خودکشی عالم انسانی کو درپیش ایک
سنگین مسائل میں سے ہے جو دنیا کے سارے انسانوں کے لئے یکساں طور پر چیلنج
بنا ہوا ہے۔ دنیا میں خودکشی کی شرح روس میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس
کے بعد جاپان اور امریکہ کا نمبر ہے۔ جہاں کثیر تعداد میں خود کشی کی
واردات پیش آتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق نیویارک کے لوگ سب سے زیادہ
خودکشی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، فرانس، ناروے، سوئزرلینڈ جیسے ترقی
یافتہ ممالک میں سالانہ ایک لاکھ کی آبادی میں اوسطاً چالیس ہزار افراد
خودکشی کرتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ان دنوں ہندوستان اور پاکستان میں سب
سے زیادہ خودکشی وارداتیں ہورہی ہیں۔ لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟ خودکشی کے
وجوہات میں نمبر ایک پر بے روزگاری، گھریلو تشدد، محبت میں ناکامی، تعلیمی
دباؤ، باہمی تنازعات، کام میں نقصانات، فصلوں کی تباہی، ناخوشگوار شادیاں،
جہیز، جوانی کی غلطیاں اور نشہ آور اشیاء کا استعمال نمایاں ہیں۔ ایک سروے
کے مطابق اس ممالک میں ہونے والے جملہ خودکشی کے واقعات میں ۲۶ فیصد یعنی
۳۰ ہزار ۸۲ اموات خاندانی مسائل سے ہوئیں ہیں۔ صبح کو اخبار کھولئے تو
خودکشی کے دسیوں خبریں پڑھنے کو مل جائیں گی۔ خودکشی کا معاملہ دن بدن اس
قدر خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے کہ اب تو چھوٹے چھوٹے معاملات بھی
خودکشی کا سبب بنتا جارہا ہے۔ ماں باپ نے کسی بات پر اولاد کو ڈانٹا ڈپٹا
تو اولاد نے خودکشی کرلی۔ میاں -بیوی میں معمولی اَن بن ہوئی تو بیوی نے
اشتعال میں آکر خودکشی کا اقدام کر ڈالا۔ اس وقت تو اچھے خاصے دیندار
کہلانے والے افراد بھی ازدواجی زندگیوں میں زبردست حق تلفیوں کے شکار ہیں۔
ازدواجی زندگی اسی وقت تلخیوں سے پاک ہوسکتی ہے جب ہم ایک دوسرے کے حقوق کا
خیال رکھیں گے، خاندانی زندگی میں جب اسلامی اصولوں کے خلاف ورزی ہوتی ہے
تو اس صورت میں آپس میں تلخیاں بڑھ کر کبھی کبھی خطرناک تنازعات کی صورت
اختیار کر لیتی ہیں جس سے متاثر ہوکر لوگ خودکشی کا اقدام کر لیتے ہیں۔ جب
ایسی صورت پیدا ہونے لگے تو اس صورت میں اسلام جو قرابت داری اور حسن سلوک
کی تعلیم دیتا ہے اس پر عمل پیرا ہونا چاہئے تاکہ عورت اپنی ذمہ داری
نبھائے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور مرد اپنی ذمہ داری کا خیال کرتے
ہوئے اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ اسی طرح میاں بیوی میں اختلافات کی
صورت میں ان دونوں کے خاندان کے ذمہ داران آپس میں مل کر اسی مسئلے کا حل
نکالیں تاکہ ایسی بھیانک اقدام کی نوبت نہ آئے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔
خودکشی کی ایک وجہ عشق و معاشقہ اور لڑکے لڑکیوں کا آپس میں ناجائز اختلاط
ہے۔ فحاشی اور بے حیائی کے ماحول میں مخلوط تعلیم کے سبب لڑکے اور لڑکیاں
ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بعد میں جب اس میں کسی قسم کی
ناکامی ہوتی ہے تو خودکشی کر لیتے ہیں۔ اس کے لئے دونوں کی دینی تعلیم کی
سخت ضرورت ہے۔ بچوں کو مخلوط تعلیم سے بچایا جائے، فلم بینی اور موبائل سے
محفوظ رکھا جائے اور جب وہ شادی کی عمر کے ہوجائیں تو جلد از جلد شادی کر
دی جائے، اسی طرح ان تمام راستوں پر روک لگائی جائے جن سے نوجوانوں میں بے
راہ روی پیدا ہونے کا خدشہ ہو، اس طرح عالم انسانی کو درپیش اس سنگین مسئلے
کا حل نکل سکتا ہے۔
خودکشی جب ایمان و اسلام سے محروم افراد کرتے ہیں تو زیادہ تعجب نہیں ہوتا،
لیکن جب کوئی مسلمان جو آخرت کے دن اور ہر اچھی بری تقدیر کو خدا کی طرف سے
ہے اس پر ایمان و یقین رکھتا ہے اس کے باوجود خودکشی کرتا ہے تو نہایت
حیرانی ہوتی ہے۔ کیونکہ عموماً زندگی میں پیش آنے والے ناموافق حالات آدمی
کو خودکشی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ مثلاً تنگدستی، فقر و فاقہ، عزیز و اقارب
کا انتقال، مقاصد میں ناکامی، تجارت میں نقصان وغیرہ سے دلبرداشتہ ہوکر ہی
انسان خودکشی کا اقدام کرتا ہے، لیکن ایک صاحب ایمان شخص کو جو تقدیر پر
ایمان رکھتا ہو، جس کو یہ پختہ یقین ہو کہ بیماری خواہ کتنی ہی جان لیوا
کیوں نہ ہو خدا تعالیٰ مہلک سے مہلک بیماریوں کو دفع کرکے شفا کی قدرت
رکھتا ہے اور بیماری کی حالت میں بھی اجر عظیم عطا کرتا ہے تو خودکشی چہ
معنی دارد؟ بہت سے لوگ سخت ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کر لیتے ہیں۔ مؤمن
شخص ایسا ہرگز نہیں کرسکتا، اس لئے کہ ایک ایمان والا شخص کبھی بھی شدید
مایوسی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تقدیر پر پختہ ایمان ہمیشہ انسان کو
صبر اور حوصلہ عطا کرتا ہے اور مؤمن اﷲ کی رحمتوں سے کبھی مایوس نہیں ہوتا
بلکہ وہ بند راستوں کو کھولنے اور بند دروازوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
تقدیر پر ایمان رکھنے والا انسان ہمیشہ اس بات کے لئے تیار رہتا ہے کہ اﷲ
تعالیٰ مشکل سے مشکل ترین حالات سے پل بھر میں نجات دے سکتا ہے۔ اصل میں
مسلمانوں کا خودکشی کا اقدام کرنا ایمان کی کمزوری اور دین سے محرومی کے
سبب ہوتا ہے۔ جو لوگ دین اسلام سے غافل اور ایمان سے محروم ہوتے ہیں، وہ
سمجھتے ہیں کہ اس کی افادیت ختم ہوگئی ہے اور وہ دنیا کے لئے اور خود اپنے
لئے نافعیت، برکت و رحمت اور لوگوں کو پیغام و دعوت دینے کے قابل نہ رہا۔
یعنی وہ بذاتِ خود اپنے خلاف خدا کی عدالت میں نالش کرتا ہے اور اس بات کی
گواہی دیتا ہے کہ میں سزائے موت کے قابل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دین دار
مسلمانوں میں بے دین مسلمانوں کے مقابلے خودکشی بہت کم پائی جاتی ہے۔ کیوں
کہ خودکشی زیادہ تر دینی تعلیمات سے دوری کے سبب ہوتا ہے۔ ایک دیندار
مسلمان یہ جانتا ہے کہ وہ نہ اپنی جان کا مالک ہے نہ ہی اپنے مال کا بلکہ
جان و مال اور ساری نعمتوں کا تن تنہا مالک اﷲ ہے جس نے اسے بطور امانت جسم
و مال سے ایک مقررہ وقت کے لئے فائدہ حاصل کرنے کے لئے اس دنیا میں بھیجا
ہے، اس لئے کسی شخص کو اپنی ذات سے نفرت کرکے خود کو ہلاک کرنے کی کیسے
اجازت ہوگی اور نہ ہی ایسا کرنا اس کا حق ہے۔ کیوں کہ جب اﷲ نے مؤمنین کے
جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے تو پھر کسی ایمان والے کو اپنی
جان و مال میں کسی طرح کا اسراف اور تصرف بے جا کرنے کی اجازت کیسے ہوسکتی
ہے۔ چہ جائیکہ اس قیمتی اور بیش بہا نعمت کو جو خدا کا عطیہ ہے اسے ضائع
کرکے ہلاک کر دیا جائے۔ العیاذ باﷲ! یہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث میں
خودکشی کرنے والوں کے لئے سخت سے سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک جگہ رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں جس چیز سے خودکشی کرے گا
قیامت کے دن تک اسے اس سے عذاب دیا جائے گا۔ (مسلم) دوسری جگہ ارشاد ہے کہ
جو شخص جس چیز سے اپنے آپ کو ذبح کرے گا اسی چیز سے قیامت میں ذبح کیا جائے
گا اور جس نے اپنا گلا گھونٹا ان کا بھی گلا گھونٹا جائے گا اور جس نے اپنے
آپ کو زخم لگایا اس کو قیامت کے دن وہ زخم لگایا جائے گا۔ جو شخص پہاڑ سے
گر کر اپنے آپ کو ہلاک کر دے وہ مرنے کے بعد جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے
گا۔ جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہوگا اور جو شخص زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاکت میں
ڈالتا ہے اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلتا
رہے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ خیبر کے وقت ایک مجاہد کافی
جواں مردی اور جوش دکھا رہا تھا۔ جدھر جاتا بہادری کی وجہ سے دشمنوں کا
اصفایا کر دیتا اور وہ خود کو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، نبی اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا، وہ جہنمی ہے۔ جب لڑائی کا
وقت آیا تو یہ شخص لڑتے لڑتے زخمی ہوگیا لوگوں نے کہا یا رسول اﷲ آپؐ نے جس
شخص کو جہنمی فرمایا وہ آج خوب لڑا اور مر گیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا جہنم میں گیا۔ بعض مسلمانوں کو اس میں شک ہونے کو تھا (کیوں کہ
ظاہر حال سے اس کا جنتی ہونا پایا تھا) اتنے میں خبر آئی کہ وہ مرا نہیں
زندہ ہے، لیکن بہت سخت زخمی ہے، جب رات ہوئی تو وہ زخموں کی تکلیف برداشت
نہ کرسکا اور اپنی ترکش سے تیر نکالا اور اپنے سینے میں گھونپ لیا۔ اسی طرح
ایک جنگ میں اصحاب رسول میں سے ایک شخص جو دراصل منافق تھا (یعنی ظاہر میں
مسلمان دل میں کافر) اس کا نام قزمان تھا، لڑائی کے درمیان وہ کسی کو نہیں
چھوڑتا جس کا پیچھا کرتا اس کا کام تمام کر دیتا تھا۔ صحابہؓ نے جب اس کی
بہادری کا مظاہرہ دیکھا تو کہا آج ہمارے کام جیسے یہ شخص آیا ایسا کوئی نہ
آیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جہنمی ہے۔ ایک شخص نے کہا میں
اس کے ساتھ رہوں گا اور اس کی خبر رکھوں گا وہ کونسا کام کرتا ہے جس کے سبب
جہنم میں جائے گا۔ پھر یہ شخص اس کے ساتھ نکلا، جہاں وہ ٹھہرتا یہ بھی ٹھہر
جاتا اور جہاں وہ دوڑ کر چلتا یہ بھی اس کے ساتھ دوڑ کر جاتا۔ آخر وہ شخص
(یعنی قزمان) سخت زخمی ہوا (اور زخموں کی تکلیف پر صبر نہ کرسکا) جلدی
مرجانا چاہا اور تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور نوک اس کی دونوں چھاتیوں
کے بیچ میں رکھا پھر اس پر زور دیا اور خود کو مار ڈالا۔(مسلم) حضرت حسنؒ
نے حضرت جندبؓ کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اگلے لوگوں میں ایک شخص
کے پھوڑا نکلا۔ اس کو جب بہت تکیف ہوئی تو اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا
اور پھوڑے کو چیر دیا جس سے خون جاری ہوگیا۔ بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مر
گیا۔ تب اﷲ تعالیٰ نے فرمایا میں نے حرام کیا اس پر جنت کو۔ (مسلم) اﷲ اور
رسول اور آخرت کے ثواب و عذاب پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کو ان احادیث پر
غور کرنا چاہئے اور خودکشی جیسے سنگین گناہ کے ارتکاب سے اپنے آپ کو بچائے
رکھنا چاہے۔ دنیا مؤمن کے لئے امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں اﷲ رب العزت نت نئے
مسائل اور مختلف حالات لاکر اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور جو لوگ خودکشی
جیسے گھناؤنے گناہ کا ارتکاب کر لیتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے امتحان میں ناکام
ہوجاتے ہیں اور خدائی آزمائشوں میں جو لوگ صبر کا دامن تھامے رکھتے ہیں ان
کے لئے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ |