پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہے جسے اس
کی اپنی ہی افواج نے چار بار فتح کیا ہے اور ہر بار اپنی مفتوحہ قوم کو اس
کی تقدیر بدلنے اور ہر طرف دودھ کی نہریں بہا دینے کے خواب دکھائے گئے اور
ہر بار اسے پہلے سے زیادہ گھبیر حالات سے دوچار کرتے چلے بنے۔ ہر بار کے
فاتح جنرل نے اس ملک کو ایک نئی تجربہ گاہ بنایا ،ایوب خاں نے بنیادی
جمہوریت کا نظام حکومت تحفہ میں دیا ،جنرل ضیاء الحق جنرل ضیاء الحق جسے
مذہبی حلقے یا وہ حلقے جنہوں نے ان سے اربوں روپے کے فوائد حاصل کیے ہیں وہ
انہیں امیر المومینین کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں نے اپنے گیارہ سالہ دور
حکومت میں لوکل گورنمنٹ کا تصور متعارف کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا
جنرل یحیی خان نے قوم کو اپنی مستی میں مگن رہنا سیکھایا…… جنرل سید پرویز
مشرف نے مقامی حکومتوں اور گراس روٹ لیول جمہوریت کے تحت ناظمین کے دردولت
پر حاضری دینا عوام کے مقدر میں لکھا۔
ان چاروں فرشتہ صفت جنرل حکمرانوں کو آئین پاکستان سے کھلواڑ کرنے کے لیے
انتہائی ذہین فطین اائینی ماہرین کی ایک فوج ظفر موج بھی دستیاب رہی جس کی
قیادت شریف ایدین پیرزادہ ،اﷲ بخش کریم بخش بروہی،عزیز اے منشی اور پاکستان
کی عدلیہ میں براجمان پاکستان کے نمک حرام ججز تھے جنہوں نے پاکستان کے
دساتیر کو بارہ صفحات کا کتابچہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے
تکبرانہ جملے کہنے والے جنرلوں کو ہلہ شیری دی اگر وہ ایسا نہ کرتے اور
مولوی تمیز ایدین بن کر ان آمروں کے راستے مین ڈٹ جاتے تو ااج پاکستان ترقی
و خوشحالی کی انتہائی بلندیوں کو چھو رہا ہوتا۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ
ان فوجی جنرلو ں سے نجات کے لیے تحاریک چلانے والے سیاستدانوں نے بھی اس
وطن عزیز کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ فوجی جنرلوں کے خلاف تحریکیں
تو آئین کی بالا دستی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے چلائی گئیں لیکن جب
یہسیاستدان اس ملک کے ھکمران بنے تو انہوں نے بھی جمہوریت کا نام استعمال
کرکے عوام کو دھوکہ دیا، حلف آئین کی پاسداری کا اٹھایا مگر کرتے اپنی من
مانیاں رہے۔نت نئے طریقوں سے ارکان اسمبلی کو اپنی ہوس اقتدار کا غلام
بنائے رکھا ……آئین اور دستور کی سربلندی اور عملداری کی بجائے اپنی خواہشات
کو آئین کا نام دینے پر مصر رہے اپوزیشن نے جب بھی پارلیمنٹ کے ذریعے تبدلی
لانے کی کوشش کی تو چھانگا مانگا اور سوات جیسے واقعات سامنے لائے گئے جہاں
ارکان پارلیمنٹ کو بھیڑ بکریوں کی طرح بند رکھنے کو اائین اور جمہوریت کہا
گیا۔ ارکان اسمبلی کو کروڑوں اور اربوں روپے کی رشوت دیکر عدم اعتماد کی
تحاریک کو ناکام بنانے پر فخر کیا جاتا رہا۔ مارشل لاؤں کی قانونی مدد کرنے
پر ہم شریف ایدین پیرزادہ، اے کے بروہی اور عزیز اے منشی اور انکے معاونین
کو تو برا بھلا کہنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے مگر فوجی جنرلوں کو
اقتدار سنبھالنے کی دعوت دینے، سیاسی حکموتوں کو ناکام بنانے کے لیے جنرلوں
کے االہ کار بننے والے سیاستدانوں کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔
آئین کی پاسداری اور اس کی سربلندی اور اس پر عملدرآمد کرنے کی تازہ ترین
مثال وزیر اعظم نواز شریف کی لندن روانگی کی موجود ہے ، وزیر اعظم نواز
شریف کی لندن روانگی اور وطن واپسی سے متعلق انتہائی رازداری برتنے کے عمل
نے افواہوں کا بازار گرم کیے رکھا ،طرح طرح کی باتیں اور دعوے سامنے آ تے
رہے ،
وزیر اعظم نواز شریف کے لندن میں قیام کے دوران اسلام آباد میں حکومت کی
قانونی اور آئینی حثیت زیر بحث رہی، کہا جاتاہا کہ اس وقت اسلام آباد میں
عملا کسی کی حکومت نہیں ہے، ایسا کہنے والوں کا استدلال یہ تھا کہ آئین کے
تحت وزیر اعظم کی ملک سے غیر حاضری کی صورت میں اسپیکر قومی اسمبلی قائمقام
وزیر اعظم کے فرائض سنبھالتا ہے اور انکی وطن واپسی تک وزیر اعظم ہاؤ س سے
جڑے معاملات اور امور سپیکر قومی اسمبلی ہی بطور وزیر اعظم سرانجام دیتا ہے۔
لیکن اس بار وزیر اعظم نواز شریف کی وطن سے غیر حاضری میں آئین سے ہٹ کر
بندوبست کیا گیا، اس بندوبست میں وزیر خزانہ محمداسحاق دار، وزیر اعظم کی
ہونہار دختر نیک اختر محترمہ مریم نواز شریف اور ایک بیوروکریٹس کے ذریعے
ملکی معاملات چلائے جاتے رہے ایسا بندوبست کرنے کی کی غرض و غایت سمجھ سے
بالا تر ہے۔ کیونکہ آئینی طور پر تو وزیر اعظم کی ملک میں عدم دستیابی کی
صورت میں اسپیکر قومی اسمبلی وزیر اعظم کے قائمقام ہوتے ہیں، ہاں اگر اپیکر
ایاز صادق کے حوالے سے کچھ تحفظات لاحق تھے تو ایک آرڈر کے تحت وزیر اعلی
پنجاب شہباز شریف کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا جا سکتا تھا جیسے چودہری پرویز
الہی آصف علی زرداری کے دور حکومت میں نائب وزیر اعظم کے فرائض سرانجام
دیتے رہے ہیں،اس وقت وزیر اعظم کے جانشینی پر مامور افراد کو اس ساری
صورتحال کی وضاخت کرنی چاہیے تھی جو کہ نہیں کی گئی-
پاکستانی قوم اس وقت ایک اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے ، مسلم لیگ نواز، وزیر
اعظم کے باعتماد وزراء قوم کو اس بحرانی و اضطرابی کیفیت سے نکالنے سے
گریزاں ہیں انہیں اس ساری صورتحال کی وضاخت غیر مہبم انداز و الفاظ میں
کرنی چاہیے اور قوم و ملک اور جموہریت کے خیر خواہوں کو اس اضطرابی کیفیت
سے نکالنے میں مدد دینے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کو درست مشورے دینے
چاہئیں کیونکہ افواہوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی بے رحم موجوں سے حکومت کا
استحکام متاثر ہوتا ہے اور عدم استحکام جنم لیتا ہے ،کسی بھی حکومت خصوصا
جمہوری اور منتخب عوامی حکومت کے لیے ملک میں عدم استحکام کا پیدا ہونا ،
ملک ،قوم ،جمہوریت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جمہوری حکومت کے لیے نیک شگون
تصور نہیں کیا جاتا……اس لیے اسلام آباد میں جو لوگ بھی وزیر اعظم کی جانب
سے کیے جانے فیصلوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں انہیں پانامہ پیپرز سے
پیدا ہونے والے حالات و معاملات سے عہدہ برا ہونے ، جیسی تیسی بھی ہے
جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اترنے یا اتارنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے
لیے فوری فیصلہ سازی کی جائے تو بہتر ہوگا ورنہ سازشی عناصر کو اپنا کھیل
کھیلنے کے مواقع دینے کا الزام کسی اور پر نہیں تھونپا جائے گا۔ اور’’
پاکستان جنرلوں کے لیے جنت ہے‘‘ کی باتیں درست ثابت ہونے پر مہر لگ جائے گی۔
|