کوئی مانے یا نا مانے کلرک وہ
شخص ہے۔ جس کی وجہ سے اس ملک کا نظام اور اس ملک کا پہیہ چل رہا ہے۔ اگر یہ
آج اپنا قلم چھوڑ دیں۔ تو اس ملک کا تمام نظام درہم برہم ہو جائیگا۔ اس ملک
کی گاڑی میں ایک کار آمد پرزے کا کام کرنے والا یہ کلرک معاشرے کا سب سے
پسا ہوا اور بے بس شخص ہے۔ ہر پارٹی نے ان کو ریلیف دینے کی بات کی۔ لیکن
کسی نے بھی برسر اقتدار آکے ان کیلئے کچھ نہیں کیا۔ دو سالہ مسلسل احتجاج
اور تکالیف کے بعد سرکاری ملازم کی زندگی میں ایک خوشی اس وقت آئی، جب بجٹ
2010-11 میں پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ نے ایک غریب ملازم کی ضروریات اور
مشکلات کو دیکھتے ہوئے خاطر خواہ اضافہ کیا۔ اور ملک کے بائیس لاکھ رجسٹرڈ
کلرکل سٹاف کی زندگیوں میں اور ان کے خاندانوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
حالانکہ یہ اضافہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں۔ لیکن پھر بھی ان
کے مسائل کچھ کم ہونگے۔ ان کی موجودہ تنخواہ میں دنیا کا کوئی ایکسپرٹ آکر
انکا سالانہ بجٹ بنا کردیں۔ انکا چولہا بڑی مشکل سے چلتا ہے۔ اور ان کی
زندگی کی گاڑی مشکلات سے پر ہے۔ اور ان کے خاندان کے لوگ دنیاوی آسائشوں کا
سوچ بھی نہیں سکتے۔
ایک ملازم کی تنخوا میں 50 فیصد اضافہ ایڈہاک الاؤنس کے نام سے کیا گیا۔
اور 1 سے 15 گریڈ تک کے ملازم کے میڈیکل الاؤنس میں 100 فیصد اضافی کیا گیا۔
حالانکہ یہ اضافہ کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ وہ پہلے 500 روپے میڈیکل الاؤنس
لیتے تھیں اب اس میں اضافہ کر کے 1000 روپے کردیا گیا ہیں۔ اب آپ لوگ ہی
سوچے کہ اس 1000 روپے میں کونسا اور کہا علاج ہوتاہیں۔ ایک ڈاکٹر کی فیس
1000 سے 1500 روپے تک ہیں۔ اس 1000 روپے سے تو سرکاری ہسپتال میں علاج
ناممکن ہے۔
اب آتے ہے خادم پاکستان نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ نواز کے قائد حزب
اختلاف چوہدری نثار کے بیان کی طرف جس میں وہ فرماتے ہیں کہ وفاق نے ہم سے
مشورہ کیے بغیر غریب ملازمین کی تنخواہ کیوں بڑھا دی۔ اور اس طرح ان تنخواہ
کے بڑھنے سے صوبائی حکومتوں پر ٤٠ ارب روپے کا اضافی بوجھ بڑھے گا۔ انہوں
نے کہا یہ کوئی بادشاہت نہیں کہ وزیراعظم مشاورت کیے بغیر تنخواہوں کے
اضافہ کا اعلان کردیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار صاحب
اعلان کرتے کہ آج سے ہماری پارٹی کے تمام ایم۔پی۔ایز، ایم۔این۔ایز، ارکین
سینٹ، سینٹ کی کمیٹیوں کے چئیرمین وغیرہ آج سے پاکستان کی مخدوش حالت کی
وجہ سے اپنی مراعات جو سالانہ کھربوں روپے میں آتا ہیں واپس کرتی۔ اور وہ
بلٹ پروف گاڑیاں بھی واپس کرتی جو اربوں روپیوں میں باہر سے امپورٹ کی گئیں۔
جس میں ان کے قائدین سفر کرتے ہیں۔ دوسروں پر اعتراض کرنا آسان ہے۔ لیکن
اپنے گریبان میں تو کوئی نہیں دیکھتا۔ کاش ہمارے سیاستدان عوامی فلاح کیلئے
کچھ کرتے۔ کاش ہم کوئی اچھا سیاست دان پیدا کر سکتے۔ کیا یہ زمین ایسی
بانجھ ہوگئی کہ اپنے غریب عوام کو کوئی اچھا سیاستدان فراہم کرسکے۔ |