ٹوپی کے نیچے کیا ھے
(RAFI ABBASI, KARACHI PAKISTAN)
ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ اوردھرنا
14جنوری 2013ء کو جس تزک و احتشام سے شروع ہوا تھا، 17جنوری کو اتنے ہی حزن
و ملال کے ساتھ اختتام پذیر ہوا لیکن یہ صرف ہماراخیال ہے ورنہ ہوسکتا ہے
کہ جس ایجنڈے کے ساتھ علامہ طاہر القادری کئی بلین روپے کے اصراف سے ’’چارملین‘‘
مرد و زن، بوڑھے و بچوں کے ’’حسینی قافلے‘‘ کو لے کر لاہور سے چلے تھے وہ
پورا ہوگیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مذکورہ مارچ کی آڑ میں بعض طاقتیں میاں
برادران کی ’’سیاست اور ریاست‘‘ کو ہزارہ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب سے
بیدخل کرکے رائے ونڈ تک محدود کردینا چاہتی ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر
صاحب کی کچھ توقعات ابھی تِشنہ طلب ہوں جنہیں انہوں نے اپنے مجوزہ ’’انقلاب
مارچ‘‘ کے لئے چھوڑ رکھا ہو لیکن پوری قوم اور عالمی برادری جو ان کے مارچ
اور دھرنے کے دوران تجسّس اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھی، 14جنوری کے مارچ
کے ’’مقاصد اولٰی‘‘ سے ہنوز ناواقف ہے۔ مارچ اور دھرنے کے دوران وفاقی
وزراء اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ کے درمیان جُگت بازی بھی ہوتی رہی
اور اس جُگت بازی کا ’’قہر و غضب‘‘ بھی حکمرانوں کو بھگتنا پڑا اور علامہ
صاحب نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے یک زبان جنبش صدر، وزیراعظم اور پارلیمنٹ
سمیت تمام ریاستی مشینری کو برطرف کرکے سابق کردیا۔
دھرنے اور لانگ مارچ کے دوران علامہ صاحب کے سر پر ہرگھنٹے بعد ایک نئی
ٹوپی دیکھ کر وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کو بھی ان کے کسی خیر خواہ نے ٹوپی
پہنادی اور ٹوپی بھی وہ جو قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو چینی رہنما
ماؤزے تنگ نے پاک چین دوستی کے ناتے انتہائی محبت سے پہنائی تھی جسے پہن
کر وہ عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے تھے اور اکثر اوقات ان کا اندازِخطابت
پُرمزاح ہوجاتا تھا۔ مذکورہ ٹوپی پہننے کے بعد رحمن ملک میں بھی حسِ ظرافت
پیدا ہوگئی اور وہ ذرائع ابلاغ کے سامنے فلمی گیت کے انداز میں علامہ طاہر
القادری سے سوال کرنے لگے،
ٹوپی کے نیچے کیا ہے، ٹوپی کے نیچے
علامہ صاحب ان کے گنگناتے ہوئے سوال کا جواب دینے سے اس لئے قاصر رہے کہ
لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران وہ بار بار ٹوپیاں بدل رہے تھے اور ان تین
دنوں میں وہ اتنی ٹوپیاں بدل چکے تھے جتنے ایک ماہ میں بھارتی وزیراعظم من
موہن سنگھ پاجامہ نہیں بدلتے۔ بار بارٹوپیاں بدلنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ اس
وقت ٹوپی کے نیچے ان کے سر میں صرف ’’مارچ‘‘ کا سودا سمایا ہوا تھا اور
انہیں قوی امید تھی کہ ان کا لانگ مارچ حکومت کے لئے کوئیک مارچ ثابت ہوگا
اور وہ ٹوپی کی جگہ سر پر تاج شاہی سجائے سربراہِ مملکت کی حیثیت سے مارچ
پاسٹ کی سلامی لے رہے ہوں گے لیکن صدرآصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت کی
سربراہی میں مذاکراتی ٹیم ڈی چوک بھیج کر ملک کو ایک عظیم بحران سے بچالیا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کے دعوے کے مطابق منہاج القرآن کے دھرنے اور ڈی چوک کے
تحریر اسکوائر میں تبدیل ہونے کے دورانئے میں مارشل لاء صرف پانچ منٹ کے
فاصلے پر رہ گیا تھا۔ اگر شیخ الاسلام کا جاہ و جلال ختم کرنے کے لئے
مذاکراتی ٹیم کو چند منٹ کی تاخیر ہوجاتی تو قوم قادری صاحب کی صورت میں
ذوالفقارعلی بھٹوکے بعد دوسرے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو ٹی وی
چینلز پر ’’میرے عزیز ہموطنو‘‘ جیسا خطاب کرتے دیکھ رہی ہوتی اور وہ ہاتھوں
کو لہراتے اور انگشت شہادت نچاتے ہوئے قوم کو ریاست بچنے کی مبارکباد دیتے
ہوئے سیاست اور جمہوریت کے مضمرات اور مارشل لاء کی فیوض و برکات اور ثمرات
سے روشناس کرا رہے ہوتے جبکہ ان کے دائیں، بائیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف
اور ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین براجمان ہوتے۔ اُس وقت قادری صاحب
کی ٹوپی کے نیچے سے مارچ کی بجائے ایل ایف او برآمد ہورہے ہوتے لیکن
چوہدری شجاعت حسین کی شٹل ڈپلومیسی نے ملک میں چوتھے مارشل لاء کی راہ کچھ
دنوں کے لئے مسدودکردی ہے جبکہ قادری صاحب کی ٹوپی کے نیچے سے ابھی بھی
مارچ برآمد ہورہے ہیں اور میاں نواز شریف کی پارٹی کی زیر قیادت دھرنے کو
’’دھرنی‘‘ قرار دے کراپنے اگلے اقدام کے طور پر انہوں نے انقلاب مارچ کا
اعلان کیا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا مارچ صرف انقلاب
مارچ تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس میں سے مزید مارچ برآمد ہوں گے اور
ممکن ہے کہ وہ ریاستی نظام کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں عیسوی
کیلنڈرکو بھی تبدیل کرکے مہینے کا اختتام 30دنوں کی بجائے 15روز پرکریں اور
ہر پندرہویں دن مارچ کا اعلان کیاکریں اور سال بھی سکڑکر 365 کی بجائے صرف
180دنوں کا رہ جائے جس کے بعد لوگ کسی کو دعادیتے ہوئے کہا کریں کہ ’’ہر دن
تیراہو لانگ مارچ اور رات تیری کوئیک مارچ ہووے‘‘ ۔
امریکا نے 2005ء سے ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے سیلاب اور زلزلے کے کئی عالمی
تجربات کئے جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا پاکستان میں
’’سیاسی سونامی‘‘ کی صورت میں ورود امریکہ کی ہارپ ٹیکنالوجی کی ہی
کارستانی ہے جسے بروئے کار لاکر ڈاکٹر صاحب لاکھوں افراد کے سیلابی ریلے کو
لے کر اسلام آباد تسخیرکرنے نکلے تھے۔
اتّفاق مسجد کی امامت چھوڑنے کے بعد نواز مخالف رجحانات کی وجہ سے انہیں
بعض بیرونی و اندرونی قوتوں کی معاونت حاصل ہوگئی جس کے بعد ان کا واسطہ
ملین اور بلین سے ہی پڑا جبھی انہوں نے لانگ مارچ سے قبل اپنے گھر پر آئے
ہوئے سرکاری مذاکراتی ٹیم میں شامل ’’ٹین بلین ڈالر مین‘‘ ملک ریاض کو اپنے
حفظ مراتب کے قابل نہ سمجھتے ہوئے نہ صرف مذاکراتی ٹیم بلکہ اپنے گھر سے
بھی باہرکردیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا ’’ٹارگٹ مارچ‘‘ اسی طرح رواں دواں ہے جیسے
کراچی اور پشاور میں ٹارگٹ کلنگ، اسی وجہ سے وہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک
کو اپنی ٹوپی کے نیچے کے سربستہ راز سے آگاہ نہیں کرسکے لیکن اگر انہوں نے
یہی سوال کسی موقع پر رحمن ملک سے کردیا تو ان کے پاس سوائے اس کے کوئی
جواب نہ ہوگا۔
ٹوپی میں ’’شَر‘‘ ہے میرا، امریکی SIRہے میرا
کیا کیا بتاؤں ’’اب راز‘‘ میں، سچ بات میں |
|