دنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی، کل کے غریب
اور غیر ترقی یافتہ ممالک دولت مند اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو
چکے، لیکن وطن عزیز کی سیاست میں ابھی تک وڈیرہ ازم اور جاگیر دارانہ نظام
قائم ہے، جس میں اب وراثتی کلچر بھی شامل ہو چکا ہے۔ وراثتی سیاست کے کلچر
نے جوہر قابل کے نہ صرف راستے بند کر دئیے ہیں بلکہ کئی عشروں سے جاری برین
ڈرین کی وجہ سے ملک اپنے انتہائی قابل دماغوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے
سے بھی محروم ہو رہا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کو جتنا نقصان وراثتی سیاست پہنچا رہی ہے شائد ہی کسی
اور چیز سے پہنچا ہو۔ جتنی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں ان کے سر براہ پارٹی
کے بانی کی اولاد سے ہیں۔ جماعت اسلامی کو چھوڑ کر تمام پارٹیوں میں بنیادی
جمہوری تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو
تھے، ان کے بعد ان کی بیگم نصرت بھٹو پارٹی کی چئیرمین بنیں اور پھر ان کی
بیٹی بے نظیر بھٹو نے یہ عہدہ حاصل کیا، جب کہ اب بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف
زرداری اور ان کا بیٹا بلاول پاکستان پیپلز پارٹی کے مشترکہ چئیرمین ہیں۔
بھٹو کا نام شامل رکھنے کے لئے بلاول کا نام بلاول بھٹو زرداری رکھ دیا گیا
ہے۔
وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی، وزیر اعلیٰ پنجاب
شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی بیٹی
نفیسہ شاہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں، اسی طرح چودھری پرویز الہی رکن قومی
اسمبلی اور ان کے صاحبزادے مونس الہی رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ صدرِ زرداری کی
بہن فریال تالپور قومی اسمبلی کی رکن ہیں، نواز شریف کے داماد کیپٹن
ریٹائرڈ صفدر بھی رکن اسمبلی ہیں۔ خان عبدالغفار خان کی پارٹی بھی باقاعدہ
ایک جائیداد کی طرح ان کے فرزند ولی خان اور پھر ان کے بیٹے اسفند یار ولی
خان تک پہنچی۔ مولانا مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمان اپنے باپ کی
پارٹی کے قائد ہیں، جے یو آئی ہی کے دوسرے دھڑے کی قیادت مولانا عبدالحق کے
صاحب زادے مولانا سمیع الحق کے پاس ہے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بگٹی
قبیلہ کے وارث ان کے بیٹے ہیں۔ آزاد کشمیر میں سردار عبدالقیوم کا سیاسی
ورثہ ان کے بیٹے سردار عتیق احمد خان کے پاس ہے، جب کہ دیگر کشمیری رہنماؤں
کی اولادیں بھی اپنی اپنی جماعت کی قیادت کر رہی ہیں۔ سب سے برا حشر مسلم
لیگ کا کیا گیا۔ پاکستان کی بانی اس جماعت کو درجنوں حصوں میں تقسیم کر دیا
گیا اور ہر مسلم لیگ کا سربراہ چاہے اس کی ننھی منی جماعت ہی کیوں نہ ہو،
اپنی مسلم لیگ کو ہی قائد اعظم کی اصل وارث قرار دیتا ہے۔
عوام کو ہر وقت بیوقوف بنانے والے سیاستدانوں نے بظاہر جمہوریت کا لبادہ
اوڑھ رکھا ہے لیکن انہوں نے آئین سے پارٹی کے اندرونی انتخابات لازمی قرار
دینے والی شق ہی ختم کر دی ہے۔ ہم سے بہتر صورت حال تو بھارت میں ہے جہاں
پر وراثتی سیاست کا تجربہ ناکام ہو گیا ہے۔ ہرچند کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم
جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اور پھر ان کے بیٹے راجیو گاندھی برسر
اقتدار آئے، لیکن دوسری جماعتوں کے سربراہ بھی وزرائے اعظم بنتے رہے، جن کا
تعلق نہرو خاندان سے نہیں۔ دنیا میں کچھ ایسے بھی عظیم اور با کردار لوگ
گزرے ہیں جنہوں نے ہر قسم کے مواقع اور سہولتیں ہونے کے باوجود وراثتی
سیاست سے اجتناب کیا۔ چین کے ماوزے تنگ Tung اور چواین لائی، ایران کے امام
خمینی، مصر کے جمال عبد الناصر، ویت نام کے ہوچی من، جنوبی افریقہ کے نیلسن
منڈیلا اور یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو وغیرہ انہی عظیم لوگوں میں سے ہیں جو
بادشاہت اور وراثتی سیاست کے قائل نہ تھے۔ چین میں انقلاب برپا کرنے والے
ماوزے تنگ کا بیٹا ایک معمولی فلیٹ میں رہتا تھا۔ امام آیت اللہ خمینی کا
بڑا لڑکا بڑا متقی اور اسلامی تعلیمات کا ماہر تھا، فوت ہونے پر پتہ چلا کہ
ان کا بنک بیلنس پاکستان کے 47روپے کے برابر تھا، اور امام خمینی نے کئی
رفقا کی خواہش کے باوجود انہیں اپنا جانشین مقرر نہ کیا۔ لیکن یہ ایسی
مثالیں ہیں جن کا تعلق پاکستان سے نہیں۔ پاکستان میں معاشی استحکام اس وقت
آئے گا جب اصل جمہوریت آئے گی اور اصل جمہوریت تب آئے گی جب مسلم لیگ ن کی
قیادت شریف خاندان سے باہر احسن اقبال، جاوید ہاشمی یا چودھری نثار کے پاس
ہو گی، اے این پی کی قیادت اسفند یار ولی سے حاجی عدیل یا افراسیاب خٹک کو
مل جائے گی، مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کی سربراہی حافظ حسین احمد
کریں گے، مسلم لیگ ق کی قیادت مونس الہی کے علاوہ پارٹی کے کسی دوسرے رہنما
کو سونپ دی جائے، یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت آصف زرداری کی جگہ
امین فہیم، رضا ربانی یا اعتزاز احسن کے سپرد کر دی جائے گی۔ جس ملک کی
سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں وہ ملک میں کیا جمہوریت قائم کر سکتی ہیں۔ |