صحٰح انتخاب

سیاست دانوں کے کھوکھلے نعروں سے متاثر ہونے کی بجائے عوام اپنی عقل و سمجھ استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ اپنی ترجیحات خود طے کریں اور اپنی قیادت کا درست انتخاب کریں۔ درست قیادت ہی ملک و قوم کو ترقی کے راستےپر گامزن کر سکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت ہر طرف پانامہ لیکس کا شور ہی مچا ہوا ہے، گو کہ یہ بھی ایک مسئلہ ہے اور گھمبیر مسئلہ ہے، لوگ ایک دوسرے کو ملزم اور مجرم ثابت کرنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں ۔ جبکہ ہو نا یہ چاہیے تھا کہ مختلف ادارے جن کا تعلق رقم کے لین دین ، ترسیل اور جانچ پڑتال سے ہے وہ مل بیٹھ کے سوچیں کہ ہمارے قوانین میں ایسے کون سے رخنے موجود ہیں کہ یہ سب کچھ ہو گیا اور ایسا کیا کرنا چاہیے کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے جس سے ملک اور قوم کی بدنامی ہو۔ سیاست دانوں کو تو اس وقت اسمبلی میں ہونا چاہئے کہ وہ اس مسئلہ پہ خوب بحث کرتے ، غورو فکر کرتے اور کسی نتیجہ پر پہنچتے کہ ایسا کیوں ہوا اور جنہوں نے ایساکیا ان کے خلاف کیا کاروائی کرنی ہے۔ جب تمام سیاست دانوں کو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے اسمبلی میں پہنچا دیا ہے اب ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کی آواز کو ملک کے سب سے بڑے فورم پہ اٹھا سکیں۔ جب الیکشن کا وقت ہوتا ہے تو یہی لیڈر اونچی اونچی آواز میں، بڑے جوش کے ساتھ نعرے لگاتے ہیں کہ ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں گے، ان کو مسائل سے چھٹکارا دلائیں گے، وسائل کا بہترین استعمال کریں گے اور کرپشن کرنے والوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالیں گے۔ بھولے عوام ان کی باتوں میں آ کر ان کو ووٹ ڈالتے ہیں ، ان کے جوش کو ہوش کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ ان کے جوشیلے انداز میں بہتے چلے جاتے ہیں اور ان کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سب سے بڑی طاقت کو جوش میں آ کر ایسے لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں جو ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے عوام کو بھول جاتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اب عوام کو بھی ان لیڈروں کو بھول جانا چاہئے، اور اب عوام کو صحیح معنوں میں ان سے جمہوریت کے ذریعے انتقام لینا چاہئے۔ اب عوام کو اپنے مسائل خود ہی حل کر لینے چاہئے کیونکہ ان کے تو اپنے مسائل ہی حل نہیں ہو رہے یہ کیا خاک ہم پہ توجہ کریں گے۔ آئے دن کسی نہکسی لیڈر کا کوئی نہ کوئی سکینڈل نکل آتا ہے۔ اور پھر سب مل کے اس کو بچانے میں مصروف ہو جاتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کو پتا ہے کہ کل پھر ان کی باری بھی آنی ہے۔ لیکن اس دفعہ عوام نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اب صرف اور صرف عوام کی باری ہونی ہے۔ اس بار جب یہ لیڈر عوام سے ووٹ مانگنے آئیں تو سب سے پہلے ان سے ان کی جائیداد، ان کے اثاثوں کو جانیں اور ان کا ریکارڈ چیک کریں، پھر دیکھیں کہ ان کی آمدنی کیا ہے اور وہ کتنا ٹیکس جمع کرواتے ہیں۔ ان کی تعلیم، کردار، رویہ اور سب سے بڑھ کے ملک کے روشن مستقبل کے بارے میں ان کی رائے اور منصوبہ بندی کو جانیں۔ اگر لیڈر ان تمام باتوں پر پورا نہ اترے تو اسے کبھی بھی ووٹ نہ دیں، چاہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی، علاقے، برادری، مسلک، فرقے، زبان سے ہو۔ آپ ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو مخلص ہو، جو نیک ہو، شریف ہو، ایمان دار ہو، تعلیم یافتہ ہو، جس کا کردار صاف ہو، جس کی سوچ اور فکر قوم کی خاطر ہو، جو قائد اعظم کو اپنا رول ماڈل سمجھتا ہو اور جو اقبال کی فکر سے روشناس ہو اور جو عوام کے لئے درد رکھتا ہو۔ اگر آپ اس بار بھی اپنی قیادت کے انتخاب میں غلط فیصلہ کریں گے تو یقین جانئے آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا جیسا اب ہو رہا ہے۔ یہ سب غلطی ہماری ہے، ہم بار بار ایسے لوگوں کو ہی منتخب کر کے سامنے لے آتے ہیں جو سالہا سال سے اس ملک پہ حکومت کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کوئی فائدہ عوام کو نہیں ہوا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو لوگ ایتے عرصے سے ملک کو چلانے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں وہ تجربہ کار ہوتے، وہ لوگوں کے مسائل سے خوب آگاہ ہوتے اور ان کو حل کرنے میں مہارت کماتے، یہ تو صرف مال کماتے رہے اور ہم عوام وہیں کے وہیں۔ لیکن اب کی بار ایسا نہیں کرنا، اب کی بار تمام ترجیحات ہم نے طے کرنی ہیں، اپنے لیڈر کی بھی اور اپنے مستقبل کی بھی۔ ہم نے وہ لیڈر منتخب کرنے ہیں جو اسمبلی میں جا کے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے بہترین قانون سازی کر سکیں، ہمارے بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے لے کوئی ٹھوس اقدامات کر سکیں، نوجوان نسل کو ایک لائحہ عمل دے سکیں اور اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکیں۔ یاد رکھیں کہ اب کی بار ہم نے صحیح انتخاب کرنا ہے۔
aamer malik
About the Author: aamer malik Read More Articles by aamer malik: 7 Articles with 5264 views Working in social and development sector.. View More