شیخ العرب والعجمؒ۔۔۔۔۔۔ پیکر صدق و وفا

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حصہ دوم

ایک ایسی عبقری شخصیت جو ہمہ جہت اوصاف سے متصف تھی ،بیک وقت کامیاب و ہردلعزیز معلّم ،کامیاب اور مؤثر خطیب،ممتازتاریخ دان ،بلندپایہ مصنف،جنگ آزادی کے نڈر مجاہد،عزیمت کا خوگر،صفات و کمالات سے بھرپور شخصیت ،طبیعت میں عربی حسن مزاج وعجمی سوز وگدازاورپیکر صدق ووفا جن کو دنیا آج بھی شیخ العرب والعجم کے لقب سے یاد کر تے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی زندگی کا ہر پہلو قابل رشک ہے مگر اپنے استاد محترم شیخ الھندمولانا محمود حسن ؒکے ساتھ قلبی لگاؤ اوربے انتہا محبت سنہری حروف میں لکھنے سے تعلق رکھتی ہے،1309؁ھ کی ابتداء میں آپ کم سنی میں بھائیوں کے ساتھ دارلعلوم دیوبند آئے، ابتدائی اسباق سے لے کر منتہی کتب میں سے اکثر حضرت شیخ الھندؒ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی،صرف ونحو،منطق و فلسفہ اور کتب حدیث آپ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ،حضرت شیخ الھندؒ کے گھر کے فرد کی سی حیثیت حاصل تھی ،کم سن تھے استاد کے گھر کا سامان وغیرہ لانا آپ کے ہی ذمہ تھا،سند فراغت کے بعد اساتذہ خصوصاً حضرت شیخ الھندؒ کی دعائیں لے کر رخصت ہوئے ،والد محترم نے بمعہ اہل و عیال کے مدینہ منورہ ہجرت کی اور مستقل سکونت اختیار کرلی ،حجاز مقدس سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی اساتذہ باالخصوص شیخ الھند ؒکی دعائیں اور توجہات سمیٹتے رہے،مسجد نبویﷺ میں درس دینے کی سعادت حاصل ہوئی کہ طلبہ پروانوں کی طرح آپ کے گرد جمع ہونے لگے ۔

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی زندگی پر نمایاں اور گہرا اثر آپ کے اساتذہ میں جس ہستی کا تھا وہ حضرت شیخ الھندتھے ؒ اور شیخ الھند محمود حسن ؒکی تعلیم وتربیت قاسم العلوم والخیرات مولانا قاسم نانوتویؒ،مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی ؒکی خدمت میں سالہا سال رہ کر ہوئی تھی،یہ تینوں حضرات 1857؁ھ کی جنگ آزادی کا علم بلند کرنے والے تھے، ان کے سینوں میں آزادی کی شمع روشن اور جہاد کی چنگاری سلگ رہی تھی،حضرت شیخ الھند ؒ کو یہ نسبت منتقل ہوناامر طبعی تھا۔انگریزی سامراج نے ظلم و تشدد ،لالچ و طمع اور مراعات و وظائف سے ہندوستانی اذہان کو ماؤف اور زبانوں کو خاموش کر رکھا تھا۔آزادی ،انقلاب یا خود مختاری کی آواز لگانا ناقابل جرائم تھے،حضرت شیخ الھندؒ نے ایسے حالات میں بغیر کسی خوف و خطر کے لوگوں کو ہمنوا اور رفیق سفر بنانے کی جدوجہد شروع کی،آپ کے شاگرد رشید مولانا عبیداﷲ سندھی ،ڈاکٹر انصاری ،حاجی ترنگ زئی ،مولانا محمدعلی اور مولانا شوکت علی سمیت کئی اہل علم آپ کے ساتھ جدوجہد آزادی کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔انہی امور کو سرانجام دینے کے لیے مولاناعبیداﷲ سندھیؒ کوکابل روانہ کرکے یاغستان کو مرکز تحریک بنایااور1333؁ھ کو خود حجاز کے لیے رخت سفر باندھا تاکہ ترکی حکام سے جدوجہد آزادی کے لیے معاونت لی جا سکے،انگریزی سامراج کی تمام تر پھرتیوں کے باوجود اﷲ نے آپ کو حجاز مقدس بخیر وعافیت پہنچایا۔وہاں آپ کی ملاقات گورنر حجاز غالب پاشا،وزیرجنگ ترکیہ انور پاشا اور کماندار جمال پاشا سے جدوجہد آزادی سے متعلقہ امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی اورتائیدی خط بھی وصول کیا جس میں درج تھا کہ ہندوستان کے مطالبہ آزادی کے استحسان اور ان کے اس مطالبہ میں ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں ان کی اس حوالے سے امداد و اعانت کا وعدہ کرتے ہیں،اور ہر اس شخص کو جو کہ تر کی رعیت یا ملازم ہو ان کو مولانا محمود حسن پر اعتماد اور ان کی مدد کرنا چاہیے۔(نقش حیات)

شیخ العرب والعجم مولاناحسین احمدمدنی ؒ نے اپنے استادحضرت شیخ الھندؒکی ترغیب وتحریک سے علمی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاسی زندگی کا آغاز اسی موقع پر کیا،حضرت مدنی ؒ نے شیخ الھندؒ کے تمام امور میں خوب معاونت کی،1334؁ھ کا حج کیا اسی عرصہ میں شریف مکہ کی بغاوت نے عرب کے حالات کو یکسر تبدیل کردیا جس کی وجہ اسلامی ممالک کی قوت مزید انتشار کا شکار ہوگئی ،محرم 1335؁ھ میں شریف مکہ اور ترکوں کی تکفیر کے غیر شرعی فتویٰ پر دستخط نہ کرنے کی پاداش میں شریف نے مکہ نے شیخ الھندؒ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ور مولانا حسین احمد مدنی نے اپنے استاد کی خدمت کے لیے اسیری کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی گرفتاری پیش کی،حضرت شیخ الھند ؒ کی گرفتاری کے بعد پیش آنے والے واقعات وحالات نے یہ بات ظاہر کی کہ شریف مکہ نے کسی اور کے اشارے پر یہ گرفتاری تحریک آزادی کی ان جملہ کاروائیوں کی بنا پر کی ہے کو کہ یاغستان، کابل ،فریٹئیراور دیوبند میں جاری تھیں۔جدہ ،قاھرہ اور جیزہ کی جیلوں میں تفتیش کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد 29ربیع الثانی1335؁ھ کو مالٹاپہنچایا گیا۔

مالٹاجیل میں جرمنی ،ترکی ،مصر،سوڈان،افریقہ ،بلغاریہ اورہندوستان کے قیدی کی مجموعی تعداد تقریباً 3000تھی ،جن میں قیدی نمبر2215مولاناعزیر گلؒ،قیدی نمبر2216حکیم نصرت حسینؒ،قیدی نمبر2217مولاناحسین احمد مدنیؒ،قیدی نمبر2218مولانا وحید احمدؒاور قیدی نمبر2219شیخ الھند مولانا محمود حسن ؒ کو دیا گیا ،تحریک آزادی ہند کے عظیم مجاہدوں کی مالٹا جیل میں پہچان یہ نمبر تھا،جزیرہ مالٹاکی یخ بستہ ہوائیں اور ہڈیوں میں گھس جانے والی سردی جونوجوانوں کی لیے ناقابل برداشت تھی، حضرت شیخ الھندؒ پیرانہ سالی،مختلف امراض ،سردی کی وجہ سے ہاتھوں اور پاوں میں ورم کا آنااور گھٹنوں کے مستقل درد کی وجہ سے نہایت آزمائش تھی ،رات کے آخری پہر تہجد کے لیے اٹھنا آپ کا معمول تھا،گرم پانی کا بظاہر کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا،لیکن شیخ الھندؒ کے لیے تہجد کے وقت گرم پانی مہیا ہوتا تھا جو شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنیؒ کے بدن کی حرارت سے ممکن ہوتا تھا۔(سوانح حضرت مدنیؒ)مالٹاجیل میں حضرت شیخ الہندؒ کی ضروریات و خدمت کے لیے ہر وقت خدمت رہتے ۔اسیری مالٹا کے دوران آپ کو حفظ قرآن کریم کی سعادت بھی نصیب ہوئی، اس سے قبل کئی دفعہ حفظ قرآن کریم کی کوشش کی مگر کثرت مشاغل اور ہجوم افکار کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا مگر استاد کی خدمت کی برکت کی وجہ سے ممکن ہو سکا،مالٹا میں پہلے سال جمادی الاول سے اواخر شعبان تک 15پارے اور رمضان کے بعد سے ماہ صفر تک مکمل حفظ قرآن پاک کی سعادت حاصل کر لی۔(سفرنامہ اسیرمالٹا)

شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی ؒ کے سفر اسیری کی روداد بھی عجیب ہے،جب مدینہ سے نکلے تو سب کو الوداع کہا ،بظاہر چند دن کی اسیری تین سال اور سات ماہ تک طویل ہوتی گئی،مالٹا کے عقوبت خانوں میں پہنچے تو سزائے موت تک کی خبریں مشہور ہوئیں ، اہل و عیال سے رابطہ و خط و کتابت کا سلسلہ ہوتا تھا، کچھ عرصہ کی رکی ہوئی ڈاک ملی توخط کھولتے جاتے اور اناﷲ واناالیہ راجعون پڑھتے جاتے ،ہرخط میں کسی نہ کسی عزیز کی وفات کی خبر تھی،ایک ہی وقت میں بیٹی،بیٹے،بیوی ،والد،والدہ اوردوبھاوجوں کے انتقال کی خبر اور صدمہ پہنچا،اﷲ کے فیصلوں پر راضی اور صبر کی عملی تصویر بنے رہے۔

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے اپنے شیخ کے ساتھ اسیری میں تین مقاصد اپنے لیے متعین کئے،اول ترکی زبان سیکھنا،دوسراقرآن کریم کاحفظ،تیسراباطنی اشغال میں ترقی،آپ فرماتے ہیں کہ اﷲ نے میری دو آرزوئیں تو پوری کر دیں مگر تیسری آرزو باوجود صحبت شیخ کامل اور فراغ وقت اپنی بدنصیبی سے ناکام رہا۔(سفرنامہ اسیرمالٹا)اسی اسیری کے دوران آپ کے ساتھی اسیری حکیم نصرت حسین 9ذیقعدہ 1337؁ھ میں انتقال کر گئے ۔22جمادی الثانی 1338؁ھ بمطابق12مارچ1920؁کو آزادی ہند کے عظیم مجاہداور راہنما 3سال 2ماہ کی اسیری کے بعد رہاہوئے۔جب حضرت شیخ الھندؒ اور آپ کے رفقاء مالٹا سے رہا ہو رہے تھے ،ایک بہت بڑا مجمع الوداع کہنے امڈ آیا،صدر اعظم ترکی سے کر نیچے کے عہدیداروں تک سب عہدیدارن کی موجودگی میں شیخ الاسلام خیرالدین آفندی ؒکی دعا پر سب آمین کہہ رہے تھے،موقع پر موجود انگریز آفیسر اس منظر کو دیکھ کر تعجب اور حیرت کا اظہار کررہے تھے ،یہ اس شخصیت کی حوصلہ افزائی تھی جو پیکر اخلاص،تواضع اور عاجزی کا مجسمہ تھی،ان کی یہ عزت و تمکنت خلق خدا میں مقبولیت عام ،انتہائی تقویٰ و ﷲیت اور بارگاہ خداوندی میں بلندی و رفعت کا اثر تھا۔بالآخر 20رمضان المبارک 1338؁ھ بمطابق8جون 1920؁ء کو 3سال اور سات ماہ کی طویل اسیری کاٹ کر بمبئی پہنچے،مولاناشوکت علی کی معیت میں خلافت کمیٹی کے ہزاروں کارکنوں نے آزادی ہند کے عظیم راہنماؤں کا نعرہ تکبیر کی گونج میں استقبال کیا۔

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ جب اپنے محبوب و مربی شیخ اور ساتھیوں کے ہمراہ رہائی کے بعد ہندوستان پہنچے تو سب کچھ بدلا ہوا تھا،تین برس اور سات ماہ میں آباد گھر ویرانے میں تبدیل ہو چکا تھا،ماں باپ ،اہل و عیال سے دار فانی سے کوچ کر چکے تھے۔
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا تھا زمانہ
بہار تھی ،نہ چمن تھا،نہ آشیانہ
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 250862 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More