عالمی
مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے دوستی کے نتائج بھی امریکا سے مختلف نہیں،
اور 52 سال قبل آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لئے اولین قرضے کی
منظوری سے لے کر موجودہ دور تک حکمرانوں نے تو شائد عارضی فوائد حاصل کئے
ہوں لیکن عوام نے اس دوستی سے کھویا ہی کھویا ہے، مہنگائی اس قدر ہو چکی کہ
حالات کسی بڑے انقلاب کی آمد کی خبر دے رہے ہیں۔
پاکستان نے اگرچہ آئی ایم ایف کو جولائی 1950 میں ہی جوائن کر لیا تھا تاہم
اس کے لئے پہلا دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کا سٹینڈ بائی لون ایوب دور میں
دسمبر1958 میں منظور ہوا، اور وہ بھی مقررہ تاریخ گزر جانے کے باعث جاری نہ
ہو سکا تھا۔ اس کے بعد 1965 میں 7کروڑ 35 لاکھ ڈالر کا دوسرا قرضہ منظور
ہوا، جس کی 3 کروڑ 75 لاکھ کی پہلی قسط مل سکی تھی۔ اس کے بعد جب بھی ملک
کو معمولی یا غیر معمولی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا، ہمارے حکمرانوں نے
آئی ایم ایف اور عالمی بنک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے دروازوں پر ہی
دستک دی۔ آج قرض لینا ہر حکومت کا کلچر بن چکا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
آئی ایم ایف اپنی شرائط میں اضافہ اور انہیں سخت تر کرتی چلی گئی جس سے
مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آج کنٹرول میں نہیں رہی۔ حکمرانوں کی
ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ بیرونی قرضے معاف ہو جائیں لیکن ایسا ہونے کے
بجائے ان میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور وہ بڑھتے بڑھتے 60 ارب ڈالر تک جا
پہنچے ہیں۔ آئی ایم ایف حکام اب یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ آئندہ پانچ
سالوں تک یہ قرضے 72 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر جائیں گے اور تب پاکستان کا
پیدا ہونے والا ہر بچہ 35 ہزار روپے کا مقروض ہوگا۔ تازہ بجٹ میں بھی در
حقیقت آئی ایم ایف کی شرائط کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے اور اگرچہ ویلیو ایڈڈ
ٹیکس اکتوبر تک مؤخر کردیا گیا ہے، لیکن بالآخر اس نے لاگو ہونا ہی ہے،
ورنہ عالمی ادارے سے اگلی قسط نہیں ملے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ویلیو
ایڈڈ ٹیکس تعلیم، صحت اور اشیائے خوردنی کے سوا تمام دیگر پراڈکٹس پر ان کی
تیاری کے ہر مرحلے میں لگے گا تو جن چیزوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا
ہے وہ از خود مہنگی ہو جائیں گی اور قیامت خیز مہنگائی عام لوگوں سے دو وقت
کی روٹی چھین کر انہیں محض ایک وقت کی روٹی کھانے پر مجبورکر دی گی۔ ویسے
بھی ملکی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو کسی کے دور حکومت میں بھی مہنگائی کنٹرول
میں نظر نہیں آتی۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور حکومت میں آٹا 20 پیسے فی
کلو گرام اور چینی 60 پیسے کلو تھی گھی اڑھائی روپے اور دال چنا صرف 25
پیسے فی کلو تھی چھوٹا گوشت سوا روپے کلو تھا اور پیٹرول کی قیمت صرف 15
پیسے فی لیٹر تھی۔ ایوب خان کے عہد میں آٹے کی قیمت 50 پیسے کلو ،چینی ایک
روپیہ 75 پیسے کلو، گھی 5 روپے، دال چنا ڈیڑھ روپے کلو اور گوشت 12 روپے
کلو، اور پیٹرول کی قیمت پونے تین روپے فی لیٹر تھی، اور آمدنی کے لحاظ سے
یہ قیمتں بہت زیادہ تھیں، ایوب خان کے زوال کا ایک سبب یہ مہنگائی بھی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آٹے کی قیمت 50 پیسے سے بڑھ کر ایک روپیہ کلو،
چینی 1.75 روپے سے بڑھ کر 6 روپے،گھی 5 روپے سے 9 روپے کلو، چنے کی دال
ڈیڑھ روپے سے اڑھائی روپے، گوشت بارہ روپے سے سولہ روپے اور پیٹرول کی قیمت
پونے تین روپے لیٹر سے بڑھ کر ساڑھے تین روپے تک پہنچ گئی۔ ضیاء دور میں
آٹا ایک سے اڑھائی روپے کلو، چینی چھ سے نو روپے، گھی نو سے پندرہ، چنے کی
دال اڑھائی سے نو روپے تک، گوشت سولہ سے چالیس روپے اور پیٹرول کی قیمت
ساڑھے تین روپے لیٹر سے بڑھ کر آٹھ روپے لٹیر تک پہنچ گئی۔ بےنظیر بھٹو کے
پہلے دور میں آٹا 3.25 روپے کلو، چینی نو سے دس روپے کلو، گھی پندرہ سے بیس
روپے، دال نو سے دس، گوشت چالیس سے پچاس اور پیٹرول کی قیمت 12 روپے لیٹر
تک پہنچ گئی تھی۔ 1990 میں نواز شریف آئے اور ان کے دور میں چینی دس سے
تیرہ روپے، گھی بیس سے بتیس، چنے کی دال دس سے اٹھارہ، گوشت پچاس سے اسی
روپے اور پیٹرول کی قیمت بارہ سے چودہ روپے فی لیٹر ہوئی۔ ان کے دور میں
بیرونی قرضوں کا حجم کم ہونے کے بجائے بڑھ کر 15.5 ارب ڈالر ہو گیا تھا۔
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں آٹا آٹھ روپے کلو، چینی اکیس روپے، دال
اٹھارہ سے بیس روپے، اور پیٹرول کی قیمت 27 روپے فی لیٹر تک پہنچا دی گئی۔
مشرف دور میں آٹا 8 سے 17 روپے کلو، چینی 21 سے 30 روپے، تیل اور گھی48
سے135 روپے، چنے کی دال 20 سے 42 روپے، گوشت 110 سے 260 روپے اور پیٹرول جو
27 روپے لیٹر تھا،62روپے پر آگیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں عام اشیا کی
قیمتیں کہاں پہنچ چکی ہیں اس کے بارے میں اسمبلیوں کے ارکان، وزراء، وزرائے
اعلیٰ، صدر اور وزیر اعظم کے سوا سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ بجٹ ہو یا کوئی
اور اہم فیصلہ اہل اقتدار اور بااثر طبقات مل کر ہی کرتے ہیں اور ملکی
تاریخ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہیں عام لوگوں کے مسائل کا ادراک ہے نہ
انہیں حل کرنے کی خواہش۔ ان کی توجہ صرف اپنی دولت، آرام اور آسائشوں کی
طرف ہے اور جو بھی پالیسی بنائی جاتی ہے اس سے عوام الناس ہی متاثر ہوتے
ہیں۔ |