ہماری ویب ’رائیٹرز کلب ‘ کے زیر اہتمام کتاب کا عالمی دن

کتاب مطبوعہ ہو یا الیکٹرانک اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں کتاب انتہا پسندی کے خاتمے اور اور امن کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کتاب سے محبت اور چاہت ملک میں شرح خواندگی میں اضافے کا باعث ہوتی ہے

ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کی جانب سے کتاب و کاپی رائیٹ کے عالمی دن کے موقع پر کلب کے مرکزی دفتر واقع شاہراہ فیصل میں ایک اجلاس ہوا جس میں رائیٹرز کلب کی مجلس ِ منتظمہ کے اراکین اور کتاب سے عقیدت رکھنے والوں نے شرکت کی۔ اجلاس ہماری ویب ’رائیٹرز کلب ‘ کے چئیرمین جناب ابرار احمد صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اراکین نے کتاب کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی۔ ہماری ویب ’رائیٹرز کلب ‘ کے صدر ڈاکٹر رئیس صمدانی نے عالمی دن برائے کتاب و کاپی رائیٹ کے حوالے سے اپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا ۔ دیگر مقرر ین میں جناب عطا محمد تبسم، جناب میر افسر امان، شیخ خالد زاہد، پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید اور دیگر مقررین شامل تھے۔ ڈاکٹر صمدانی کے مقالہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
 

image

اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے ابتدائی میں دنوں ، ہفتوں ،سالوں اور دس سالوں کا انتخاب کیا جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح کے مسائل اور issues جن میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے دلچسپی رکھتے تھے کو اجاگر کرنا تھا۔بسا اوقات یو این کے ذیلی ادروں نے اپنے پروگرام کے مطابق بعض مسائل کو اہمیت د یتے ہوئے مخصوص دنوں کو مقرر کرلیا جیسے عالمی ادارہ صحت WHOنے صحت کا عالمی دن، World No-Tobacco Day، گردوں کا عالمی دن، دل کا عالمی دن،ٹی بی کاعالمی دن وغیرہ کے انعقاد کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح یونیسکو نے بھی بعض موضوعات کو اجاگر کرنے اور عوام الناس میں شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف دنوں کا انتخاب کیا اور اس دن اس موضوع کی مناسبت سے سیمینار، ورکشاپ، کانفرنسیز اور نمائش کا اہتمام کیا جانے لگا۔ جیسے ’پانی کا عالمی دن‘، عالمی لٹریسی ڈے‘، عالمی ماحولیاتی ڈے‘، ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن، مادری زبان کا عالمی دن اوراسی طرح دیگر موضوعات پر دنوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

علم و ادب اور تحقیق کی دنیا میں کتاب اپنا مُماثل نہیں رکھتی ، حتیٰ کہ برقی کتاب یعنی الیکٹرونک بک بھی مطبوعہ کتاب کا نہ تو نعمل بدل ہے ، نہ ہی اس سے بہتر ذریعہ ۔مطبوعہ کتاب کو حصول علم، ترسیل علم اور فروغ علم میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پڑھنا یعنی اقراء ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، ہماری کتاب ’قرآن مجید ‘ کی ابتداء ہی لفظ ’اقراء‘ سے ہوئی۔ اہلِ مغرب کے لیے کتاب جتنی اہمیت رکھتی ہے مسلمانوں کے لیے کتاب اتنی ہی اہم اور اَفضَل ہے۔آنحضرت محمد ﷺ نے خطُبۂ حجّتہ الوَداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز
چھوڑے جاتا ہوں کہ کبھی گمراہ نہ ہوگے اگر اس پر قائم رہے اور وہ اﷲ کی کتاب ہے‘‘۔

کتاب کے عالمی دن کے لیے یونیسکو نے ۲۳ اپریل کا انتخاب کیا اور اس دن کو ’’کتاب اور کاپی رائٹ کا عالمی دن‘‘ قرار دیا۔بنیادی مقصد عوام الناس میں کتاب کی اہمیت اجاگر کرنا،کتاب سے محبت اور انسیت کا شعور بیدار کرنا، لوگوں میں مطالعہ کی عادت کا فروغ شامل ہے اس کے علاوہ کاپی رائٹ یعنی حقِ تصنیف کا بنیادی مقصد ادیبوں، شاعروں ، مصنفین و مؤلفین کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بناناہے جو قلمی کاوشوں اور تخلیقی عمل کے نتیجے میں ان کا حق بنتا ہے۔ پاکستان میں یہ قانون ’’پاکستان کاپی رائٹ ایکٹ ۱۹۶۲ء‘‘ کے نام سے نافذ العمل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون پر نظر ثانی بھی کی جاتی رہی ۔۲۳ اپریل کے انتخاب کی وجہ اور اس کا تاریخی پس منظر دلچسپ بھی ہے اور منطقی بھی۔ کتاب کسی بھی انسانی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے، اس کا خالق عرفِ عام میں مصنف کہلاتاہے ۔ چنانچہ اقوام متحدہ نے کتاب اور ان کے خالقوں یعنی مصنفین کو عالمی سطح پر خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے اس دن کا انتخاب کیا۔ ۲۳ اپریل اہل مغرب کے لیے مناسب دن ضرورہوسکتا ہے اور ہے بھی لیکن اسلامی نقطہ نظرسے یا مسلمانوں کے حوالے اس دن میں کوئی منطق اور معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ یہ تاریخ متعدد مغربی مصنفین اور دانشوروں کی پیدائش یا اس دنیا سے رخصت ہوجانے کا دن ہے۔اس دن کا کتاب سے کیا تعلق ہے ؟ تحقیق سے واضع ہوا کہ سب سے پہلے اسپین کے شہر کیٹا لونیاCataloniaمیں کتب فروشوں نے اس دن کو تقریب کے طور پر منانے کا اہتمام کیا جس کا مقصد معروف مصنف Miguel de Cervantes کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا جس کا انتقال ۲۳ اپریل کو ہوا تھا۔پھر اُس ریجن میں یہ تقریب Saint Georg's Day کا حصہ بن گئیں۔عہد قدیم medieval era سے ایک روایت یہ بھی چلی آرہی تھی کہ اس دن مرد حضرات خواتین کو گلاب کا پھول پیش کیا کرتے تھے، ۱۹۲۵ ء میں اس روایت میں ایک خوش گوار تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ جواب میں خواتین مردوں کو کتاب تحفے میں دینے لگیں۔کیٹالونیا شہر میں اس دن چار لاکھ کتابیں فروخت ہونے لگیں اور اس کے مقابلے میں چار ملین گلاب کے پھول خریدے اور تحفہ کیے جاتے تھے۔
 

image


۲۳ اپریل عالمی ادب کے لیے ایک symbolic date for world literature تھی کیونکہ اس دن Catalonian festival کے علاوہ مغربی دنیا کے معروف دانشور اور شاعر شیکسپئر(Shakespearکی موت ۲۳ اپریل ۱۶۱۶ء کو واقع ہوئی، گویا آج سے چار سو سال قبل۔ ولیم ورڈسورتھ(William Wordsworth)۲۳ اپریل ۱۸۵۰ء کو اس دنیا سے رخصت ہوا،، کاروینٹیس (Carvantes)، انکا گارسیلاسو ویگا ڈرؤن(Inca Garcilaso de la Vega Maurice Druon) ، کے لیکسنیس(K. Laxness) ولاڈیمور نابوکو (Valdimir Nabokov)، جوزیف پلا(Josep Pla)اور میونیل ماجیا ولیجوکا(Manuel Mejia Vallejo) کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات بھی ہے۔ دنیا کی معروف ادبی شخصیات کا اس دن سے تعلق یونیسکو کے لیے وجہ بنا کہ وہ اس دن کو عالمی سطح پر کتاب اور اس کے خالق کو tributeپیش کرے کے لیے اختیار کرے۔ ۱۹۹۵ء میں یونیسکو جنرل کانفرنس پیرس میں پہلی بار منعقد ہوئی جس میں عالمی سطح پر کتب اور مصنفین کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اورریڈنگ، پبلشنگ اور کاپی رائٹ کے فروغ کے لیے ہر سال اس دن کو عالمی سطح پر منانے کی سفارش کی۔ اس کا بنیادی مقصد to promote reading, publishing and copyright ہے۔اور مصنفین، ناشرین، لائبریرینز اور پڑھنے والوں کے مابین رابط، تعلق پیدا کرنا اور انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ کتاب لکھنے والوں کو لکھنے کی ترغیب دینا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا، مطالعہ کی عادت پیدا کرنا اور لوگوں کو کتاب کی جانب مائل کرنا، کتاب شائع کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ کتاب کی اہمیت ہر دور اور ہر زمانے میں رہی ہے، آج بھی ہے اورآئندہ بھی رہے گی۔بعض احباب کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے کتاب کی اہمیت اور وَقَعت ختم ہوگئی ہے یا کم ہوگئی ہے۔ نہیں ہر گز نہیں، کتاب کی اہمیت آج بھی و ہی ہے، آج بھی best sellerمنظر عام پر آرہی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کتاب چھپ رہی ہے، فروخت ہورہی ہے اور پڑھی بھی جارہی ہے۔البتہ لوگوں میں مطالعہ کی عادت بہت خفیف ہوگئی ہے۔ مطبوعہ کتاب پڑھنے کا جو لطف ہے وہ کمپیوٹر اسکرین پرپڑھنے میں ہر گز نہیں۔

برقی ترقی کے حوالے سے ہم کتنی ہی ترقی کرلیں کتاب کی وقعت اپنی جگہ مسلم رہے گی۔

کتاب سے محبت و عقیدت کی بے شمار مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں جن سے کتاب کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ ابن رشد نے ساری عمر کتب بینی میں صرف کر دی اس کی عمر میں صرف دو ’۲‘راتیں ایسی گزری کہ جب وہ مطالعہ نہ کر سکا، ایک شادی کی اور دوسری والدہ کی وفات کی رات۔اسی طرح مشہور عالم جاحظ نے تو اپنی جان ہی ذوق مطالعہ کی نظر کر دی وہ آخری عمر میں مفلوج ہو گیا تھا لیکن اس حالت میں بھی کتا بیں اس کے چاروں طرف لگی رہتی تھیں اور وہ مطالعہ میں منہمک رہتا تھاایک دن کتا بیں جاحظ پر گر پڑیں اور وہ ان کے نیچے دب کر مر گیا۔ جاحظ کا کہنا تھا کہ ’’جب تک آپ چاہیں کتاب خاموش رہتی ہے جب آپ بات کرنا چاہیں تو یہ فصاحت کے ساتھ بولنے لگتی ہے اگر آپ کسی کام میں مصروف ہیں تو یہ خلل اندازی نہیں کرتی اور اگر آپ تنہائی محسوس کریں تو وہ آپ کی ایک شفیق ساتھی بن جاتی ہے ، وہ ایک ایسا دوست ہے جو آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دیتا نہ آپ کی چاپلوسی کرتا ہے اور ایسا ساتھی ہے جو کبھی آپ سے اُکتا تا بھی نہیں‘‘۔ہمایوں کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اسے کتابوں سے خاص رغبت تھی، ہمایوں کا کتب خانہ تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ ہمایوں کا ستاروں کے علم سے خاص لگاؤ تھا ایک روز وہ اپنے کتب کانے کی چھت پر ستارہ زہرہ کا مشاہدہ کرنے گیا، مغرب کی اذان سن کر نیچے اُتر رہا تھا کہ سیڑھیوں پر پھسل کر گر گیا اور اس ـصدمہ میں ہی وفات پا گیا۔ ایک اور عالم کا کہنا ہے کہ ’’ کتاب مرُدوں کی زبان اور زندوں کی آواز ہے وہ شام کے وقت آپ سے ملنے والا ایسا دوست ہے جو اس وقت تک نہیں سوتا جب تک آپ خود نہ سوجائیں اور ہمیشہ وہی بات کرتا ہے جس سے آپ کو خوشی ہتی ہے۔ کبھی آپ کا راز فاش نہیں کرتا وہ انتہائی درجہ کا وفادار ہمسایہ ہے اور معقول دوست ، فرمابردار ساتھی، منکسر المزاج استاد اور ایک ماہی و مفید غم غسارہے‘‘۔

اسحاق بن سلیمان کی عمر سو برس کی ہوئی انہوں نے شادی نہیں کی جب کسی نے ان سے اولاد کے بارے میں دریافت کیا تو کتابوں کے اس شیدائی نے جواب دیا کہ ـ’’اپنی کتاب ’’حمیات‘‘ کے ہوتے ہوئے اولاد ہونے کا خیال بھی مجھ کو نہیں آیا۔خان بہادر خدا بخش مرحوم نے پٹنہ میں ’’خدابخش اورینٹل لائبریری‘‘ جیسے عظیم الشان کتب خانے کی بنیاد ڈالی ۔ کتابیں حاصل کر نے کے لئے مولوی صاحب نے ہر طریقہ خواہ وہ اخلاقاً معیوب کیوں نہ تھا اپنے لئے روارکھا، حالانکہ وہ ایک متقی اور راست باز انسان تھے۔ مولوی خدا بخش کا کہنا تھا کہ ’نادر و نایاب چیزوں کے جمع کر نے کا فن ہر پابندی سے مستثنیٰ اور فوج داری قانون سے بالا ہے۔ کتاب کے بارے میں آپ نے کہا کہ اندھے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کی بصارت زائل ہو جاتی ہے۔ دوسرے وہ جو آنکھیں رکھنے کے باوجود اپنی کوئی بیش قیمت کتاب کسی دوست یا واقف کار کو مطالعے کے لیے مستعاردے دیتے ہیں اور تیسرے اندھے وہ لوگ ہیں جو ایک بار ایسی کتابوں پر قبضہ پالینے کے بعد انھیں واپس بھی کر دیتے ہیں۔

مولانا حسرت موحانی پر بغاوت کے جرم میں مقد مہ چلا اور دو سال قید با مشقت اور پانچ سو روپے جرمانے کی سزا ملی، حسرت جیسے درویش کے پاس اتنی رقم کہا تھی چنانچہ ان کی بیش بہا اور نادرو نایاب کتب کو جنھیں انھوں نے بڑی محنت اور کاوش سے جمع کیا تھا صرف ساٹھ روپے میں حکومت کی جانب سے نیلام کر دیا گیا۔حسرت نے لکھا کہ ’’اس جرم کی بدولت کتب خانہ اردوئے معلی کی جو حالت ہوئی اس کا بیان دردناک ہے۔ جن کتا بوں کو راقم الحروف نے معلوم نہیں کن کنِ کو ششوں اور دِقتوں سے بہم پہنچا یا تھا ، ان سب کو پولیس کے جاہل جوان ٹھیلوں میں اس طرح بھر کر لے گئے جس طرح لوگ لکڑی اور بھُس لے جا تے ہیں‘‘۔ سر سید احمد خان مطالعہ کے بے حد شوقین تھے آپ نے لکھا کہ ’حیات جاوید ‘ جس کی ضخامت ایک ہزار صفحات تھی میں نے دو شب میں ختم کر ڈالی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ اپنے اس معمول کے مطابق کہ کسی نئی کتاب کے حصول پر کم از کم ایک وقت کا کھانا کھانا ضرور فراموش کر دیتا تھا اس دن بھی میں شام کا کھا نا نہیں کھا یا، اس خوف سے کہ اتنی دیر تک مطالعے سے محروم رہ جاؤں گا‘‘۔
 

image

ممتاز مزاح نگار مرزا فر حت اﷲ بیگ کو کتب بینی کا شوق ہمیشہ رہا یہ بھی ہو تا تھا کہ دستر خوان پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے ہیں اور کتاب بائیں ہا تھ میں ہے۔استاد داغ دہلوی ہر نئی شائع ہو نے والی کتاب فوراً خرید لیا کر تے اور اسی وقت اس کے مطالعے میں مصروف ہو جاتے اور اسے مکمل پڑھ کر چھوڑتے، انھوں نے اپنے دولت کدے کا ایک بڑا کمراکتب خانے کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ شہید حکیم محمد سعید نے ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تو ان کے ہمراہ کئی سو کتا بیں بھی تھیں جو ان کی ذاتی لائبریری تھی ، کتاب سے محبت اور عقیدت کے باعث اس میں اضافہ ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ ذاتی ذخیرہ کتب پہلے ہمدرد لائبریری ہو ااور پھر اسی نے بیت الحکمہ کی صورت اختیار کی جس میں چار لاکھ سے زیادہ کتا بیں ہیں۔نامور قانون داں خا لد اسحاق مر حوم کتا بوں کی خریداری پر ۵ء۳ ملین روپے سالانہ خرچ کیا کر تے تھے ان کے کتب خانہ لاکھوں کتابوں سے آراستہ تھا۔مشفق خواجہ بلند پایہ محقق نکتہ رس نقاد اور منفرد مزاح نگار ہو نے کے ساتھ ساتھ کتاب کے سچے عاشق تھے ان کاذاتی کتب خانہ انفرادی ملکیت کے عظیم الشان کتب خانوں میں سے ایک ہے۔ کتا بوں کا یہ عاشق جس مکان میں رہائش پذیر تھا ، اس کی نچلی اور پہلی منزل پرکل ملاکر دس کمرے تھے اور ایک کمرہ دوسری منزل پر بنا ہوا تھا ۔اس مکان میں صرف ایک کمرہ رہائش کے لیے تھا، باقی سب میں کتابیں تھیں۔سقراط کا کہنا تھا کہ’’ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے‘‘۔ فلسفی ایمرسن کا کہنا ہے کہ ’’اچھی کتاب بے مثال دوست ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے‘‘ کارلائل کے خیال میں ’’اچھی کتابوں کا مجموعہ دور جدید کی سچی یونیورسٹی ہے‘‘ ۔ ملٹن کا کہنا تھا کہ ’’ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سیروشناس کرانا ہے‘‘ ۔

حَقیِقَت یہ ہے کہ مطالعہ کا رجحان روز بروز کم ہوتا جارہا ہے،ہماری ترجیحات سے کتاب خارج ہوگئی ہے،علم پسندی کی روایت معدوم ہوتی جارہی ہیں، بقول فاطمہ ثریا بجیا ’کتابیں چھپ رہی ہیں ، قاری کہیں گم ہوگیا ہے‘، پروفیسر سحر انصاری کے خیال میں ’’نئی نسل کتابوں کے مطالعے سے گریزاں ہے‘‘۔ وجوہات کیا ہے ہم کتاب سے کیوں دور ہوتے جارہے ہیں۔مختلف ماہرین مختلف وجوہات اور تاویلیں دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم کا کہنا تھا کہ الیکٹرونک میڈیا کی برق رفتاری اور انٹر نیٹ کی سہولت نے نئی نسل کو کتاب سے دور کردیا ہے‘۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی مرحوم نے اس کا ذمہ دار نظام تعلیم کو ٹہرایا تھا، مسعود احمد برکاتی والدین کو ذمہ دار تصور کرتے ہیں، ڈاکٹر وقار احمد رضوی کتاب سے لاتعلقی کی وجہ ادب اور فلسفے سے عدم دلچسپی کو تصور کرتے ہیں، ڈاکٹر فاطمہ حسن کا خیال ہے کہ کتاب عام قاری کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے ، لوگوں میں قوت خرید نہیں رہی۔ پروفیسر منظر ایوبی ادب سے لاعلمی کو کتاب سے دوری کا سبب گردانتے ہیں۔ وجوہات جو بھی ہوں یہ ایک اہم اور قومی نوعیت کا مسئلہ ہے اس پر قومی سطح پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اس اہم اور قومی مسئلہ کو کبھی خاطر میں نہیں لائیں۔ ملک کے دانشور اور صاحبِ علم طبقے کو اس اہم قومی مسئلہ پر توجہ دینا ہوگی۔

کتاب سے دوستی، عقیدت، محبت ، قربت ، ایمان و اعتماد انسان کے نفس کی پاکیزگی، صفائی، طہارت اعتدال، شائستگی، ایمانداری، دیانت داری اور پرہیزگاری کا باعث ہوتا ہے اور یہ بھی کہ کتاب انتہا پسندی کے خاتمے اور اور امن کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ کتاب سے محبت اور چاہت ملک میں شرح خواندگی میں اضافے سے ہی ممکن ہے۔ چنانچہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم جہاں ہیں ، جس حیثیت میں بھی ہے عوام و خواص کو کتاب سے محبت کا درس دیں ، انہیں کتاب پڑھنے کی ترغیب دیں ۔
YOU MAY ALSO LIKE:

23 April is a symbolic date for world literature. It is on this date in 1616 that Cervantes, Shakespeare and Inca Garcilaso de la Vega all died. It is also the date of birth or death of other prominent authors, such as Maurice Druon, Haldor K.Laxness, Vladimir Nabokov, Josep Pla and Manuel Mejía Vallejo.