ناروے کے جواں سال معروف سیاستدان و ڈپٹی مئیر یوسف گیلانی سے انٹرویو
(zaib Mahsud, Drammen,NORWAY)
|
یوسف گیلانی |
|
انٹرویو: زیب محسود،درامن ،ناروے
ناروے نہ صرف امیر بلکہ ایک مثالی فلاحی ریاست بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں
بسنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ بنا کلمہ کے ایک مسلم ریاست اور
معاشرہ ہے جس کا ذکر تو تاریخ میں تو ملتا ہے مگر آج ۵۶ مسلم ممالک میں اس
کا تصور دور دور تک نہیں ملتا۔وہی معاشرہ جس کا تصور حضرت عمر فاروق رضی
تعالیٰ عنہ کے دور میں ملتا ہے کہ جس میں خلیفہ وقت انسان تو انسان جانور
وں کے مسائل کے حل کا خود کو ذمہ دار اور جوابدہ سمجھتے تھے۔ آج کے ترقی
یافتہ دور میں ایسامعاشرہ آپ کو ناروے میں ملتا ہے ۔
ایسے معاشرے میں اگر انسان میں حوصلہ جذبہ اور ہمت ہو تو آگے بڑھنے سے آپ
کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ ایسی ہی ایک شخصیت یوسف گیلانی کی بھی ہے۔ جن کے
والدین ساٹھ کی دہائی میں ناروے آئے تھے ۔ ۱۹۷۲ میں پہلے پا کستا نی بچے کی
ناروے میں پیدائش کا اعزازبھی یوسف گیلانی کو حاصل ہوا۔ آپ نے قانون کی
اعلیٰ ڈگری حاصل کی ۔انٹرنیشنل سکول آف لاء نیویارک سے آرگنایئزیشنل لیڈر
شپ کا کورس کیا۔دو سال کالج میں بطورلیکچرر کے کام کیا کچھ عرصہ جرنلزم بھی
کیا۔ کئی ذمہ د ار عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں اور آج کل( آسکر ) شہر میں
اہم پوسٹ پر کام کر رہے ہیں۔
یوسف گیلانی آج کی نوجوان نسل کے لیے ایک شاندار مثال ہیں ۔ گیلانی ناروے
کے چھٹے بڑے شہر درامن کے ڈپٹی میئر کے طور پر بھی سرگرم عمل ہیں۔انگلش اور
نارویجن کے علاوہ اردو بول سکتے ہیں مگر لکھ نہیں سکتے۔ قارئین نیا زمانہ
کہ دلچسپی کے لیے ان سے کی گئی گفتگو حاضر خدمت ہے۔
سوال۔ آپ سیاست میں کب اور کیوں آئے؟
جواب :میں جس معاشرے کا حصہ ہوں یہاں کے معاشرے کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ کوئی
بھی شخص اپنے ارد گرد کے ماحول اور مستقبل سے کبھی بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا
۔یہاں کا ہر فرد کسی نہ کسی پارٹی کا ممبر ضرور ہوتا ہے چاہے وہ بہت زیادہ
ایکٹو نہ بھی ہو۔اس کی حکومتی پالیسیوں پر نظر ہوتی ہے۔ سو میرا بھی دلچسپی
لینا فطری بات تھی ۔ میں نے ۱۹۹۶ میں باقاعدگی سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ
لینا شروع کر دیا ۔ہمارا دور ناروے میں ایمگرنٹس کا پہلا سیاسی بیج تھا اور
ہمیں اپنا مقام بنانے میں بہت محنت کرنا پڑی اور آج میں ۲۰ سال کی مسلسل
محنت اور لگن سے ناروے کا پہلا پاکستانی نژاد ہوں جو ڈپٹی مئیر کے مقام پر
پہنچا ۔
سوال۔ بحثیت ڈپٹی میئر کے آپکی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
جواب :بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ میئر کی غیرموجودگی میں اُن کے قائم مقام
کے طور پر نمائندگی کرتا ہوں ۔ شہر کے ترقیاتی منصوبوں اور ان پر عمل
درآمدمیں اپنا مشورہ دینا اور نمائندگی کرنا۔ مختصر یہ کہ میرے کندھوں پر
بھاری ذمہ داری ہے۔
سوال ۔ آپ کو 2014 میں یورپی یونین ایوارڈ کس کام کے لیے ملا ؟
جواب۔ میں نے داعش نامی تنظیم کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے خلاف پارلیمنٹ
کے سامنے دس ہزار لوگوں کے ساتھ احتجاج کیا تھا اور یہ یورپ میں داعش کے
خلاف پہلا احتجاج تھا اور اس کا احتجاج کا محرک میں تھا ۔لہذا کمیٹی نے اس
ایوارڈ کے لیے مجھے چنا ۔ ایوارڈ دراصل ناروے کو ملا اور ناروے نے ایوارڈ
لینے کے لیے مجھے نامزد کیاتھا۔
سوال ۔ آپ یہاں کی اقلیت یعنی ا یمگرنٹس کے لیے کوئی پلان یا سوچ رکھتے ہیں
کہ ان کے لیے مخصوص مذہبی اور کلچرل پروگراموں کے لیے کوئی جگہ یا سنٹر
ہونی چاہیے۔
جواب۔ اوسلو کے بعد درامن میں سب سے زیادہ امیگرنٹس ہیں اس لیے بہت پہلے
یونین سیناکا کیس میرے پاس آیا تھا اور اس کو بنانے کی بنیاد ی مقصد یہی
تھا کہ اس سنٹر میں اقلیتیں اپنے کلچرل پروگرام اور زند گی کے دوسرے مسائل
کے لیے باقاعدہ اپنی میٹنگز کر سکیں مگر یہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتیں
تھیں لہذا اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ پھر ہم نے ان فلاحی تنظیموں کے
لیے ایک امبریلا تنظیم بنائی او ر اب اس کے تحت مختلف فلاحی آرگنائزیشن کو
فنڈنگ کی جاتی ہے جس سے وہ اپنے کلچرل پروگرام کرتے ہیں۔
سوال ۔ امیگرنٹس کے لیے کوئی خاص کام جو آپ کرنا چاہتے ہوں؟
ج۔ہم کچھ عرصہ سے مسلم کمیونٹی کے لیے اُولڈ پیپلز ہوم بنانے کے منصوبے پر
کام کر رہے ہیں جو آج وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ یہاں کی سوسائٹی میں گھر
کا ہر فرد کام کرتا ہے تو ایسے میں بزرگوں کی دیکھ بھال کافی سنجیدہ مسئلہ
ہے ۔ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور اس سے ہمارے بزرگوں کو ایک صحت مند ماحول
ملے گا۔
سوال ۔ ناروے میں مسلم کمیونٹی کو چائلڈ کئیر سنٹر میں لئے جانے والے بچوں
کے خدشات کے سلسلے میں آپ کیا کر رہے ہو؟
ج۔ اس مسئلے پر مسلسل بحث مباحثہ کر کے طریقہ کار کافی حد تک بہتر بنا دیا
گیا ہے۔ اب کئی مراحل کے بعد کوئی بچہ لیا جاسکتا ہے ۔ اس لیے والدین سے
یکدم بچہ نہیں لیا جاسکتا بلکہ بار بار والدین کو بتایا اور گائڈ کیا جاتا
ہے ۔اُسکے باوجود بھی اگر والدین کا رویہ بچوں سے مثبت نہ ہو، تب کہیں جا
کر بچے کو سنٹر میں بھیجنا ضروری ہو جاتا ہے۔اور اہم بات یہ کہ مسلم بچے کو
حلال کھانا دیا جاتا ہے۔اور وہ لوگ جو ایسے بچوں کو اڈاپٹ کرتے ہیں انھیں
باقاعدہ ایک کورس پاس کرنا ہوتا ۔
سوال۔ آپ کا ناروے میں مساجد کے رول کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ج۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے مجھے اپنے مذہب پہ فخرہے لیکن ایک بات جو محسوس
ہوتی ہے کہ یہاں بھی پاکستان کی طرح معیار پر تعداد کو ترجیح دی جا تی ہے
جو ہ مایوس کن بات ہے او ر دوسری بات یہ کہ اکثر مولوی جو پاکستان سے آتے
ہیں ان کے پاس مکمل تعلیمات اور معلومات کی کمی ہے جبکہ دوسرے ممالک اور
معاشرے میں ان کو اپنے ملک کی نسبت زیادہ باخبر اور مقامی زبان پر دسترس
ہونی چاہیے ۔تاکہ یہاں اگر مقامی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے سوالات ہوں تو
اُن کا بہترجواب دے سکیں اور اُنھیں مطمئن کر سکیں۔
سوال ۔ امام مسجد کی تعلیم کے بارے میں آپ کیا کوشش کر رہے ہیں؟
ج۔ میں نے بہت پہلے یہ تجویز دی تھی کہ امام مسجد کے لیے یونیورسٹی میں کو
ئی مختصر سا کورس ہونا چاہیے اور میں یہ بتا دوں کہ انشااللہ بہت جلد یہ
کورس اوسلو یونیورسٹی میں شروع کر دیا جائے گا۔ جس سے نہ صرف اپنے لوگوں کو
بہتر معلومات دستیاب ہونگی بلکہ کسی مسئلے کی صورت میں یہ مقامی حکومت کے
ساتھ مل کر بہتر خدمات ادا کر سکیں گے۔
سوال ۔ایک اہم پاکستانی نژاد نارویجن سیاستدان ہونے کے ناطے آپ دونوں ممالک
کے بہتر رابطے او ر تعلقات کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
ج۔ ناروے اگرچہ میرا پیدائشی ملک ہے جس سے محبت فطری بات ہے مگر پاکستان سے
بھی میں بہت محبت کرتا ہوں اس لیے ہی تو میں کوشش کر رہا ہوں کے دنیا بھر
میں جو جڑواں شہروں کا جو تصور ہے اس کی طرح ہماری کمیون بھی کسی پاکستان
کے شہر کو ایڈپٹ کرے تو اسکابہت فائدہ ہو گا کیونکہ اس طرح اُس شہر کی فلاح
بہبود میں یہاں کی کمیون بھرپور مدد کرے گی ۔۔۔اور اگر یہتجربہ کامیاب ہو ا
تو نا صرف ناروے بلکہ یورپ کے دوسرے ممالک بھی اس منصوبے میں عملی دلچسپی
لے کر دوسرے شہروں کو اڈاپٹ کرکے پاکستانی عوام کے لیے بہترین انداز میں
مدد دے سکیں گے یعنی بہتر تعلیم اور صحت کی سہولیات وغیرہ۔
سوال ۔ کیا وجہ ہے کے ناروے پاکستانی ارگنائزیشن کے بجائے اپنی( این جی
اوز) کو فنڈز دیتی ہے جبکہ پاکستان کے مسائل مقامی لوگ بہتر جانتے ہیں؟
ج۔اس کا جواب تو کوئی مشکلنہیں پاکستان اور کچھ دوسرے ممالک کی بیشتر ( این
جی اوز) نے اس کو بزنس بنایا ہوا ہے اور انھوں نے اپنا اعتماد خو د کھویا
ہے۔ حالانکہ جو صحیح کام کرتے ہیں ان کو فنڈ ملتے ہیں مثلاّ لاہور کے ایک
قریبی گاوّں ( بدو ملی )کی آرگنائزیشن کو مکمل تعاون حاصل ہے کیونکہ جو کام
کرتے ہیں اُن کو پھر سپورٹ ملنا کوئی مسئلہ نہیں ایدھی کی مثال آپ کے سامنے
ہے ۔
سوال۔کیا آپ تعلیم کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں؟
ج۔ ایک پلان ، سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام، میرے ڈپٹی میئر بننے سے پہلے کا
بنا ہوا ہے جس کا فالو اپ الیکشن کی وجہ سے سست ہوا ہے پر اسکو چھوڑا نہیں
۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ غریب طبقے کے نوجوانوں کو بہتر تعلیم کے مواقع ملیں
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کو ئی ایسا گورنمنٹ سکول ملے جس کا معیار قدرے بہتر
ہو ۔ تاکہ یہاں کے اسٹوڈنٹ جب وہاں جائیں تو کوئی پریشانی نہ ہو ۔ اگر یہ
سلسلہ شروع ہو گیا توہر سال ۳۰ بچوں کو اس پروگرام کے تحت ناروے میں بہترین
تعلیم حاصل کرنے کا کا موقع ملے گا۔صرف دس سال میں تین ہزار اعلیٰ
کوالیفائیڈ نوجوان پاکستان کو آسانی سے مل سکیں گے۔
سوال ۔ ناروے میں پاکستان کی نئی نسل یعنی جو نارویجن سٹیزن ہیں کا سیاست
میں کیا مستقبل ہے؟
ج۔ آج حالات ہما رے دور سے بہت بہتر ہیں ۔ ہمیں خود کو منوانے اور بہتر
ثابت کرنے کے لیے مقامی سیاست دانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ محنت کرنی پڑی
لیکن الحمدللہ ہمارے تمام ساتھیوں کی اس میدان میں انتھک کوششو ں کا ہی
نتیجہ ہے کہ آج حالات بہت بہتر ہیں اور نئی نسل کا سیاسی مستقبل بھی روشن
ہے۔ |
|