خدارا! اَب کوئی مہمان میرے گھر نہ آئے

ننگے بھوکے غریب پاکستانیوں کے لئے اِس بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں

ایک روز حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رو پڑے۔ پوچھا گیا: کہ حضرت آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کافی دنوں سے میرے ہاں کوئی مہمان نہیں آیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں رب العزت مجھ سے ناراض نہ ہوگئے ہوں کہا جاتا ہے کتنا بڑا مرتبہ ہے کسی مہمان کا اور اللہ والے اپنے یہاں مہمان کی آمد کو اللہ کی رضا سے تعبیر کیا کرتے تھے اور جب مہمان کسی کے گھر کافی عرصہ سے نہیں آتا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ کہیں اللہ اِن سے ناراض تو نہیں ہوگیا اور اِسی طرح آج بھی ہمارے معاشرے میں یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ جس گھر میں مہمان نہ آتے ہوں وہ گھرانہ منحوس ہوتا ہے مگر مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب سے میں نے آنکھ کھولی ہمیشہ میں نے اپنے گھر پر مہمانوں کا ڈیرا جما دیکھا روز کوئی نہ کوئی مہمان صبح سویرے اپنے پورے لاؤ لشکر میرا مطلب ہے اپنے اہلِ خانہ سمیت آدھمکتا اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ کئی ایک خاندان کئی کئی دن، ہفتے اور مہینے تک ہمارے گھر پر مہمان بنے رہتے اور ہماری امّاں جی اِن مہمانوں کی مہمان نوازی میں بھاگ بھاگ کر لگی رہتیں کہ کہیں مہمان کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ رہ جائے اِن کے نزدیک اپنے میکے اور سُسرالی مہمانوں کی کوئی تمیز نہ تھی وہ سب کے لئے یکساں اپنی میزبانی کے فرائض محض اِس پر عمل پیرا ہوکر ادا کرتیں تھیں کہ ”مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں کوئی کسی کا نہیں کھاتا سب اپنے اپنے نصیب کا کھاتے ہیں “ اور ایسے ہی کچھ عرفہ و اعلی ٰ خیالات ہمارے ابّا سائیں کے بھی تھے وہ جب تک حیات تھے وہ بھی اپنے اِسی جذبے پر قائم و دائم رہے اور وہ گھر پر آئے ہوئے مہمانوں کے لئے اپنی استعداد سے کہیں زیادہ بڑھ کر کیا کرتے تھے۔

اِس طرح اِن کی مہمان نوازی نہ صرف قریبی رشتہ داروں تک مشہور تھی بلکہ ساری برادری میں ہماری امّا جی اور ابّا سائیں کی مہمان نوازی کے چرچے ہونے لگے تھے بہت سے دور کے رشتے دار بھی اِیسے تھے جو محض اِن کی مہمان نوازی کی جانچ پڑتال کے بہانے کئی کئی دن اور ہفتے ہمارے یہاں مہمان بن کر رہتے اور آخر کار جب اِنہیں یہ یقین ہوجاتا کہ میزبان کے ماتھے پر اِن کی موجودگی پر کوئی شکن تک نہیں آئی تو وہ جاتے ہوئے یہ جتا جاتے تھے کہ ہم تو محض اِس کھوج میں آپ کے یہاں مہمان بن کر آئے تھے کہ برادری میں آپ دونوں میاں بیوی کی مہمان نوازی کے جو ڈنکے بچتے ہیں وہ صرف اپنے خونی اور قریبی رشتہ داروں کی مہمان نوازی تک محدود ہیں یا جو بھی آپ کی دہلیز پر آجائے سب کے لئے آپ لوگ اپنے یہاں مہمان نوازی اور میزبانی کرتے ہیں۔

واقعی آپ کی مہمان نوازی ہر خاص و عام کے لئے ایک جیسی ہے اور جاتے جاتے یہی لوگ امّاں جی اور ابّا سائیں کو خوب ڈھیر ساری دعائیں دے کر جاتے ....مگر جب ابّا سائیں اللہ کو پیارے ہوگئے تو آہستہ آہستہ ہمارے یہاں مہمانوں کی آمد میں کمی آتی گئی اور ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ سوائے ہمارے ننھیالی اور ددھیالی رشتہ داروں کے دیگر نے ہمارے گھر آنا جانا قدرے کم کردیا تھا۔

شائد اُنہیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ اِن کی مہمان نوازی میں کمی آجائے گی مگر سب کچھ اُن کی سوچوں کے برعکس ہوا ہماری امّاں جی نے اپنے غریب خانے پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی میں ابّا سائیں کے انتقال کے بعد بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ اُسی طرح سے گھر آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر تواضع میں لگی رہتیں جیسے ابّا سائیں! کی موجودگی میں مصروف رہا کرتیں تھی ۔

مگر آج ابّا سائیں کے انتقال کے تیرہ سال بعد امّاں جی کی مہمان نوازی میں واضح فرق نظر آیا جِسے نہ صرف ہم سب بہن بھائیوں نے ہی محسوس کیا بلکہ ہمارے بہت سے قریبی رشتہ داروں نے بھی ہم سے امّاں جی میں یوں اچانک اِن کی روائتی مہمان نوازی سے متعلق پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور اِن کے رویوں اور سوچوں کا بھی تذکرہ کیا کہ امّاں جی! جیسے اَب گھر آنے والے مہمانوں سے کچھ بیزار سی ہونے لگی ہیں اور اِن میں اَب میزبانی کے وہ تیور نہیں رہے جیسے پہلے کبھی ہوا کرتے تھے مگر ہفتہ دس دن سے تو اِن میں کچھ عجیب و غریب قسم کی تبدیلی واقعی آگئی تھی یعنی آپ اِسے یوں سمجھ لیں کہ امّاں جی نے جب سے 5 جون 2010 کو پیش ہونے والے وفاقی بجٹ 2010-2011 کی بجٹ تقریر وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی سُنی اور اِس کے بعد سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز سے اِس پر تبصرے سُنے اور اِس کے اگلے روز کے اخبارات پڑھے تو اِس کے بعد سے اَب تک امّاں جی نے تو حد ہی کردی ہے اُنہوں نے تب سے (اِن سطور کے تحریر کرنے تک) ایک ہی ضد اور رٹ لگا رکھی ہے اور وہ مجھ سے یہ کہتی رہتی ہیں کہ میں جلد از جلد اپنے کمپیوٹر سے ایک ایسا پرنٹ (نوٹس لکھ کر) نکالوں اور اِسے اپنے گھر کے مین گیٹ پر لگا دوں کہ جس پر یہ تحریر ہو” اِس سے انکار نہیں کہ مہمان بے شک اللہ کی رحمت ہوتے ہیں مگر اِس بجٹ 2010-2011 کے بعد جس میں غریب کے لئے آٹے، گھی اور دالوں پر سے سبسڈی ختم کردی گئی ہے اور عوامی حکومت نے ایک فیصد مہنگائی کم کرنے کے بجائے اُلٹا 1 فیصد مہنگائی بڑھا دی ہے اِس منظر اور پس منظر میں براہِ کرم! خدارا اَب کوئی مہمان کسی (میزبان) کے گھر چند گھنٹے یا ایک دو روز سے زیادہ ٹھر کر خود کو زحمت نہ بنائیں کیونکہ میزبان بھی اِسی معاشرے کا حصہ ہے اور وہ بھی اِسی منہ توڑ اور سینہ زور مہنگائی کا ڈسا ہوا ہے لہٰذا وہ (مہمان) کسی کے گھر جا کر رحمت کے بجائے زحمت بننے سے اجتناب برتے اور اگر پھر بھی کوئی کسی کے گھر یا ہمارے یہاں اِس نوٹس کو پڑھ کر بھی آنا ہی چاہتا ہے تو بےشک! وہ آئے....اور ضرور آئے ...مگر اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا ضرور ساتھ لائے(ورنہ! ناں آئے) اور وہ حضرات بھی یہ بات اچھی طرح سے نوٹ کرلیں کہ جو صرف چند گھنٹوں کے لئے ہمارے مہمان بننا چاہتے ہوں تو براہِ کرم !وہ بھی اپنے ساتھ دودھ، پتی، چینی اور دیگر لوازمات ساتھ لائیں ہم اُن کے لئے اپنے گھر سے چائے بناکر صرف سروس پیش کرسکتے ہیں اِس کے علاوہ ہم اِس مہنگائی کے دور میں اپنی طرف سے چائے تو کیا.....؟ بسکٹ تک پیش کرنا گوارہ نہیں کریں گے اَب ....آگے ہمارے گھر آنے والے مہمان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ ہمارے گیٹ پر لگے اِس نوٹس کو پڑھ کر ناراض ہو یا خوش اِس مہنگائی کے دور میں اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کہ کوئی ہمارے اِس نوٹس کو پڑھ کر ہمارے متعلق کیا سمجھے گا ....؟اور کیا نہیں....

جی ہاں! قارئین حضرات یہ حقیقت ہے کہ اِس حکومت میں مہنگائی کے بعد ہم جیسے بہت سے غریبوں نے شائد ایسا ہی کچھ کرنے کا پروگرام بنا لیا ہو مگر ہمیں فخر ہے کہ ہماری امّاں جی نے ملک کے کروڑوں غریبوں کی نمائندگی اپنے اِس نوٹس سے کردی ہے کہ وہ لوگ جو کبھی اپنے گھر مہمانوں کی آمد کو اللہ کی رحمت جانتے ہوئے باعثِ مسرت سمجھتے تھے اور اِن کی خاطر تواضع میں بچھ بچھ جاتے تھے اَب آج یہی میزبان اِس بجٹ 2010-2011کی آمد کے بعد مجبور ہیں کہ اپنے گھروں پر یہ عبارت تحریر کر رہے ہیں کہ”خدارا ِس بجٹ کے بعد جس میں آٹے، گھی اور دالوں پر سبسڈی ختم کردی اور ایک فیصد مہنگائی بڑھا دی ہے اَب کوئی مہمان ہمارے گھر نہ آئے“....

اِس کے ساتھ ہی مجھے آج یہ کہنے دیجئے! کہ اِس حکومت نے 5جون کو اپنے تئیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کہنے پر ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کرنے والا بجٹ 2010-2011 بڑی شان وشوکت سے کیا پیش کیا....؟گویا کہ اِس نے اپنے اِس عوام دشمن بجٹ سے ملک کے کروڑوں گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیئے ہیں اور اِسی طرح کروڑوں گھرانوں سے اِن کی برسوں سے جاری مہمان نوازی کی روایات بھی ختم کرنے کا سامان کر دیا ہے اور شائد آنے والے دنوں میں ملک سے مہمان نوازی کا کلچر بالکل ختم ہوجائے اور ساری مہمان نوازی صرف ایوانِ صدر تک محدود ہو کر رہ جائے کیونکہ اِس بجٹ میں ایوانِ صدر کا بجٹ مہمان نوازی کے لئے بڑھا دیا گیا ہے آج یہی وجہ ہے کہ ننگے بھوکے پاکستانیوں کے لئے اِس بجٹ2010-2011 میں کوئی ریلیف نہیں ہے یوں ملک میں اِس حکومت کا گراف جو کبھی تیزی سے کسی حد تک بڑھ رہا تھا اَب اُس سے بھی کہیں زیادہ تیزی سے نیچے کی جانب گر رہا ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 973802 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.