فرعون آج بھی افزائش نسل کر رہا ہے!

’’فرعون آج بھی افزائش نسل کررہا ہے‘‘ یہ جملہ آج سے سات سال پہلے سنتے ہی ہم سب کلاس فیلو چونک اٹھے تھے۔ کلاس ختم ہوئی تو اسی جملے کو موضوع بحث بنائے ہم لوگ ایک نزدیکی کیفے ٹیریا پر آن بیٹھے۔کیفے ٹیریا پر بہت زیادہ ہجوم تھا لوگ جلدی جلدی آتے ،کچھ بیٹھتے اور کھانا کھاتے جبکہ کچھ کھڑے کھڑے سموسے ،پکوڑے اور سینڈوچ وغیرہ کھاتے اور بھاگم بھاگ کیفے ٹیریا سے باہر چلے جاتے۔ہم لوگ ایک کارنر والی ٹیبل کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔ گفتگو دوبارہ شروع ہوئی تو درمیان میں ایک دوست نے انگلی کا اشارہ کرکے سب کو خاموش کرا دیا۔ کہنے لگا اس اخبار فروش کو دیکھتے رہویہ بہت مشکوک آدمی ہے۔ یہ اخبار بیچنے کی بجائے اخبار لہراتا ہوا اندر آتا ہے اور تین چار منٹوں میں واپس چلا جاتا ہے۔ اب کی بار ہم نے غیر محسوس انداز میں دبی نظروں سے اسے دیکھنا شروع کر دیا۔پرانے سلیپر پہنے گندے اور میلے بدبودار کپڑوں میں ملبوس بغل میں اخبار کا بنڈل دبائے وہ کوئی 35سالہ جوان آدمی تھا۔ اس نے جلدی سے کیفے ٹیریا کا چکر لگایا اور ایک مرتبہ پھر باہر نکل گیا۔ ہم سب ہوشیار ہوگئے کہ شاید کوئی مسئلہ ہے۔ یہ شخص کوئی بم وغیرہ تو یہاں نہیں رکھنا چاہتا یا۔۔۔ہم سب کی آنکھوں میں خوف اتر آیا۔ ایک ایسا خوف کہ دوسرے لوگوں کیلئے جس کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ہم نے فرعون کی افزائش نسل کا موضوع وہیں پہ چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے کی ٹھان لی۔ ابھی ہم لوگ اٹھنے ہی والے تھے کہ وہ شخص پھر اسی رفتار سے دھیمے دھیمے اندر داخل ہوا اور ہم نے بھی غیر محسوس طریقے سے اسے دیکھنا شروع کر دیا۔اب کی بار ہم یہ دیکھ کر بہت افسردہ ہوگئے کہ وہ شخص کنٹین کی میزوں پر روٹی کے بچے کچے ٹکڑے جلدی جلدی کھا کر بھاگ جاتا تھا تاکہ کنٹین والا اسے کچھ نہ کہے۔فرعون کی افزائش نسل کی بات ایک مرتبہ پھر وہیں رہ گئی اور ہم اداس دلوں اور نم آنکھوں کے ساتھ کیفے ٹیریا سے باہر نکل آئے۔راستے میں ایک دوست بولا کہ بھوک کے ستائے ہوئے اس آدمی کے بیوی بچے بھی ہونگے۔اب اگر ایسا آدمی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کسی کی جیب کاٹے،ڈاکہ ڈالے، چوری کرے یا دہشت گرد بن جائے۔۔۔تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔کچھ دنوں کے بعد میں نے ایک کمرشل پلازے میں کچھ لوگوں کو’’چور"چور‘‘ کہہ کر ایک آدمی کی پٹائی کرتے دیکھا، لوگوں نے ہلکی پھلکی پٹائی کے بعد اس کی تلاشی لی۔ ’’چور‘‘ کی میلی کچیلی جیکٹ سے ایک خشک روٹی کا ٹکڑا برآمد ہوا۔ ایک شخص بولا کہ یہ میرے ہوٹل سے چرا کر لایا ہے۔ یہ اس طرح روٹیاں اکٹھی کر کے بیچنا چاہتا ہے لیکن چور نے قسم کھا کر کہا کہ وہ دو دن سے بھوکا ہے اس نے یہ روٹی کھانے کے لئے چرائی ہے۔اسی دوران ہوٹل کے مالک نے پولیس کو بلوا لیا اور پولیس کے بہادر شیر جوانوں نے بھی وہیں عدالت لگا لی اور مار مار کر اس ’’چور‘‘ کی بھرکس نکال دی اور تھانے لے گئے۔ اگلے ہی روزاتفاقاََ مجھے اسی تھانے جانا پڑا تو معلوم ہوا کہ اس چور نے بہت سی وارداتوں کا اعتراف کرلیا ہے جس پر مجھے حیرت ہوئی اور میں نے تھانہ کے ایس ایچ او سے اس چور سے ملنے کی خواہش کا ظہار کیا ۔ملنے پرجب میں نے اس چور سے پوچھا کہ کل تو تم قسمیں کھا رہے تھے کہ میں چور نہیں ہوں اپنی بھوک مٹانے کیلئے روٹی چرائی اور آج مجھے پتہ چلا کہ تم بہت سی وارداتوں میں ملوث ہوتو وہ کہنے لگا کہ کل مجھے یہاں لانے کے بعد تھانیدار صاحب نے کہا کہ اپنے گھر فون کرو اور دس ہزار روپے منگواؤ تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے میں نے کہا صاحب!میرے گھر میری بیوی اور دو معصوم بچے بھی دو دن سے بھوکے ہیں وہ پیسو ں کا انتظام کیسے کرسکتے ہیں جس پر تھانیدار صاحب مجھے اپنے بہادر جوانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر چلے گئے جنہوں نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر میری اچھی طرح بھوک مٹائی اور تب تک مٹاتے رہے جب تک میں نے ان کی بتائی ہوئی وارداتوں کا اعتراف نہیں کیا۔اس واقعہ کے چند روز بعد ہی مجھے معلوم ہوا کہ علاقے کے ایک بااثر سیاسی لیڈر کا سگا بھانجا ڈکیتی کرکے بھاگتے ہوئے موقع سے گرفتار ہوا ہے اور اس سے ڈکیتی شدہ موٹر سائیکل، موبائیل فون اور رقم بھی برآمد ہوگئی ہے اور پولیس اسے گرفتار کرکے تھانے لے گئی ہے ۔اگلی ہی صبح مجھے اس خبر نے چونکا دیا کہ گرفتاری کے چند گھنٹے بعد ہی پولیس نے ’’نذرانہ‘‘ لیکر اسے چھوڑ دیا اور مقدمہ بھی درج نہیں کیا جبکہ مدعی فریق کو صلح کی تلقین کی جارہی ہے ۔ مجھے فوراََ وہ چور یاد آگیا جس نے ہوٹل سے روٹی کا ٹکرا چرایا تھا جو سیاسی سفارش اور پیسے نہ ہونے کے باعث جیل میں بند تھا ۔گزشتہ دنوں امان ٹرسٹ پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ایک سیمینار کے دوران میری ملاقات اپنے اسی بچپن کے دوست سے ہوگئی جس کا دعویٰ تھا کہ فرعون آج بھی افزائش نسل کر رہا ہے۔میرا یہ دوست خاندانی طور پر زمیندار ہے۔ میں نے پوچھا تمہاری زمینوں کا کیا حال ہے ،اس نے کہا کہ اب زمینیں بھی فرعون کی اولاد نے ہتھیا لی ہیں۔میں نے پوچھا وہ کیسے؟ اس نے کہا لوڈشیڈنگ کے باعث موٹر تو چلتی نہیں کہ ٹیوب ویل سے پانی نکالیں لیکن مہینے کے بعدلاکھوں روپے کا ’’بل‘‘ ضرور آجاتا ہے۔ اگر یہ بِل ادا نہ کیا جائے تو اگلے مہینے موٹر کاکنکشن کاٹ دیا جاتا ہے۔ نیا کنکشن لگوانے کے لئے لاکھوں روپے چاہیے۔ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور بولا پہلے تو زمیندار لوگ مویشی بیچ کر ’’بل‘‘ ادا کرتے تھے اور اب تو مویشی بھی اتنے نہیں رہے کہ سرکار کا پیٹ بھر سکیں۔میں نے پوچھا پھر۔۔۔اس نے کہا کہ پھر یہ کہ اب تیزی سے زمینیں بنجر اور غیر آباد ہو رہی ہیں۔ صنعت و کاشتکاری کا بھرکس نکل گیا ہے اور ملکی معیشت صرف چند خاندانوں کی مٹھی میں بند ہوکر رہ گئی ہے۔میں نے کہا کیا موجودہ حکومت یا آئندہ نئی آنے والی حکومت کوئی حل نکال سکے گی ،اس نے کہا میرے بھائی جس ملک میں قدرتی ذخائر کی بھر مار ہو لیکن اس پر فرعونوں کی حکومت ہو وہ ملک کیا ترقی کرے گا۔ماضی کا فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا تھا، آج کا فرعون پاکستانیوں کے بچوں کو قتل کر رہا ہے۔ کچھ بچے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور جہالت کی موت مارے جاتے ہیں، کچھ کو دہشت گرد بنایا جاتا ہے اور کچھ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔یہ کہہ کر وہ کچھ دیر کے لئے رکا اور پھر بولا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بچے بھوک ،افلاس ،جہالت، پسماندگی اور دہشت گردی اور پولیس گردی کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ فرعونوں کے بچے رنگ رلیاں منا رہے ہیں اور ہر قانون اور فکر سے بالا تر ہیں۔پاکستانیوں کی نسل مہنگائی ،بے روزگاری اور جہالت و دہشت گردی کے ہاتھوں مٹ رہی ہے اور’’ فرعونوں کی افزائش نسل ہو رہی ہے‘‘میں نے یہ سنا توسات سال بعد بے ساختہ میری زبان سے یہ جملہ نکلا کہ ہاں میرے بھائی جہاں پر فرعونوں کی افزائش نسل ہو رہی ہو وہاں پر زمینیں سیراب نہیں ہوا کرتیں اور لوگ خوشحال نہیں ہوا کرتے وہاں کوئی دہشت گرد بنتا ہے تو کوئی ڈاکو اور چور بن جاتا ہے۔کوئی مجرم بن جاتا ہے تو کسی کو بنا دیا جاتا ہے۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 12870 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.